مسلمانوں کو داخلی دشمن کا سامنا

ظفر آغا
دنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی واقعہ پیش آجائے تو مسلمانوں میں ایک ہی بات زیربحث ہوتی ہے اور وہ عموماً یہی ہوتی ہے کہ یہ یہودیوں کی سازش ہے یا امریکیوں کی ۔ اگر معاملہ ہندوستان کا ہو تو ہر کسی کو آر ایس ایس کی سازش نظر آتی ہے ۔ الغرض مسلمان خود کو کسی نہ کسی سازش کا شکار پاتا ہے اور اس سازش پر دوچار دن گرماگرم بحث کرکے خاموش ہوجاتا ہے ۔ لیکن یہ بات کبھی زیرغور نہیں آتی کہ مسلمان آخر ہر کسی کی سازش کا شکار کیوں ہوجاتا ہے ۔ اس بات پر کبھی بحث نہیں ہوتی کہ آخر دنیا کی ہر دوسری قوم کیوں ترقی کررہی ہے اور اس کے خلاف کوئی سازش کامیاب کیوں نہیں ہوتی جبکہ مسلمانوں کے خلاف ہر سازش کامیاب ہوجاتی ہے ؟ ہر بات پر کسی سازش کا رونا ۔ مثلاً ان دنوں ایک گروہ یہ بحث کررہا ہے کہ طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں یہودی اور امریکہ کی سازش کا نتیجہ ہیں اور ان کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا ہے ۔ پھر وہی رونا اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے ۔ کوئی بھلا یہ پوچھے کہ آخر اسلام کو اس گروہ کے ارکان بدنام کررہے ہیں جو معصوموں کا گلا کاٹ رہے ہیں یا یہودی بدنام کررہے ہیں ؟ سچ تو یہ ہے کہ اسلام اور مسلمان کو اس وقت اگر کسی سازش اور خطرے کا سامنا ہے تو ان انتہا پسندوں سے جو خود کواسلام کا ٹھیکیدار سمجھ کر دہشت کا پرچم بلند کرکے ساری دنیا میں اسلام کو دہشت کا رنگ و روپ دے رہے ہیں ، اس لئے اب دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس بحث کے بجائے کہ مسلمانوں کی دشمن کوئی باہری قوم ہے ، اس بات پر بحث ہونی چاہئے کہ ان کا دشمن خود ان کے اندر موجود ہے اور وہ دشمن کون ہے اور اس سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ اگر کوئی قوم اپنی صفوں میں موجود دشمن سے نجات حاصل کرلے تو پھر کوئی خارجی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔

آخر مسلمانوں کا دشمن کون ہے جو اس کو اندر سے کھوکھلا کئے جارہا ہے ؟ کسی قوم کی دوست یا دشمن خود اس کی مجموعی طرز فکر ہوتی ہے ۔ کیونکہ قوموں کی فکر ہی قوموں کی بلند اور تنزلی دونوں کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔ اگر کسی قوم کی مجموعی طرز فکر اپنے دور سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو وہ قوم دور کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ترقی کی راہوں پر گامزن رہتی ہے لیکن اگر کسی قوم کی مجموعی فکر اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتی تو پھر وہ تنزلی کی جانب رواں دواں ہوتی ہے ۔ مثلاً ایک دور وہ تھا جب یوروپ میں چرچ کا دبدبہ تھا اور ’ہولی رومن امپائر‘ کے نام پر حکومت ہوتی تھی اور یوروپ ہندوستان سے بھی کم ترقی یافتہ تھا ۔ اس وقت یوروپ کی مجموعی طرز فکر پر چرچ کا پہرہ تھا جو ہر چیز کو عیسائی عقیدے کے چشمے سے دیکھتا تھا جو وقت کے تقاضوں کے خلاف تھا اس لئے اس دور میں یوروپ ترقی نہیں کرپارہا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے ساتھ ساتھ یوروپ نے شہریوں کی زندگی سے چرچ اور زمیندارانہ نظام اکھاڑ پھینکا ۔ اب یوروپ میں ایک نئی مشترکہ طرز فکر پیدا ہوئی جو زمانے کی نئی قدروں اور تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ تھی ۔ وہ نئی اقدار اور تقاضے کیا تھے ؟ یوروپ نے فرانسیسی انقلاب کے ساتھ مجموعی طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ چرچ یعنی عقیدہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا دور حاضر کی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے ۔ اس طرح یوروپ نے یہ بھی طے کیا کہ انسان کو اپنا مستقبل طے کرنے کی آزادی ہونی چاہئے جو شاہی یا زمیندارانہ نظام کے تحت ممکن نہیں ہے اس لئے حکومتوں کاقیام شاہی یا زمیندارانہ نظام کے بجائے جمہوری نظام کے تحت ہونا چاہئے جس میں ہر شہری کو برابر کا ووٹ ڈالنے کا اختیار ہونا چاہئے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ یوروپ نے سائنسی ترقی کو تسلیم کرکے ایک جدید صنعتی معیشت اور ایک جدید طرز تعلیم کو بھی تسلیم کیا ۔ اس طرح یوروپ میں خصوصاً فرانسیسی انقلاب کے ساتھ اٹھارویں صدی کے آخر میں ایک نئی مشترکہ طرز فکر پیدا ہوئی جو تین باتوں پر منحصر تھی ۔ وہ تین عناصر تھے ۔ سیکولرازم ، شاہی و زمیندارانہ نظام کی جگہ ایک جمہوری سیاسی نظام کا قیام اور تیسری سائنسی فکر پر مبنی ایک جدید طرز تعلیم و جدید طرز کی صنعتی معیشت ۔ اس جدید مشترکہ طرز فکر نے یوروپ کو وہ ترقی عطا کی کہ یوروپ سو سال کے اندر ساری دنیا پر چھاگیا۔

اس تاریخی پس منظر میں اگر آج کے عالم اسلام پر نگاہ ڈالیں تو آج کا عالم اسلام فرانسیسی انقلاب سے قبل کے یوروپ سے بہت مشابہ نظر آتا ہے ۔ آج اکثر مسلمان ایک خلافت قائم کرنے کی بات کرتا ہے جس کی غمازی داعش کررہا ہے ۔ دنیا بھر میں مسلم ممالک میں عموماً آج بھی شاہی یا زمیندارانہ نظام قائم ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ میں آج بھی سائنسی فکر کے بجائے ایک خاص قسم کی مذہبی فکر کا اثر ہے جو مسلمان کو جدید تعلیم اور جدید معیشت سے دور رکھتی ہے یعنی مسلمان فکری سطح پر دور حاضر سے دور ماضی میں پڑا ہے اور ہر موقع پر دنیا بھر سے ہارتا رہتا ہے اور اپنی ہر ہار کو اپنی مجموعی کمزوری کے بجائے کسی نہ کسی کی سازش قرار دے دیتا ہے ۔ جو بھی قوم دور حاضر کے تقاضوں کا سامنا نہیں کرسکتی ہے وہ قوم کسی بھی سازش کا شکار آسانی سے ہوجائے گی لیکن اس قوم کی تنزلی اور شکست کا سبب وہ سازش نہیں بلکہ وہ طرز فکر ہوگی جس کے سبب وہ اپنے خلاف پیدا ہونے والی سازشوں کا سامنا کرنے میں ناکام ہوتی ہے ۔

اس تناظر میں اب مسلم معاشرہ میں ضرورت یہ ہے کہ اس بات پربحث ہو کہ آخر وہ کیا شئے ہے جو مسلمانوں کی مجموعی طرز فکر کو ماضی کے غاروں میں قید کرکے اس کو دور حاضر کے تقاضوں کو تسلیم کرنے سے روک رہی ہے ۔ اس نقطہ نگاہ سے یہ تلاش کرنا ہوگا کہ آخر مسلمانوں میں وہ کون سے مراکز ہیں جہاں آج بھی زمیندارانہ قدروں کواسلامی قدر کہہ کر ان کا ڈنکا پیٹا جارہا ہے ۔ پھر وہ کون سے ادارے تھے جنہوں نے ایک طویل مدت تک ہی نہیں بلکہ آج بھی جدید سائنسی فکر اور تعلیم اور جدید معیشت کے خلاف پرچم بلند کئے ہوئے ہیں یعنی وہ کون سے مراکز اور ادارے ہیں جہاں آج بھی قدیم مجموعی طرز فکر پنپ رہی ہے جو مسلمانوں کی مجموعی طرز فکر کو قدامت پرستی کے پنجرے میں بند کئے ہوئے ہے ؟ اگر ذرا سا غور کریں تو آپ کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ وہ کون سے ادارے ہیں جو مسلم ممالک میں شاہی طرز حکومت کے حامی ہیں اور وہ کون سے مراکز ہیں جہاں سے ہر سائنسی ترقی اور جدید تعلیم کے خلاف برسوں فتاوے صادر ہوئے اور جو آج بھی جدید معیشت مثلاً بینکنگ اور شیئر بازار کو حرام قرار دیتی ہے ۔ اس انتظار میں مسلمانوں کو یہودی اور امریکہ سے نمٹنے سے پہلے ان مراکز اور ایسی قدامت پسند مجموعی طرز فکر پیدا کرنے والے اداروں سے نمٹنا ہوگا ورنہ ان کے خلاف ہر سازش کامیاب ہوتی رہے گی ۔