مسلمانوں کی شبیہ بگاڑتے مٹھی بھر شرپسند

ظفر آغا

قارئین امریکہ سے شائع ہونے والی انگریزی کی مشہور میگزین ’’ٹائم‘‘ سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ ’’ٹائم‘‘ کے تازہ ترین شمارہ میں مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے دو مضامین شائع ہوئے ہیں ۔ ایک مضمون کا تعلق حال ہی میں پیرس میں ہوئے جہادی حملے سے ہے اور دوسرا مضمون پاکستان میں ایک سندھی قبائلی عورت کی تعلیم نسواں کی کاوشوں کے حوالے سے ہے ۔ راقم الحروف اس مضمون میں ان دونوں مضامین کے چند اقتباسات کاترجمہ پیش کررہا ہے ۔ اس کا مقصد کیا ہے یہ قارئین پر آگے واضح ہوجائے گا ۔ پہلے پیش ہے جہادی حملے کے تناظر میں شائع ہونے والے مضمون کا اقتباس جو کچھ یوں ہے ’’بیالیس فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ دوسرے مذاہب کے مدمقابل اسلام زیادہ تشدد پھیلانے والا مذہب ہے اور یہ بات ییلو ریسرچ سنٹر کے ایک پول سے واضح ہوگئی ہے‘‘ ۔ اسی مضمون میں آگے مضمون نگار (جو خود ایک مشہور و معروف امریکی مسلمان ہے) لکھتا ہے ’’مغرب میں جو کچھ مسلمانوں کے تعلق سے لوگ دیکھتے ، پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بے گناہوں کا قتل ، جوان عورتوں کا اغوا ، اسکولی بچوںکا قتل اور پیرس جیسا حملہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ (ٹی وی پر) دیکھ کر وہ لفظ مسلمان سنتے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں یا ایک باریش مسلمان کو ان کے لباس میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں ۔ اور جلد ہی اپنی راہ بدل لیتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ غالباً 42 فیصد امریکی اسلام کو دہشت سے جوڑنے لگ گئے ہیں‘‘ ۔

یہ تو تھا امریکی اور مغربی افراد کا مسلمانوں کے بارے میں تاثر ۔ اب ٹائم میگزین کے اسی شمارے میں پاکستان کی ایک جوان عورت کے بارے میں دوسرا مضمون ہے ، جو اس عورت کی تصویر کچھ یوں پیش کررہا ہے ’’حمیرا ہمیشہ یہ خواب دیکھتی تھی کہ وہ ایک روز اپنے والد کو اپنے امتحان میں شاندار نمبروں سے پاس ہونے والا رزلٹ ضرور دکھائے گی ۔ میں ہمیشہ چاہتی تھی کہ اپنے باپ کو بتادوں کہ میں اپنے کلاس میں سب سے آگے ہوں ۔ لیکن میری کبھی ہمت نہ ہوسکی کہ میں اپنے والد سے یہ کہہ سکوں ،کیونکہ میرے والد میری اسکولی تعلیم کے سب سے بڑے دشمن تھے‘‘ ۔ ٹائم میگزین نے آگے لکھا ہے کہ ’’لیکن حمیرا آج کراچی کی ایک غریب بستی میں بچوں کا ایک اسکول چلارہی ہے ، جہاں غریب بچے تعلیم حاصل کرکے زندگی کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں اور اب خود حمیرا کے باپ کو اپنی بیٹی پر فخر ہے اور وہ کہتا ہے کہ کون ہے جو میری بیٹی کے کام کی تعریف نہیں کرے گا‘‘ ۔

راقم الحروف نے یہاں مسلم معاشرے کے دو متضاد چہرے پیش کئے ہیں ، جو موجودہ سماج کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ایک طرف نام نہاد جہادی ہیں جو معصوموں کا سرقلم کررہے ہیں اور دوسری جانب حمیرا ہے جوتمام تر پابندیوں کو توڑ کر معصوم بچوں کی زندگی میں علم کی روشنی بکھیر رہی ہے ۔ پہلا چہرہ وہ ہے جس کے سبب مسلمان دہشت گرد کے طور پر پہچانے جانے لگے ہیں ، جبکہ دوسرا چہرہ امن و ترقی کی راہ کی جانب گامزن ہے ۔ غالباً یہی سبب ہے اللہ نے مسلمانوں کو جو سب سے پہلا پیغام بھیجا وہ ’’اقرا‘‘ کا تھا ، کیونکہ اللہ رحمن ہے ، دنیا میں امن و آشتی کا خواہاں ہے ، جو اسلام کا اصل مقصد اور بنیادی پیغام بھی ہے ۔ لیکن دور حاضر کے بعض مسلمان اقراء کا راستہ ترک کرکے اس راستے پر چل پڑے ہیں ، جس سے مسلمان اور اسلام دونوں کا دامن داغدار ہورہا ہے ۔ آخر مسلمان اس تضاد کا شکار کیوں ہیں، جس کی جھلک نام نہاد جہادیوں اور حمیرا کی کہانیوں میں نظر آتی ہے ؟

دراصل اسلامی معاشرہ پچھلے ڈیڑھ سو برسوں سے ایسے تضاد کا شکار ہے اور وہ تضاد روایت پرستی اور جدید فکر کے درمیان ہے ۔ بعض منفی روایت پرستی کو غلطی سے اصل اسلام سمجھ بیٹھے ہیں اور جدیدیت کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کرنے لگے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جدیدیت پر ہے ۔ محمد عربیؐ دنیا کے پہلے شخص تھے جنہوں نے دنیا کو رنگ و نسل اور ہر قسم کی عصبیت سے اوپر اٹھ کر انسانی برابری اور اخوت کا نعرہ بلند کیا تھا ۔ جس equality کا نعرہ یوروپ یعنی مغرب نے 1789 کے فرانسیسی انقلاب میں دیا ، اس equality کو رسول کریمؐ نے کم و بیش چودہ سو سال قبل عرب کے ریگزاروں میں لاگو کردیا تھا ۔ آج ہندوستان میں حکومت اس بات کا اعلان کررہی ہے کہ بچیوں کا بطن مادر میں قتل نہیں ہونا چاہئے ۔ قرآن مجید زائد از چودہ سو سال قبل اس کو حرام قرار دے چکا ہے ۔ پھر اقراء کے پیغام کے ذریعہ مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کو زندگی کی کامیابی کی کنجی عطا کردی تھی ۔ کیا رسولؐ نے اسلام کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی تھی وہ دور جدید میں بامعنی نہیں ہیں ؟ کیا آج مغرب انہی باتوں کو دوسرے الفاظ میں پیش کرکے دنیاکا لیڈر نہیں بن گیا ہے ؟

بوکوحرام جس طرح انگریزی پڑھنے والی بچیوں کو اسکولوں سے اغوا کررہے ہیں ، کیا یہی اصل اسلام ہے ؟ کیا پشاور میں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں اسکولی بچوں کو موت کی نیند سلادینا اسلام کہا جاسکتا ہے ؟
یہ سوال اسلام سے نہیں بلکہ مسلم سماج سے ہے ؟ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جدیدیت کا اولین پیغام دیا ۔ آج اس کے ماننے والے منفی روایت پرستی کا شکار ہو کر اس بات کو اسلام کہہ رہے ہیں جو روح اسلام کے سخت منافی ہے ۔ عورت کو گھر میں قید کرنا قبل رسولؐ کے معاشرے کا شغل تھا جو اب روایت پرستی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ جمہوری نظام کے بجائے ایک ایسا سیاسی معاشرہ قائم کرنا جس میں انسانی حقوق نہ ہوں ،روح اسلام کے منافی نہیں تو اور کیا کہا جائے گا ؟
اب وقت آچکا ہے کہ مسجدوں اور منبروں سے یہ سوالات اٹھائے جائیں ، کیونکہ نام نہاد جہادیوں نے روح اسلام کو مسخ کرکے جنگ و جدال کو جہاد کی شکل دے دی ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان اور اسلام دونوںکو اب لوگ دہشت گردی سے جوڑ رہے ہیں ۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو نام نہاد جہادی مسلمانوں کے سرتھوپ رہے ہیں ، جبکہ مسلمانوں کو ضرورت ہے حمیرا جیسے افراد کی جو اسلام کے پیغام اقراء پر گامزن ہو کر اسلام کا اصل پیغام لوگوں تک پہنچارہے ہیں ۔ اس منفی روایت پرستی سے اوپر اٹھ کر اب جدیدیت کا پرچم بلند کرنے کا وقت آچکا ہے ورنہ مسلم معاشرہ زوال کے اندھیروں میں غرق ہوجائے گا ۔