ریاست تلنگانہ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ، سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو تحفظات کا مسئلہ حکومت کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے تو اس پر خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ قیام تلنگانہ سے قبل اور بعد یہی جذبہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ تلنگانہ عوام کو ترقی دی جائے اور مسلمانوں کو تحفظات سے فائدہ پہونچایا جائے۔ انہوں نے 12 فیصد تحفظات کا وعدہ کیا تھا مگر اس پر عمل آوری ایک محنت شاقہ چاہتی ہے۔ فی الحال سرکاری ملازمتوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات کے ذریعہ فائدہ پہونچانے کی کوشش بھی دیانت داری سے انجام کو پہونچتی ہے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہوگا مگر اب تک کی کارکردگی سے یہ یقین نہ ہوسکا کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے گی کیونکہ تحفظات کی باتیں ہوتی ضرور ہیں ، اس سے فوائد حاصل نہیں ہوتے۔ اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں اور شور مچتا ہے اور چند دن کے بعد خاموشی ہوجاتی ہے پھر اس کی جگہ نئے مسائل کے لے لیتے ہیں۔ مسئلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ مسلمانوں کی فکر برقرار رہتی ہے کہ آخر انہیں حکومت کی سطح پر فوائد کب حاصل ہوں گے۔ اب چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے غریب مسلمانوں کیلئے تحفظات فراہم کرنے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے کرناٹک اور ٹاملناڈو میں دیئے جانے والے کوٹہ کے خطوط پر تلنگانہ میں بھی مسلمانوں کو کوٹہ دیا جانے پر غور ہورہا ہے۔ چیف منسٹر نے مارچ میں تشکیل دیئے گئے انکوائری کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے۔ اس کمیشن کو ریاست میں مسلمانوں کے سماجی، معاشی اور تعلیمی موقف کا جائزہ لینے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے لئے تحفظات کا فیصد بڑھانے کی سفارش پر بھی غور کیا گیا۔ تلنگانہ کے مسلمان اس وقت 4% تحفظات سے مستفید ہورہے ہیں۔ تعلیمی اور سرکاری ملازمتوں میں 4% تحفظات دیئے جارہے ہیں مگر اس میں 12% تک کے اضافہ کا جائزہ لیا جانا اور اس پر عمل آوری کا فیصلہ کرنا چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے لئے جامع منصوبہ بندی اور قانون سازی کا موقع فراہم ہوتا ہے تو وہ اس موقع سے کس حد تک استفادہ کریں گے، یہ ان کی قوتِ ارادی پر منحصر ہے۔ بحیثیت چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو یہ تو معلوم ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کا فیصد 12% ہے اور ان میں زیادہ تر غربت کا شکار ہیں۔
کے سی آر کی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی نے گزشتہ سال اسمبلی انتخابات کے دوران مسلمانوں کو 12% تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا۔ چیف منسٹر کو یہ بھی معلوم ہے کہ ریاست میں ایسے کئی مسلم خاندان ہیں جو ماہانہ 1,000/- روپئے بھی آمدنی نہیں رکھتے۔ چیف منسٹر نے یہ بیان بھی دیا ہے کہ میں نے انتخابات کے دوران مسلمانوں سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کروں گا۔ مسلمانوں کی طرز زندگی میں بہتری لانے ان کے معیار زندگی کو ترقی دینے کا جذبہ خوش آئند ہے۔ وہ اپنے وعدوں کو صدفیصد طور پر پورا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں مگر اس پر عمل آوری کے لئے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے تو پھر اس جذبہ کو عملی جامہ کس طرح پہنایا جائے گا۔ مسلمانوں کی معاشی، سماجی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے انہوں نے کمیشن کے قیام کے لئے جن عہدیداروں کو مقرر کیا ہے، یہ لوگ سابق میں دوسرے کمیشن کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں اور انہوں نے گزشتہ سال ڈسمبر میں مرکزی حکومت کو اپنی رپورٹ بھی پیش کی ہے۔ اس رپورٹ اور ریاستی حکومت کی تشکیل کردہ کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد حکومت کو اپنے وعدوں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہونی چاہئے مگر سیاسی مقصد براری کی کیل جب اِرادوں کو اٹکا کر رکھ دیتے ہیں تو پھر مسائل جوں کا توں رہتے ہیں۔ ریاستی حکومت نے جو کمیشن بنایا ہے، اس کا طرز کارکردگی بھی سابق کے سچر کمیٹی، کنڈ کمیٹی اور مہاراشٹرا کی رحمن کمیٹی کی طرح ہی ہوگا۔ مختلف رپورٹس کا بھی جائزہ لیا جائے تو اس میں مسلمانوں کی پسماندگی کو دُور کرنے کے لئے پیش کردہ سفارشات ہی سامنے آئیں گے۔ برسوں سے اس ملک اور ریاست میں سیاسی مطلب براری کی سیاست چلتی رہی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو حقیقی طور پر کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اچھے کام کرنے کا ارادہ رکھنے والی حکومت بھی جیسے ٹی آر ایس حکومت ہے، اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ اس مقصد پر سیاسی مطلب پسندی کی مہر لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے دیانت داری اور نیک نیتی سے کام کیا جائے اور یہ نیک نیتی اس وقت اپنا کام کرے گی جب عمل کا جذبہ نیک ہو۔ پس پردہ کام کرنے والی مسلم دشمن طاقتوں کا دباؤ بھی حکومت کا کام مشکل کردیتا ہے۔