مسلمانوں کیلئے باقی سب خیریت … !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مسلمان رمضان کے مہینہ میں سیر ہو کر کھاتے رہے اور ان کے شہر میں قبرستان کے لیے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ اس حقیقت سے بے پرواہ معاشرہ کو آنے والے برسوں میں دو گز زمین نصیب نہ ہو تو آخری سفر کہاں جاکر رکے گا یہ سوچنا لوگوں نے چھوڑ دیا ہے ۔ شہر کے گلی کوچوں کی حالت یہ ہے کہ یہاں سے جنازے گذرنا مشکل ہورہے ہیں ۔ جن بستیوں کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے وہاں کی کیفیت کا اندازہ رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ یہاں جنازہ تنگ گلی سے گذرتا ہوا درمیان میں گندے پانی کا بہاؤ ہے کھلی نالیاں اور گندے پانی کے گٹر کھلے ہوئے مین ہول جنازہ اٹھاتے ہوئے لوگ بمشکل جگہ بناکر گذرتے ہیں ۔ شہری خوش ہیں کیوں کہ انہیں کھانے پینے مزے کرنے کی تمام چیزیں میسر ہوتی جارہی ہیں ۔ مسلم محلوں میں بڑے شادی خانوں میں اعلیٰ پکوان ہورہے ہیں ۔ بازاروں میں کھانے پینے ، شوق پورے کرنے کے تمام انتظامات رات دیر گئے تک دستیاب ہیں ۔ ہم خوش ہیں کیوں کہ ہم کو جھوٹی تسلی حاصل ہے کہ مسلمان ایک خوش قسمت قوم ہے اور اسی غلط فہمی میں مبتلا قوم کی غلط فہمی میں اضافہ کرنے والے ان کا برابر تعاقب کر کے اپنا فائدہ حاصل کررہے ہیں ۔ تلنگانہ ریاست کا ایک مسلم وزیر داخلہ جب مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتا ہے تو اس حقیقت کے باوجود تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد کا مسلمان حلیم کی دیگ میں ہی اٹکا ہوا ہے ۔ ان کے شہر میں ان کی نظروں کے سامنے مسجد شہید کردی گئی اور 40 لاکھ آبادی والا مسلم طبقہ کچھ نہیں کرسکا ۔

اگرچیکہ یہ ایک محلے کی چھوٹی مسجد کا مسئلہ ہے لیکن اس کی شہادت پر خاموشی اختیار کر کے مسلمانوں نے حکمرانوں اور مسلم دشمنوں کے لیے کئی مواقع کشادہ کردئیے ہیں ۔ خوشامد ایک ایسی چیز ہے بلکہ ترقی کی چابی ہے جس سے کامیابی کا تقریبا ہر دروازہ باآسانی کھولا جاسکتا ہے ۔ مسلم وزیر داخلہ کو اپنے درمیان پاکر مسلمان خوش ہیں اور یہ فراموش کرچکے ہیں کہ اس حکومت میں ان کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں ہورہی ہیں ۔ دراصل ایسے لوگ سطحی قسم کی جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی کم عقلی کا ذمہ دار کافی حد تک ان کی قیادت کو بھی ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ مسجد کی شہادت کا واقعہ مسلمانوں کے لیے ایک کاری ضرب تھا لیکن یہ سب بھول کر ہم میں سے چند رمضان کی عبادتوں میں مصروف ہوگئے ہاتھ میں تسبیح تھام لی تو کچھ کے ہاتھوں میں حلیم کے کٹورے آگئے ۔ یہ بھی بھول گئے کہ اسلام دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی ہماری رہنمائی کرنا ہے ۔ لیکن مولانا حضرات نے بھی اس موضوع کو اپنے قریب تک آنے نہیں دیا ۔ صرف تقریریں وعظ کر کے مسلمانوں کو نصیحت ہی کرتے رہے ۔ یہ تو مسلمانوں کا حافظہ اور حساب کمزور ہے اس لیے وہ یہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ برسوں سے ان کے نام پر اپنی روٹی و روزی چلانے والوں نے کتنی ترقی کرلی ہے ۔

گذشتہ دنوں ایک خانگی تقریب میں کسی نے حکومت کے نمائندہ سے سوال کیا کہ آخر مسجد یکخانہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیوں نہیں کیا جاتا ۔ اس پر حکومت کے نمائندہ کو اپنے طبقہ کی امیج سے زیادہ حکومت کے امیج پر پڑنے والے منفی اثر کی فکر تھی اس لیے سوال کو ٹال دیا ۔ یہ حکومتی نمائندے مسلمانوں کو بار بار منا رہے ہیں کہ یہاں تو ایک مسلم دوست حکومت ہے لیکن درپردہ طور پر دیکھا جائے تو اس حکومت کی مسلم دشمنی ماضی کی حکومتوں کے مقابل کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ سابق کٹر پسند حکمرانوں کے دور میں کوئی بھی مسجد شہید نہیں کی گئی تھی ۔ اس پر مسلمانوں کی خاموشی نے اس طبقہ کا امیج کمزور کردیا ہے ۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لیے رمضان گفٹ دے کر چپ کرادے گی تو وہ واقعی درست سوچ رہی ہے کیوں کہ حکومت کو بھی اندازہ ہوچکا ہے کہ یہاں کا مسلمان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ اس نے 12 فیصد کا وعدہ پورا نہیں کیا تو مسلمانوں نے اف تک نہیں کیا ۔ اب ان کی عبادت گاہ شہید کردی گئی تو وہ خاموش ہیں ۔ مسلمانوں کی نا اہلی کا بھر پور فائدہ اٹھانے سے حکومت کو کوئی روک بھی نہیں سکتا ۔ ایسے حالات میں حکومت کی ستم ظریفوں کو بھول جانے میں ہی اچھائی ہے سمجھنا ایک سانحہ سے کم نہیں ہے ۔ اس بات پر غور کیجئے اور سوچئے کہ آپ کو حالات کدھر لے جارہے ہیں ۔ سوچنا آپ ، میرا ہم سب کا حق ہے ۔ سوچنا صرف حکمرانوں یا ان کی قیادت کا حق نہیں ہے بلکہ آپ کا بھی حق ہے کہ آپ سوچیں ۔ پاگل خانوں میں بند اور پاگل خانوں سے باہر گھومنے پھرنے اور بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی سوچتے ہیں لیکن آپ ہی سوچنا چھوڑ چکے ہیں تو آپ کے خلاف کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ سازش کرنے والے کچھ کر گذر سکتے ہیں ۔ ان کی قیادت کو اگر انہوں نے شہد کی بوتل میں زہر سمجھنے میں مزید دیر کردی تو شہر کی کئی مساجد بھی شہید ہوجائیں گی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت رمضان گفٹ دے کر مسلمانوں کی اس قدر ہمدرد ہونے کا ثبوت دیتی ہے تو پھر مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے اعلان سے گریز کیوں کررہی ہے ؟ حقیقت مگر یہ ہے کہ اصل ڈرامہ کچھ اور ہے جس کے لیے مسلم وزیر داخلہ کو آگے کیا کرنا ہے معلوم نہیں لیکن ان کے بیانات میں معصومانہ سی کوشش نظر آتی ہے ۔ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اس معاملے کی اصل سرغنہ قیادت ہے تو حکومت کی حمایتی ہونے کے ناطے مداری کا کام بخوبی انجام دے رہی ہے ۔ فرینڈلی سیاست کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ڈیڈلی ماحول بنایا جارہا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود مسلمانوں نے سمجھا ہے کہ ان کے لیے باقی سب خیریت ہے ۔ بہر حال حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج میں ہندوتوا طاقتوں کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ چوکس و چوکنا رہنے کا وقت آگیا ہے اگر وہ یوں ہی شادی خانوں اور ہوٹلوں کی شان بڑھاتے رہیں گے تو ایک دن بے نشان رہ جائیں گے ۔ جنوبی ہند کی دو تلگو ریاستوں تلنگانہ میں بی جے پی نے قدم مضبوط کرلیے ہیں اور آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرلی ۔ شاطر چالاک اور فہم و فراست کے حامل لیڈر چندرا بابو نائیڈو کو شکست فاش ہونا یہ سخت سبق ہے ان قائدین کے لیے جو مسلمانوں سے صرف وعدے کرتے ہیں اور انہیں مذاق بناکر خود مذاق ہوجاتے ہیں ۔