ڈاکٹر محمد فیض احمد
ریاست حیدرآباد میں عمومی طور پر عام تعلیمی زبان کے لئے دو فریق تھے ، ایک انگریزی زبان کا طرفدار تھے ،جس کی دلیل تھی کہ مغربی فنون و معاشرت کے اثرات بڑھ رہے ہیں اس لئے ریاست کی تعلیمی زبان انگریزی ہو ، لیکن ایک طبقہ دارالعلوم سے فارغ التحصیل تھا ، جس کا خیال تھا کہ دکن جس نے اردو زبان کی ضرورت سمجھی اور عوام میں یہ رابطہ کا ذریعہ ہے نظم و نسق کو عوام کے قریب تر لانے کے لئے بندگان عالی نے اردو کو سرکاری زبان بنایا ، اس لحاظ سے حیدرآباد اردو کا اصل مرکز ہے ۔ اس نقطہ نظر کے تحت اردو کو عام تعلیمی نظام کی زبان قرار دی جائے ۔ جناب مولوی محمد مرتضی نے ریاست میں عام تعلیمی نظام اور اردو ذریعہ تعلیم کی ضرورت پر ایک علمی رسالہ ’’روح ترقی‘‘ شائع کیا ، جس کا مقصد ریاست حیدرآباد کے عوام اورحکمران کو تعلیمی زبان کو منتخب کرنے کے لئے ذہن سازی کرنا تھا ، جناب مولوی محمد مرتضی نے ہی ریاست حیدرآباد میں حکومت کی جانب سے ایک جامعہ کے قیام کی نمائندگی اور تحریک کی ابتداء کی تھی ۔
حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس (1913) کے قیام کا مقصد عوامی بیداری بالخصوص تعلیمی نظام کے لئے تھا ، کیونکہ جیسے جیسے ملک میں انگریزی زبان کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا ، ریاست کے علمی ولولے ماند پڑتے گئے ، ریاست میں چند مولوی فاضل ، بی اے ، ایم اے ڈگری یافتہ تھے ، اگرچہ ایسے فارغ التحصیل افراد کی تعداد حکومت آصفیہ کی آبادی کے لحاظ سے انتہائی مختصر تھی ۔ تعلیم یافتہ افراد میں بھی کوئی تعلیمی جہت کے لئے کوئی عملی رابطہ نہیں تھا ، جس کے ذریعہ ریاست کے عوام میں شعور بیداری ، علمی روشن خیالی اور علم و عرفان کی سعی مشکور کی جاسکے ، جناب مولوی مرتضی صاحب تقریباً 12 سال اعزازی سکریٹری رہے اور ان کی زیر نگرانی آٹھ سالانہ اجلاس ہوئے ، سالانہ اجلاس ریاست حیدرآباد کے مختلف مقامات پر منعقد کئے جاتے تھے اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ ریاست بھر میں کانفرنس کی علمی سرگرمیاں پہنچے ، حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کا پہلا اجلاس حیدرآباد میں نواب حیدر نواز جنگ بہادر (سراکبر حیدری) کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جو کانفرنس کے مستقل صدر تھے ۔ حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں ریاست حیدرآباد کی علمی ترقی کے لئے حسب ذیل مقاصد طے پائے تھے ۔
۱ ۔ جدید علوم و فنون کے تراجم اردو زبان میں منتقل کرنا
۲ ۔ حیدرآباد کی تاریخ و جغرافیہ مرتب کرنا
۳ ۔ نصاب تعلیم مرتب کرنا
۴ ۔ ابتدائی تا اعلی تعلیم کا سلسلہ قائم کرنا
۵ ۔ ریاست میں ایک یونیورسٹی کے قیام کی تحریک
۶ ۔ زراعی تعلیم کی ترقی
۷ ۔ طبی تعلیم کی ترقی
۸ ۔ صنعت و حرفت اور تجارتی تعلیم
۹ ۔ مستحق طلباء میں وظائف کی تقسیم
الغرض اس تحریک سے وابستہ افراد باہمت و زندہ دل ، بیدار مغز ، روشن خیال اور دور اندیش تھے ۔ انہوں نے محسوس کیا تھا کہ ہمارے لئے خالص مغربی طرز تعلیم (Western Education) کی تقلید سودمند نہیں اس میں مقامی عناصر کا شامل کرنا بھی ازحد ضروری ہے ۔ اس نظام تعلیم میں مشرقی علوم اور مغربی علوم کے افکار کو یکجا کیا جائے تاکہ ماضی اور حال کی روشنی تابندہ رہے ۔ حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس نے ابتداء میں یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ اردو زبان میں جدید علوم و فنون کی تعلیم ممکن ہے ۔ اس کے بعد یہ مسئلہ برٹش انڈیا اور ریاست حیدرآباد میں زیر بحث آیا ۔ میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے اس اصول کو تسلیم کیا اور آپ نے 1918ء میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کی اجازت سرحمت فرمائی ۔
مسلمانوں میں ماقبل آزادی انگریزوں کے دور میں دوسری اہم تعلیمی تحریک سرسید احمد خاں کی تعلیمی تحریک ہے جس نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی شکل اختیار کی جو اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے ۔ جس سے مسلمانوں کو خاص جذباتی وابستگی ہے ۔ علی گڑھ تحریک کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے 1870 ء کی تعلیمی اسکیم جو سرسید احمد خاں اور جسٹس محمود نے مرتب کی تھی ، کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان کا مطالعہ ضروری محسوس ہوتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ اس اسکیم کے مرتب کرنے والوں کے ذہن میں آکسفورڈ اور کیمرج کے ملکی نمونے تھے ۔ بلکہ پوری قوم کے لئے ایک مکمل نظام تعلیم ترتیب دینا چاہتے تھے ۔ جس کا ذریعہ تعلیم اردو کو قائم کرنا مقصود تھا ۔ گاؤں گاؤں ایسے مکتب قائم کئے جائیں جہاں قرآن شریف ، اردو ، ریاضی ، فارسی اور انگریزی ثانوعیت حیثیت سے ، اس اسکیم میں تعلیم کا خالص مشرقی تصور دکھائی دیتا ہے ۔ دراصل 1857 کے غدر کے بعد مسلمان شعبہ زندگی کے تمام معاملات میں پچھڑنے لگے تھے ، سرکاری ملازمتوں سے انہیں محروم کردیا گیا تھا ان خالی کرسیوں پر دوسرے ارباب وطن براجمان ہوئے جارہے تھے ۔ سرسید احمد خاں کی تعلیمی اور سیاسی فکر کی بنیادیں اسی مایوسی اور تاریک زمانے میں قائم ہوئی تھیں ، وہ مسلمانوں کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے وقت کی نزاکت کو بہتر سمجھا اپنی قوم کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایک ایسی درسگاہ کے قیام کی اسکیم بنائی جو مشرقی اور مغربی افکار کا امتزاج ہو، جس میں مشرق کی پاکیزہ روح بھی قائم رہے اور مغربی علوم کی جدید فنون سے بھی کماحقہ استفادہ کیا جائے ، سرسید احمد خاں ایک ہمہ گیر اور متوازن تعلیمی نظریہ کے حامل تھے ۔ الغرض ابتدائی ومعیاری قومی ترقی کی اولین سیڑھی ہے ۔ تعلیم یافتہ افراد ہی قومی ترقی کا محور ہوتے ہیں ۔ علی گڑھ کالج کا قیام اسی فکر کا نتیجہ رہا ۔
سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء مولانا الطاف حسین حالی ، چراغ علی ، مولانا شبلی اور محسن الملک وغیرہ اپنی قوم کی تباہی و بربادی کے خود گواہ تھے ۔ لہذا انہوں نے اپنی قوم کی ترقی کے لئے جدید علوم کے حصول کو ذریعہ بنانے کی راہ دکھائی ۔ وہ اس لئے کہ محض اس فرسودہ تعلیمی نظام جس سے مسلمان چمٹے رہے اس نظام تعلیم کا دور ختم ہوچکا تھا ۔ دنیا میں جدید علوم کی نئی نئی شاخیں ایجاد ہوتی جارہی تھیں ، جو خالص مغرب کی دین ہے ۔ اس نقطہ نظر کے تحت انہوںنے دونوں کے امتزاج کو اہمیت دی ، دراصل اس دور میں سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک فکر ونظر کے سارے پیمانے بدل ڈالے ، 1875ء میں قائم ہوا محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بالآخر 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہوا ۔اس طرح حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس نے عثمانیہ یونیورسٹی اور علی گڑھ تحریک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام میں بڑی حد تک ذمہ دار رہے ہیں ۔ ان دونوں یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد قدیم طرز تعلیم کے بجائے جدید تعلیم جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔ اس تعلیم کے نفاذ کی راہیں ہموار ہوئیں ۔