کے این واصف
ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ حالیہ عرصہ میں اس سلسلہ کی اہم دستاویز ’’سچر کمیٹی رپورٹ ‘‘ کو کہا جاسکتا ہے ۔ پھر یو پی اے حکومت کے پچھلے دور میں ’’فاطمی کمیٹی رپورٹ‘‘ بھی پیش ہوئی ۔ ان رپورٹوں نے عملی طور پر اب تک مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی پسماندگی میں کوئی سدھار یا کوئی نمایاں ظاہری فرق تو پیدا نہیں کیا، سوائے اس کے کہ دنیا کے سامنے یہ بات آگئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت ملک کے دلتوں سے بھی ابتر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومتی سطح پر مسلمانوں کیلئے کچھ کیا گیا ہے یا نہیں کی بجٹ سے قطع نظر سچر کمیٹی رپورٹ نے مسلم معاشرے کی آنکھیں ضرور کھولیں۔ لہذا پچھلے برسوں میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے مقصد سے خود مسلم تنظیموں نے ملک میں اپنی سطح پر کوششیں شروع کیں۔ جلسوں ، سمینارز، سمپوزیم اور تعلیمی ورکشاپس کے ذریعہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ۔ تعلیم کی اہمیت سے ان افراد کو آگاہ کیا گیا جن کا دین خود ’’ اقراء‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں کام کر رہی سماجی تنظیمیں بھی دامے ، درمے ، سخنے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ہفتہ کے اختتام پر ’’اترپردیش اوورسیز ویلفیر اسوسی ایشن(اپوا) ریاض نے ایک تعلیمی ورکشاپ کا انعقاد عمل میں لایا ۔ ’’اپوا‘‘ نے اپنے تعلیمی ورکشاپ کے مقاصد یوں بیان کئے ۔ مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت کے تئیں بیداری پیدا کرنا جو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی ضامن ہے۔ مسلمانوں کو اپنے بچوں کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا۔ مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دینا کہ ہر شخص اپنی وسعت کے مطابق سماج کی فلاح و بہبود کیلئے علم کی روشنی پھیلانے میں اپنا حصہ ادا کرے ۔ موجودہ تعلیمی نظام کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ضروری تدابیر پر غور و فکر کرنا ، امت مسلمہ کے ہر بچہ کو بنیادی اسلامی تعلیم سے روشناس کرانے کو ممکن بنانا ، ایک ایسے نظام تعلیم کے بارے میں غور و خوض کرنا جو موجودہ عصری نظام تعلیم کے تمام پہلوؤں کو اپناتے ہوئے ایک متوازن دینی و دنیوی تعلیم فراہم کرنے کے بہتر طریقوں پر غور و فکر کرے وغیرہ۔
سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ایک مسلمہ حقیقت ہے اور شمالی ہند کے حالات جنوب سے زیادہ خراب ہیں۔ شمال میں ریاست اترپردیش ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کا رقبہ اتنا وسیع ہے کہ ریاست کی سرحدوں پر واقع اضلاع ہر سطح پر پسماندگی کا شکار ہیں اور ان اضلاع کے مسلمانوں کی حالت ریاست کے دیگر اضلاع سے بہت زیادہ خراب ہے ۔ لہذا ’’اپوا‘‘ نے ان اضلاع میں تعلیمی پسماندگی دور کرنے کا تہیہ کیا اور اس سلسلے میں غور و خوض اور گفت و شنید کیلئے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا ۔
اس تقریب کی صدارت انڈین کمیونٹی کی معروف شخصیت راشد علی شیخ نے کی ۔ پروگرام کا آغاز نو عمر طالب علم عبدالعظیم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ اسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری عبدالرحمن عمری نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور اسوسی ایشن کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ۔ جواں سال شاعر علاء الدین، اسد بلرامپوری نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ ممتاز دانشور عزیر ملک فلاحی نے ’’تعلیم کی اہمیت‘‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کیلئے خلوص نیت اور نیک جذبہ کے ساتھ کاوشیں ہوں تو ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز فلاحی نے اپنی گفتگو میں جو سب سے اہم نکتہ پیش کیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ’’نیشنل کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘‘ (NCERT) کی سطح کا ایک ادارہ قائم کرنا چاہئے جس میں سارے ملک کے مسلمان بچوں کیلئے مکمل نصاب تیار کیا جائے جس میں بچوں کی دنیوی اور دینی تعلیم کو بھی مساوی اہمیت رہے۔
آج ہمارے تعلیمی اداروں میں حکومت کا تیار کردہ نصاب پڑھایا جارہا ہے ۔ اس نصاب میں ہمارے بچوں کیلئے علم ہدایت نہیں ہے ۔ یہی چیز نئی نسل کی گہراہی کا سبب بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان کیلئے علم ہدایت ضروری ہے اور وہ دینی علم میں ہے ۔ مسلمان کیلئے علم بغیر علم ہدایت بے فیض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہماری مساجد سے علم کی روشنی ساری دنیا میں پھیلی تھی اور آج کے سارے جدید علوم اس دور کے مسلمان دانشوروں اور علماء کی تحقیق پر مبنی ہے ۔ عزیز ملک نے کہا کہ عزت و مرتبہ اس کو حاصل ہوتا ہے جس کے پاس علم ہے ۔ اللہ کے نزدیک علم کا حاصل کرنا ہی سب سے اہم شئے ہے اور علم جہالت کی ضد ہے اور جہالت ایک لعنت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انسان کے بعد جو چیز دنیا میں باقی رہ جاتی ہے وہ علم ہے جو اس نے حاصل کیا اور دوسروں کو دیا ۔ اس لئے نبی کریمؐ نے علم حاصل کرنے کو مسلمان مرد و خواتین پر فرض قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ علم ایک بیج کی مانند ہے ۔ بیج ذہن میں بوئیں گے تو ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرے گا اور اس کے ثمر و سایہ سے ہزاروں افراد مستفید ہوں گے ۔
علم ، جستجو اور تحقیق نے انسان کو چاند پر قدم رکھنے کے قابل بنایا ۔ عزیز ملک نے اپنی بات یہ کہہ کر ختم کی کہ علم حاصل کرنے اور علم کی روشنی پھیلانے کیلئے تڑپ ، نیک جذبہ اور اخلاص ضروری ہے ۔ یہی اوصاف ایک صالح ، تعلیم یافتہ اور کامیاب ملت تشکیل دے سکتا ہے۔ اس موقع پر جواں سال مفکر ڈاکٹر عبدالرحیم خاں نے مسلمانوں کی قومی سطح اور خاص یو پی بارڈر سے لگے اضلاع بستی ، سدھارتھ نگر ، بلرام پور ، گونڈہ اور بہرائچ کے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر سلائیڈ پریزنٹیشن کے ذریعہ ہندوستان اور یو پی کے پسماندہ علاقوں کے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا تفصیلی جائزہ و اعداد و شمار اور ان کا حل بھی پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ علم انسان کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کیلئے آکسیجن ۔ انہوں نے کہا کہ ماں کی گود انسان کی پہلی درسگاہ مانی گئی ہے ۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں عورتوں میں خواندگی کی شرح کم ہے اور مسلم طبقہ میں یہ شرح تشویشناک حد تک کم ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان میں 25 فیصد مسلم بچے یا تو اسکول ہی نہیں جاتے یا پہلی یا دوسری کلاس کے بعد ہی تعلیم ترک کردیتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالرحیم نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کا تعلیم کے سلسلے میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں اہل ثروت مگر کم پڑھے لکھے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن کے پاس تعلیم کا کوئی ویژن Vision نہیں ہوتا۔
صدر جلسہ و معروف ہندوستانی بزنس مین انجنیئر راشد علی شیخ نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ ہر بچہ ایک قیمتی پتھر کی مانند ہوتا ہے اور ہر قیمتی پتھر تراش خراش کے بعد ہی ہیرا بنتا ہے ۔ بچہ چاہے کسی بھی علاقہ کا ہو، ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کی بہتر نگہداشت ہو۔ اچھی تعلیم اور اچھا ماحول مہیا کرایا جائے ۔ شمالی ہند اور خصوصاً یو پی اسٹیٹ میں اسکولس کی حالت بہت خراب ہے۔ اسکولوں میں غیر معیاری اساتذہ بھرتی کئے جاتے ہیں ۔ اب جب ٹیچر ہی معیاری نہ ہوں تو تعلیمی معیار کیسے بہتر ہوگا اور کہاں سے اچھے بچوں کی کھیپ ہم نکال پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ہند کی تعلیمی اداروں میں شمالی ہند کے اکثر طلباء تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں ۔ یو پی میں تعلیمی معیار کے بلند نہ ہونے اور تعلیم کے عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو مسلمان سطح غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ مفت تعلیم دینے والے اسکولوں میں تک اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے کیونکہ ان کو حصول علم سے متعلق کوئی شعور و آگہی ہے ہی نہیں اور جو افراد پر متمول ہیں ، وہ اپنی اولاد کو علم نہیں صرف ڈگری دلانا چاہتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں اپنی دولت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر اولاد کیلئے ڈگری خرید لیتے ہیں ۔ ایسے بچے جنہوں نے تعلیم نہیں صرف ڈگری حاصل کی وہ اپنے سماج و ملت کیلئے سرمایہ کبھی نہیں بن سکتے۔
راشد علی شیخ نے آخر میں اترپردیش اوورسیز ویلفیر اسوسی ایشن سے کہا کہ وہ فی الحال یو پی کے پچھڑے ہوئے علاقوں میں اپنی سماجی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں جو ایک قابل ستائش بات ہے ۔ انہوں نے اسوسی ایشن سے کہا کہ وہ جب بھی ممکن ہو اپنے دائرۂ کار کو یو پی کے دوسرے علاقوں میں وسعت دینے کی کوشش کریں۔ تعلیم و تدریس اور دیگر رفاہی کاموں میں مصروف شہر ریاض میں مقیم شخصیات مولانا عبدالقدوس نذیر، مولانا منصور احمد مدنی ، مولانا ظہیر احمد کو اسوسی ایشن کی جانب سے یادگاری مومنٹوز پیش کئے گئے ۔ اسی طرح اسوسی ایشن کے بانی چودھری ارشاد احمد ، مہمان خصوصی راشد علی شیخ ، مشہور صحافی محمد غضنفر علی خاں اور کے این واصف کو اسوسی ایشن نے تہنیت پیش کی ۔ تنظیم کے سرپرست ڈاکٹر عبدالمنان نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے ورکشاپ کی روح کو عملی شکل دینے کیلئے کوشش پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے متمول مسلمانوں کو امت مسلمہ کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے ۔آخر میں انہوں نے مہمانان اور حاضرین کا شکریہ بھی ادا کیا۔