مسلمانوں کا 9/11 سے لگاتار قتل عام! کاش! مسلم ممالک اب بھی سنبھل جائیں

ارشد محسن
فلسطین، عراق، یمن، شام، لیبیا، افغانستان، کشمیر اور میانمار میں غیرمسلح مسلمانوںکی متواتر ہلاکتوں اور اُن پر پے در پے بمباری، میزائل اور ڈرون حملوں کو ذرائع ابلاغ سے بالکلیہ دور رکھنے، نیز نعشوں کی گنتی نہ کرنے کی پالیسی کے باوجود بعض گوشے تخمینہ کرتے ہیں کہ امریکی؍ برطانوی اور نیٹو فوجوں کی صلیبی جنگوں کے ذریعے کم از کم دو ملین مسلم مرد، خواتین اور بچے اس کرۂ ارض سے بے رحمانہ انداز میں غائب کردیئے گئے ہیں۔ کوئی بھی حکومت ِ وقت کے وزیر کو اس جنگ میں اپنے رول نبھانے کے کوئی نتائج و عواقب کا سامنا نہیں ہوا ہے، اور کسی کو پورا یقین نہیں کہ آیا یہ مداخلت قانونی ہے یا نہیں۔ نسل کشی تو بدستور جاری ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ 9/11 خفیہ صیہونی آپریشن تھا جو سی آئی اے، موساد کی ملی بھگت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو ٹاورز دو بوئنگ 767 طیاروں اور اس کے بعد بھڑکنے والی آگ کے اثر سے منہدم نہیں ہوئے۔ انھیں منصوبہ بند، محدود انہدام میں تباہ کیا گیا۔ پوری تباہی کا منصوبہ بنایا گیا اور اسے وفاقی عہدے داروں نے صیہونی اہلکاروں کے طور پر کام کرتے ہوئے انجام دیا تاکہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں جنگ چھیڑنے کا بہانہ فراہم کیا جاسکے اور اسے وسعت دیتے ہوئے یہودی۔ عیسائی دشمنوں کو حوصلہ کے اعتبار سے مردہ، ملٹری حیثیت سے ناقابل مسلم لوگوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا وسیلہ بھی فراہم کیا جائے۔ تب سے مغرب کی سرپرستی میں اسلام کے خلاف جنگ کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے بڑی آسانی سے فرانس تا ہندوستان اسلام سے خائف ملکوں کو برآمد کیا جارہا ہے، جس میں نام نہاد مہذب دنیا کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوتا، جس کی نمائندگی یو این او (اقوام متحدہ) کرتا ہے۔
مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں کی ملٹری، فینانس اور میڈیا برادری نے آپس میں بے رحمانہ معاہدے پر دستخط کرلئے کہ جب جب مسلم خون بہتا رہے خاموشی کی پالیسی اپنالی جائے۔ اسی طرح کی پالیسی ہندوستان میں دیکھی جاسکتی ہے جب کشمیر جلتا ہے اور ہندوتوا ہجوم سڑکوں پر بے یارومددگار مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں۔ اس غیرانسانی جنگ میں مسلمانوں کی زندگیوں اور املاک پر حقیقی اثر کا حساب لگانا غیرقطعی علم ہے۔ نعشوں کی گنتی پر آہنی پردہ ڈالے رکھنے کی سب سے بڑی وجہ ان صلیبی حملہ آوروں کی جانب سے انسانی بدن کے اعضاء کی اسمگلنگ رہی ہے۔ نعشوں کے امریکی چور اس سلسلہ میں کرائے کے اسرائیلی اور عیسائی سپاہیوں کے ساتھ مل کر اجتماعی قتل کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا آج ایک دوسرا نام بھی ہے، انھیں جنگی مہلوکین بھی کہتے ہیں۔ شہر در شہر ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جارہا ہے، وہ مسلم جو بھاگ کر یورپی ساحلوں تک پہنچ سکتے ہیں انھیں جیلوں میں ڈالا جارہا ہے، اُن کی عورتوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا جارہا ہے اور پناہ گزینوں کیلئے بستیاں قائم کرنے کے نام پر تیل کی دولت سے مالا مال بے شرم شیخ حکمرانوں سے موٹی رقمیں اینٹھی جارہی ہیں۔ وہ جن کو ہلاک نہیں کیا جاسکا یا جو بچ گئے انھیں ابوغریب اور گوانتاناموبے جیسی جیلوں میں ختم کیا جاتا ہے۔
جیسے جیسے جنگ جاری رہتی ہے اسی طرح بلاتوقف روزانہ مہلوکین کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی 15 سالہ خونریزی نے نہ صرف دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات بگاڑے ہیں بلکہ اس نے اُن کی نفسیات تبدیل کرتے ہوئے انھیں ناقابل اصلاح بدحواسی کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔ کسی فرد کو ہونے والے نقصان کا کوئی دوسرا اندازہ کرنا مشکل ہے حالانکہ اسلام نے انھیں عقیدہ کے اعتبار سے برادران قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو ہلاک کرنا عالمی سطح پر عملاً قانونی حرکت بن چکی ہے اور قتل عام پر مزاحمت کرنا بین الاقوامی قانون کے مغائر ہوگیا ہے! دہشت گردی؍ اسلام کے خلاف جنگ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور حالیہ عرصے میں مودی حکومت کے تحت ہندوستان میں ملٹری انڈسٹریل کامپلکس کیلئے پھلتا پھولتا بزنس بن چکا ہے۔ غیرمسلح، غیرتربیت یافتہ اور بالکلیہ غیرمنظم ہونے کے ناطے مسلمانوں کا ایسے آسانی سے قتل عام کیا جاسکتا ہے جیسے مرغی کے بچوں کو تلف کردینا۔ نئے نئے پائلٹوں کو عراق سے افغانستان تک مسلم آبادی پر بمباروں کی حیثیت سے تربیت دی جاتی ہے جبکہ ماہر نشانہ بازوں کو فلسطین سے کشمیر تک غریب مسلمانوں پر اپنے ہاتھ آزمانے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب تک خلافت قائم رہی، کبھی صیہونی جنگ بازوں کیلئے مسلم نسل کشی اس قدر آسان نہیں تھی۔ بمباروں، نشانہ بازوں، آتشزنی میں ملوث ہونے والوں، ریپ کرنے والوں اور نعش کے اسمگلروں نیز انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کو اُن کے کام کی تکمیل پر کافی نوازا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر ویسٹرن آئیل یا فینانشیل کارپوریشنس کی اعلیٰ کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جو کوئی مسلمانوں کو بندوقوں، لفظوں یا عصری معلومات کے ذریعے نقصان پہنچائے انھیں اسلام کے دشمنوں کی جانب سے انعام دیا جانا یقینی ہے۔
جب تک مسلمان غفلت کی گہری نیند سے نہیں جاگتے اور الجیریا سے انڈونیشیا تا ہندوستان تا عرب سر جوڑ کر نہ بیٹھیں، یہ جنگ لڑنا اور اس کا جواب دینا تو چھوڑئیے اسے روکا ہی نہیں جاسکتا ہے۔ اتحاد کے عظیم ترین نظریہ کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور ملٹری جنرلس، ماہرین دفاع، آرڈیننس انجینئرس اور مینوفیکچررس کو اپنے مذہب کے مدافعین کے طور پر اپنے اپنے رول انجام دینے کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی عالموں کیلئے ضروری ہے کہ نوجوان مسلمانوں کو صورتحال کی سنجیدگی کو سمجھنے اور رضاکارانہ طور پر اپنی طاقت لگانے کی تاکید کریں تاکہ کمیونٹی کو حملہ آور آرمی سے بچایا جاسکے۔ مسلم ممالک کو ہنگامی طور پر عاجلانہ اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امت کا دفاع مشترکہ طور پر کیا جاسکے، چاہے ان میں سے کسی پر بھی کہیں بھی یا کبھی بھی حملہ کیا جائے۔ دنیا کو مسلمانوں کی بزدلی پر حیرت ہے کہ زائد از ایک صدی سے منظم انداز میں قتل عام کئے جانے کے باوجود اُن کے مابین باہمی اتفاق کا عشر عشیر تک نہیں ہے۔
دشمنوں کو اُن کے گہرے اختلافات کا علم ہے اور وہ اُن کا قومی، فرقہ واری اور لسانی خطوط پر استحصال کرتے ہیں۔ صیہونی جن کا دنیا کے 90% نیوز چیانلوں اور سوشل میڈیا پر کنٹرول ہے اور وہ ہفتے کے ساتوں ایام چوبیسوں گھنٹے مسلمانوں کو شیطان صفت باور کرانے کیلئے بے تکان سرگرم ہیں جبکہ مسلمانوں کے پاس اس سے لڑائی کیلئے کوئی وسیلہ یا حکمت عملی نہیں ہے۔ اب وقت آچلا ہے کہ مسلم دانشور بھی ڈیجیٹل طریقے اپنائیں، پوری شدت سے ردعمل ظاہر کریں اور اپنی دفاعی جارحیت کو سائبر اسپیس تک لے جائیں۔
wichars2012@gmail.com