ظفر آغا
جس وقت یہ کالم لکھ رہا تھا، انتخابات کے نتائج آنا شروع ہو گئے تھے، لیکن یہ بات طے ہو چکی تھی کہ ہندوستان کے اگلے وزیر اعظم نریندر مودی ہی بنیں گے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ ملک کے وزیر اعظم مودی ہی ہوں گے، بلکہ یہ بات بھی تقریباً یقینی محسوس ہو رہی تھی کہ مرکزی حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے دم خم پر بنالے گی، یعنی بی جے پی کو مرکز میں اکثریت مل جائے گی۔ بالفاظ دیگر مودی نے ہندوستانی سیاست میں تاریخ رقم کی ہے، کیونکہ مودی محض ملک کے اگلے وزیر اعظم ہی نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ 1989ء کے انتخابات کے بعد سے وہ پہلے وزیر اعظم ہوں گے، جن کو کسی غیر بی جے پی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ مودی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اپنی حلیف جماعتوں کو حکومت میں شامل کریں۔لیکن ایسا کیونکر ہوا اور 2014ء کے عام انتخابات کے نتائج خلاف توقع کیوں ثابت ہوئے؟ اب اس پر بحث کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں صحیح جواب اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے، جب نتائج پوری طرح آجائیں گے، لیکن فی الوقت اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان انتخابی نتائج کے دو تین اہم پہلو ہیں، جن پر فی الوقت لکھا جاسکتا ہے۔
(۱) کانگریس پارٹی اس چناؤ میں نہ صرف ناکام رہی، بلکہ ملک میں سیکولر سیاست کی قیادت میں پوری طرح بے اثر رہی، اسی کے ساتھ ساتھ کانگریس قیادت ان انتخابات میں بری طرح ناکام رہی اور راہول گاندھی بطور لیڈر بری طرح بے اثر ثابت ہوئے۔ حالیہ انتخابی نتائج کانگریس کے لئے اہم سبق ثابت ہوئے۔ مودی کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ کانگریس میں گاندھی خاندان ناکام ہو رہا ہے اور امید اس بات کی ہے کہ کانگریس پارٹی میں گاندھی خاندان کی قیادت کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے۔ کانگریس کو لیڈر شپ کی سطح پر ردوبدل کی سخت ضرورت ہے، امکان اس بات کا ہے کہ خود گاندھی خاندان پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے راہول گاندھی کو ہٹاکر پرینکا گاندھی کو پارٹی کی باگ ڈور سونپی جائے؟۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کانگریس میں ٹوٹ پھوٹ ہو اور اس کا ایک حصہ بی جے پی سے ہاتھ ملا بیٹھے۔
(۲) حالیہ انتخابی نتائج کا دوسر انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ اس چناؤ نے یہ ثابت کردیا کہ مسلم ووٹ بینک اس بار بے اثر رہا۔ ایک تو مودی نے انتہائی کامیابی سے ہندو ووٹ بینک بنالیا، جس کے سامنے اقلیتی ووٹ بینک کا بے اثر ہونا لازمی تھا، لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹ بینک بری طرح منتشر ہوا۔ اس کے دو تین اسباب تھے، اولاً سیکولر پارٹیوں کا ایسا ہجوم تھا کہ مسلم ووٹرس کے لئے یہ طے کرنا مشکل تھا کہ کس کو ووٹ دینے سے بی جے پی کو ہرایا جاسکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کرنے کے لئے بی جے پی نے تقریباً دو سال قبل ہی بہت عقلمندی سے اپنی حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی تھی۔ بی جے پی کی حکمت عملی کا اولین پہلو یہ تھا کہ مسلمانوں کے تمام نام نہاد قائدین کو خرید لیا جائے۔ مسلمانوں میں میر جعفر اور میر صادق کمی کبھی نہیں رہی، جس کے سبب بی جے پی کا کام بہت آسان ہو گیا۔ 2004ء اور 2009ء کے پارلیمانی انتخابات کے برعکس اس بار ہر نام نہاد مسلم قائد الگ الگ حلقوں میں اپنی اپنی ڈفلی بجا رہا تھا، جس کی وجہ سے مسلم ووٹرس میں غیر یقینی صورت حال بڑھتی گئی۔ علاوہ ازیں ہر ملی تنظیم بھی الگ الگ راگ الاپ رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق نام نہاد مسلم قائدین اور تنظیموں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا کرنے میں انتہائی اہم رول ادا کیا۔راقم مستقل یہ لکھتا رہا کہ اروند کجریوال آر ایس ایس کے مہرے ہیں، جن کا مقصد مودی کی نام نہاد مخالفت کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا تھا اور بنارس جیسے اہم پارلیمانی حلقہ میں کجریوال مسلمانوں میں بھرم پیدا کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ لب لباب یہ کہ ان انتخابات میں مسلمان بادشاہ گری کے مقام سے ہٹ کر غلامی کے دہانے پر پہنچ گئے، جس کے لئے ان کی نام نہاد قیادت اور خود ان کی غیر دانشمندی کا سب سے اہم رول رہا۔
(۳) اب مودی وزیر اعظم ہیں اور خالص ہندوتوا ایجنڈا پر چناؤ لڑکر آئے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ کھل کر ہندوتوا سیاست کریں گے۔ وہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ہندوستان میں گجرات ماڈل نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہندوستانی ووٹرس نے مودی کو گجرات ماڈل کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی ٹوپی نہ پہن کر یہ واضح کردیا تھا کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ انتخابی مہم شروعات سے کچھ قبل ہندوستانی مسلمانوں ’’کتے کا پلا‘‘ بتاکر مسلمانوں کے تئیں اپنی فکر بھی واضح کردی تھی۔ پھر گجرات ماڈل میں مسلم نسل کشی، ان کی ناموس کی آبرو ریزی اور ان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کا اور ان کی عورتوں کا انکاؤنٹر بھی شامل ہے، لہذا ہندوستانی مسلمانوں کو ان باتوں کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ یہ ممکن ہے کہ خود اتنی بڑی کامیابی کے سبب مودی کھل کر مسلم مخالف ایجنڈا اپنے ابتدائی دور میں نافذ نہ کریں، لیکن آر ایس ایس نے انتخابی نتائج آنے سے دو روز قبل ہندو اخبار کے ذریعہ یہ یاد دلایا ہے کہ سنگھ کو اس بات کی توقع ہے کہ مودی بحیثیت وزیر اعظم ہندوتوا کا بنیادی ایجنڈا نافذ کریں گے۔ اس سلسلے میں آر ایس ایس لیڈر ایم بی ویدیا نے کہا ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنوانے کی پہل کریں گے۔ وہ ملک میں یونیفارم سیول کوڈ نافذ کریں گے اور کشمیر کے تعلق سے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرکے کشمیر کا الحاق پوری طرح ہندوستان کے ساتھ کریں گے۔ بالفاظ دیگر آہستہ آہستہ مودی ہندوستان کو ہندو راشٹرا کے خدوخال پر وضع کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
(۴) حالیہ انتخابی نتائج کے آخری اور اہم اثرات یہ ہوں گے کہ کانگریس میں خلفشار کے پورے پورے امکانات ہیں۔ چوں کہ ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی جیسے سیکولر علاقائی قائدین کو بھی ان انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مرکز میں بی جے پی اپنے دم خم پر حکومت تشکیل دینے کی حیثیت میں ہے، اس وجہ سے ملک کی دیگر علاقائی جماعتیں بھی جلد یا بہ دیر مودی کی دم چھلا بن سکتی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں سیکولر سیاست کو اتنا بڑا دھکا لگے گا کہ فی الحال اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوگا۔
انتخابی نتائج سے یہ طے ہو گیا ہے کہ ہندوستانی سیاست کم از کم آئندہ دو دہائیوں کے لئے ہندوتوا یعنی ہندو راشٹر کی جانب پیش قدمی کرے گی اور مودی ہندوستانی سیاست پر طویل عرصہ تک چھائے رہیں گے، جس کا سب سے زیادہ خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑے گا۔ افسوس کہ مسلمانوں کے پاس کوئی قیادت نہیں ہے، جو ان کو اس مشکل میں راہ دکھا سکے۔ اگر ہماری صفوں میں ہیں تو بس میر جعفر اور میر صادق ہیں۔ شاید مسلمانوں کے لئے ’’یہ سب سے تاریک دور ثابت ہوگا‘‘۔