مسلمانوں کو جدید تعلیم کی راہوں پر سفر کرنے کی ضرورت

ظفر آغا

جون ، جولائی ایسے دو مہینے ہیں جب کم و بیش ہر ہندوستانی گھر میں اسکول یا کالج میں داخلوں کا چرچا رہتا ہے ۔ بیٹے یا بیٹی کو کس اسکول میں داخل کرائیں ، کہاں کتنی فیس ہے ، پڑھانے کیلئے کتنا پیسہ خرچ ہوگا ، کس کی سفارش ، کتنی رشوت (جس کو اب capitation fee کہا جاتا ہے) سے کام چلے گا ۔ الغرض داخلے کے لئے گھروں میں ہر قسم کا مسئلہ زیر بحث رہتاہے اور اگر ماشاء اللہ اولادیں بارہویں کلاس میں کامیابی حاصل کرچکی ہوں تو پھر تو پوچھئے مت ۔ انھیں ہندوستان میں تعلیم دلوائی جائے یا اعلی تعلیم کے لئے ہندوستان کے باہر بھیجا جائے ۔ ہندوستان میں کس شہر اور کون سی یونیورسٹی میں داخلہ کروایا جائے ، فیس کے لئے بینک سے لون مل سکتا ہے یا نہیں ۔ ہر قسم کے سوال کا جواب اسی جون اور جولائی میں داخلہ لینے والے اور اس کے والدین کو تلاش کرنے ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ اب بچوں کی شادی کرنا اور اسکا انتظام کرنا بہ نسبت تعلیم دلوانے کے آسان ہے لیکن خدا بھلا کرے ہم مسلمانوں کا کہ ہمیں تعلیم میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔ بچے یا بچی کو قرآن حفظ کروادو، اگر اور تھوڑا بڑا ہوجائے تو پاس کے مدرسے بھیج دو ، چچا ماموں بہت زور دیں تو بہت سے بہت کسی سرکاری اسکول میں ڈال دو ، کچھ پڑھ لکھ جائے بس یہی بہت ہے ۔ معاف کیجئے تمام تر شور کے باوجود آج بھی مسلمانوں میں گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کی شرح چار فیصد سے زیادہ نہیں ہے اور یہ تو غالباً آپ کو خبر ہوگی کہ یہ شرح دلتوں سے کمتر ہے ۔ اس صورتحال میں اگر قوم دوسرے درجے کی شہری نہیں بنے گی تو پھر کیا بنے گی اور اسکا الزام سنگھ پریوار کو مت دیجئے بلکہ اس مولوی کو دیجئے جو آج تک سماجی سطح پر یہ ذہنیت بنارہا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئے مدرسے کافی ہیں یا پھر ان قائدین ملت کو دیجئے جو جذباتی تقریریں کرکے مسلم لیبل کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی بنالیتے ہیں اور اورنگ آباد جیسے شہر میں ایک مسلم ڈپٹی میئر بھی بنوالیتے ہیں اور مسلم فتح کا جشن مناتے ہیں ۔ لیکن لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ جس اورنگ آباد میں کبھی بی جے پی کا میئر نہیں ہوا وہاں مسلم ردعمل میں پہلی بار بی جے پی اقتدار میں آگئی ۔
تو پھر کیا ہو ، مسلمان پڑھے کیسے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہندوستانی مسلمان 1857ء کے غدر کے بعد سے آج تک تلاش رہا ہے لیکن جواب آج بھی اسکے ہاتھ نہیں لگا ۔ حالانکہ سرسید احمد خان نے مسلمانوں میں حصول تعلیم اور اس کے متعلق بیداری کے تعلق سے اپنی زندگی صرف کردی مگر بیچارے ایک یونیورسٹی تو چھوڑ گئے مگر قوم کو بیدار نہیں کرسکے ۔

دیکھئے جناب ! اب دبی زبان یا بند کمروں میں بحث کرنے سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔ اب باآواز بلند یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لئے محض مدرسے کافی نہیں ہیں اور یہ بھی محض کہنے سے کام چلنے والا نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں باقاعدہ تحریک چلنی چاہئے ۔ اس جون اور جولائی میں جس طرح غیروں کے گھروں میں اسکول و کالج میں داخلے حاصل کرنے کی تگ و دو ہوتی ہے اسی طرح مسلم محلوں میں اب جلسے اور جلوس نکلنے چاہئیں ۔ ان جلسوں میں لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھائی اپنی اولاد کو مدرسے بھیجو ۔ لیکن یہ سمجھ لو کہ صرف مدرسے سے اب کام چلنے والا نہیں ہے ۔ اسکول کے بغیر تمہارے بچے کی زندگی بیکار ہے خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی ۔ راقم الحروف کی رائے میں مسلمانوں کو اب ایک ایسی تبلیغی جماعت کی ضرورت ہے جو گھر گھر جا کر مسلمانوں کے درمیان جدید تعلیم کی ضرورت کو اجاگر کرے ۔ یاد رکھئے یہ کام نہ مولویوں کے بس کا ہے اور نہ وہ یہ کرنے والے ہیں ۔ دور جدید میں اصلاح معاشرہ مڈل کلاس کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ وہ یوروپ ہو یا ہمارا ہندو سماج ، ہر جگہ اصلاح معاشرہ مڈل کلاس نے ہی کیا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ایک مڈل کلاس موجود ہے ۔ اسکو تبلیغی جماعت کے بجائے تعلیمی جماعت جیسی تنظیم بنا کر گھر گھر جا کر جدید تعلیم کی روشنی پھیلانی ہوگی ۔ حیدرآباد میں خاص حد تک یہ کام جناب زاہد علی خان صاحب خود سیاست اخبار کے پرچم تلے کررہے ہیں ۔ چند روز قبل سیاست اخبار میں یہ خبر بھی پڑھی کہ اب بیگم زاہد علی خان بھی اس عمل میں سرگرم ہیں ۔ وہ قابل مبارکباد ہیں ۔ لیکن محض ایک زاہد علی خان اور بیگم زاہد علی خان سے کام چلنے والا نہیں ۔ اس کالم کے ذریعہ ان سے میری استدعا ہے کہ وہ تعلیمی جماعت جیسی ایک تنظیم حیدرآباد کی سطح پر بنالیں ۔ اس کے ذریعہ نوجوان لڑکے لڑکیاں مسلم محلوں میں گھر گھر جا کر چھوٹی چھوٹی میٹنگوں کے ذریعہ جدید تعلیم کی افادیت اور اس کی ضرورت کی طرف عام مسلمانوں کو راغب کریں ۔

اس جون اور جولائی کے مہینے میں مسلمانوں کو سب سے پہلے اس بات پر بحث کرنی چاہئے یا غور و خوض کرنا چاہئے کہ آیا اب ہمارے لئے مدرسے کافی ہیں یا نہیں ؟ خود مدرسے چلانے والے مولوی حضرات اب اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کررہے ہیں تو پھر بھلا مدرسے ہمارے لئے کیسے کافی ہوسکتے ہیں ۔ جب یہ بات صاف ہے تو پھر یہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہماری اولادیں اسکول میں داخل ہوں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم سے زیادہ تر والدین نے انگریزی کیا کوئی بھی جدید تعلیم حاصل نہیں کی تو پھر ہم اپنے بچے کے داخلے کا فارم کیسے بھریں گے ۔ پھر یہ کام کون کرے گا ۔ یہ کام زاہد علی خان صاحب یا انکی تنظیم کرسکتی ہے ۔ اس لئے آج مسلمانوں کے لئے زاہد علی خان جیسے افراد زیادہ کارگر ہیں یعنی اب سماجی قیادت بھی روشن خیال افراد کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے ۔ اس جون و جولائی میں اگر ہم اتنا سمجھ لیں تو شاید ہمارے حق میں کافی ہوگا ۔