کاغذنگر /30 جنوری ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) جناب محمد رضی حیدر سینئیر ایڈوکیٹ و اسٹیٹ کو کنوینر مہاجنا سنگھرشنا سمیتی MSS نے پریس کلب کاغذنگر میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یوم جمہوریہ 26 جنوری کو سب لوگوں نے جوش و خروش کے ساتھ منالیا لیکن بہت کم لوگ دستور ہند سے واقف ہیں ۔ اس لئے دستور ہند کے تعلق سے اقلیتی طبقہ میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزادی حاصل کرکے 64 سال کا عرصہ گذر چکا ۔ فی الوقت مردم شماری کے اعتبار سے او بی سی 54 فیصد طبقہ ہے اور مسلمان 15 فیصد ہیں ۔ OBC اور میناریٹی طبقہ کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ہم ہمارے حقوق سے محروم ہیں ۔ 1950 میں دستور ہند کی تیاری عمل میں آئی جسے ہم یوم جمہوریہ یا Republic Day کہتے ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ نیلم سنجیوا ریڈی سے کرن کمار ریڈی تک ریاست آندھراپردیش میں اور پنڈت جواہر لعل نہرو سے لے کر سونیا گاندھی تک مرکز میں مسلمانوں کو ہمیشہ نظر انداز کردیا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ آزادی کے بعد سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ کم تعداد والا اعلی ذات کا طبقہ ہی زیادہ تعداد والے طبقہ پر حکومت کرتا چلا آرہا ہے ۔
مسلمانوں کو صرف اسکالرشپس کی رعایت تک ہی محدود رکھا جارہا ہے ۔ رکن اسمبلی ، رکن پارلیمنٹ ، وزیر اعلی اور وزیر اعظم کے عہدوں تک کی پہونچ کو ناکام بنایا جارہا ہے ۔ جناب محمد رضی حیدر نے کہا کہ اعلی ذات والے ہی خود اپنی حکومت بنانے کیلئے دستور ہند میں تبدیلی لانے کی بالکل کوشش نہیں کر رہے ہیں ۔ بابا صاحب امبیڈکرنے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر حکومت پر دباؤ ڈال کر ان کی قوم کو تحفظات دلوانے میں کامیابی حاصل کی ۔ اسی وجہ سے ضلع عادل آباد میں ایس سی اور ایس ٹی طبقہ کو تحفظات دینے پر ہی اترم سکو ، گنڈہ ملیش اودیلو ، راتھوڑ رمیش رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ کے عہدوں تک پہونچے ۔ لیکن مسلمانوں کی سیاسی میدان میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جو قوم کے ساتھ ہمدردی کرسکے اور ان کے جائز حقوق دلواسکے ۔ اس لئے دستور میں ترمیم کی شدید ضرورت ہے ۔ جگن ناتھ مشرا رپورٹ کے اعتبار سے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات اور OBC کو 50 فیصد تحفظات عطا کرنے کا انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ورنہ 2014کے انتخابات میں کم ذات والا طبقہ اعلی ذات والے طبقہ کو سبق سکھائے گا ۔ اس موقع پر جناب محمد سجاد ، جناب ریاست علی ہاشمی ، مسٹر ارشلہ ستیش اور جناب شہباز حیدرآباد موجود تھے ۔