مسلمانوں کے استعمال کے ذریعہ بی جے پی مسلم ووٹ بینک کی سونچ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

’ مسلم ووٹ بینک‘ کو افسانہ کے طور پر ی پیش کئے جانے کی تجاویز کے کافی ثبوت موجود ہیں۔


مجوزہ لوک سبھا الیکشن 2019کے پیش نظر جیسے ہی مہاگٹھ بندھن( عظیم اتحاد) کاوقوع پذیر ہوا ہے ’ مسلم ووٹ بینک‘ کی اصطلاح دوبارہ سنائی دینے لگی۔

سماج وادی پارٹی ( ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) نے اترپردیش کے بیچ اتحاد‘ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس( ٹی ایم سی) اور ریاست تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرایہ سمیتی ( ٹی آر ایس) نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرنے اورنریندر مودی کو دوبارہ اقتدار میںآنے سے روکنے کے لئے ’’ مسلم ووٹ بینک‘‘ کے اصطلاح کا استعمال کررہے ہیں۔

دوسری جانب بی جے پی‘ مودی او رامیت شاہ کا مسلمانوں کو کسی بھی شکل میں بطور ووٹرس مخاطب کرنا خود بخود ایک ’’ ووٹ بینک کی سیاست‘‘ کا عمل بن جاتا ہے‘ بالخصوص اس وقت جب پارٹی کا نعرہ ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور کسی کے ساتھ نہ انصافی نہیں‘‘ ہوگا۔مگر یہاں تک بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمانوں کوووٹ بینک کی طرح استعمال نہ کیاجائے اس کے لئے رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ‘ سیاسی منشاء کے بغیر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کااظہار کیا اس طرح کی حقیقت میں کبھی کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو پسماندہ طبقات کے طور پر مخاطب نہیں کیاگیا( صاف طور سے ذات ۔ نسل۔ طبقے ۔

تقسیم ) رکھا گیا۔

انہیں توقع ہے کہ ووٹ بینک کی سیاست کو مجموعی انداز کی ووٹنگ کے ذریعہ شکست سے دوچار کیاجاسکتا ہے۔ وہ متضاد سونچ مسلم ووٹ بینک کی سونچ میں برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہورہی ہے۔

’ مسلم ووٹ بینک‘ کو افسانہ کے طور پر ی پیش کئے جانے کی تجاویز کے کافی ثبوت موجود ہیں۔نہ تو کانگریس اور نہ ہی سنگھ پریوار نے مسلم ووٹ بینک کی اصطلاح رکھی ہے۔

اس کا دراصل استعمال 1950کے دہے سے شروع ہوا ۔ ماہر سماجیات ایم این سرینواس جنھوں نے 1953میں میسور ریجن( جو اب کرناٹک کاحصہ ہے)کے ایک گاؤں میں فیلڈ ورک منعقد کیاتھانے سب سے پہلے ’’ ووٹ بینک‘ لفظ کا استعمال کیاتھا تاکہ سیاست دانوں اور دیہی علاقوں کے لوگوں کے درمیان رشتوں کا خلاصہ کیاجاسکے۔

سرینواس نے اس بات کا سمجھا تھا کہ انفرادی طور پر مقامی طاقت وار لوگ سیاست دانوں کے لئے’’ ووٹ بینک ‘‘ کے طور پر ابھرے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو ووٹرس اکٹھا کرنے کے لئے ان کے طبقے اور سماج میں لیڈرس کے طور پر پیش کیاجاتاتھا ۔

اس کے بدلے سرینواس کا ماننا تھا کہ ’’ ان وفاداروں کو کچھ فائدہ ہوجاتا ‘ جیسے بسوں او رائس میلز کے لائسنس اور میڈیکل اور ٹکنالوجی کالجوں کہ کچھ سیٹیں جس سے وہ پیسے کما سکیں‘۔

یہاں تک کہ مشہور سماجی لیڈر جئے پرکاشن نارائن کے ہندوستان کے سیاست کا احیاء کے نام پر 1959میں نکالے گئے مشہور پمفلٹ کی درخواست بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سیاسی درجہ بندی کے لئے سماجی دائرکار کا بیجا استعمال ‘ انہوں نے کہاتھاکہ ہندوستانی سیاست ڈیموگرافی کی تجربہ گاہ بن گئی ہے۔ سال1967میں مسلم ووٹ بینک ایک اہم نکات کا حوالہ بن گیا

۔ کیونکہ غیر کانگریس پارٹیوں نے جیت حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو سماجی اتحاد برائے اقلیتیں کے نام کر اکٹھا کرنا شروع کردیا‘ او رکانگریس نے موافق کانگریس مذہبی لوگوں کے روبرو پیش ہونے شروع کردیا

۔پھر اس کے بعد 1980کے دہے میں سیاسی فتوی کی شروعات جامعہ مسجد کے عبداللہ بخاری نے کی اور بالآخر سکیولر اورفرقہ پرستی نے ہندوستان کی سیاست کو 1990کے دہے میں منقسم کردیا ‘ پھر اس کے بعد’مسلم ووٹ بینک ‘ اصطلاح مانو جیسے ہندوستانی سیاست کا حصہ بن گئی

پہلے مسلمان’ رائے دہندوں کی کمیونٹیاں‘ کو ذات برداری مقامی او رعلاقائی کے پیش منظر میں نہیں دیکھا جاتا۔ اسکے بجائے انہیں انتخابی رویہ قومی سیاست کی مسلم طرز عمل کے طور پر صاف طور سے کسی ایک برعکس نظر آنے لگا۔

دوسرا مسلم ووٹ بینک کا استعمال ’ مسلم معاملات‘ کی اصلاح میں سیاسی پیکج کے طور پر استعماکیاجانے لگا‘ جس میں پرسنل لاء ‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ اُردو او ربابری مسجد کی حفاظت جیسی باتیں شامل ہوئیں۔

راست یا بالراست تمام سیاسی جماعتوں نے ان معاملات پر ردعمل دینا شروع کردیاتھا کہ انتخابی سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری کو یقینی بنایاجاسکے ‘ تاکہ ان کی اسلامی شناخت پھیکی پڑ جائے اور وہ ان معاملات میں جکڑ دئے جائیں