سشیل آرن
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرون وسطیٰ والا جنونی پن ہندوستان کو اسلاموفوبیا کی شکل میں لپیٹ میں لے چکا ہے اور مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کو وقفے وقفے سے قتل کیا جارہا ہے۔ صورتحال تیزی سے تبدیل ہوگئی کہ کچھ عرصہ قبل تک مسلمانوں کو مکانات کرایہ پر دینے سے انکار ہورہا تھا اور پھر عوامی مقامات پر اُن کی موجودگی برداشت نہ ہونے لگی۔ مسلمانوں کو ٹرینوں اور راستوں پر تنگ کیا جارہا ہے اور حتیٰ کہ شدید زدوکوب کے ذریعے قتل کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے قتل تو اب ایسا بار بار ہونے لگے ہیں کہ ہمیں کسی ایک پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ ہم جھارکھنڈ کے محمد نعیم کیلئے دو آنسو بہائیں یا ہریانہ کے حافظ جنید کیلئے؟ کتنے لوگوں کو راجستھان میں پھیلو خان کے قتل کی تفصیلات یاد ہیں؟ محمد اخلاق خواہ مخواہ کی موت کے اس سفر مسلسل میں اب بس ایک اور نام بن کر رہ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی لوگ جو فبروری میں امریکہ میں سرینواس کوچی بوتلا کے قتل پر تلملا اُٹھے، حیرت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل پر خاموش ہیں۔
بی جے پی قیادت کی طرف سے کہیں کبھی کوئی مذمتی لفظ سننے میں آتا ہے۔ پرتگال میں جنگلاتی آگ پر اس حکومت کی توجہ ہندوستان کے سماجی تانے بانے کی تباہی سے کہیں زیادہ ہے، جسے چھانے میں صدیاں لگی ہیں۔ قانون کا نفاذ تو دور کی بات ہے، تشویش کا اظہار کرنے کی بجائے مرکزی کابینہ اور بی جے پی قائدین نے گاؤ رکھشکوں کو عملاً ایسا اشارہ دیا کہ حکومت اُن کے ساتھ ہے۔ انھوں نے صدرجمہوریہ پرنب مکرجی کی جانب سے راشٹرپتی بھون میں افطار استقبالیہ میں شرکت سے گریز کیا جو عدیم النظیر روایت شکنی اور سیاسی مقصدبراری کے مترادف ہوا۔ یہ سیاستدان عملاً یہی پیام گاؤ رکھشکوں کو بھیج رہے ہیں کہ وہ بھی مسلمانوں کے تئیں یہی حقارت کا احساس رکھتے ہیں مگر ایسی حرکتوں میں برسرعام تمھارا ساتھ نہیں دے سکتے۔
گاؤ رکھشا کے تعلق سے اب نمایاں امر یہ ہے کہ اسے روکنے کیلئے بی جے پی کے پاس کوئی ترغیبی وجہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے پاس کچھ طاقت نہیں، پولیس تماشائی بن گئی، عدالتوں نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی، برسراقتدار پارٹی کا احساس ہے کہ اسے چناؤ میں اب شکست نہیں ہوگی اور اس لئے پارلیمانی انتخابات میں اسے کچھ ڈر نہیں۔
یہ بات بھی نمایاں ہے کہ پُرتشدد جوابی کارروائی کا اندیشہ نہیں ۔ ہندوستان میں مسلمان عملاً اپنی سرزمین پر یرغمال ہیں، اکثریتی برادری کے ایک طبقہ سے نمٹنے سے قاصر ہیں جسے ایسی مملکت سے مضبوطی حاصل ہے جو خواہ مخواہ تشدد کی صورت میں نظریں پھیرلیتی ہے۔ گاؤ رکھشا کا تشدد قومی سرحدوں سے ماورا مسلم یگانگت کے رشتوں کی آزمائش بھی ہے۔ عام طور پر پاکستان اور پاکستان نشین دہشت گرد گروپ تشدد یا تشدد کی دھمکی کا استعمال ہندوستانی حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے کرتے ہیں تاکہ کشمیر کے بارے میں بہتر معاملت کی جاسکے یا دیگر جگہوں پر مخالف مسلم پالیسیوں میں نرمی لائے جاسکے۔ (1993ء کے بمبئی دھماکے ان فسادات پر ردعمل تھے جن میں مسلمانوں کو ڈسمبر 1992ء اور جنوری 1993ء میں نشانہ بنایا گیا تھا۔) لیکن کانگریس اور بی جے پی حکومتیں دہشت گردانہ حملوں پر بہت مختلف انداز میں ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ کانگریس ان سے کمزور ہوتی ہے اور ہندو قوم پرستوں کو ان سے تقویت ملتی ہے۔ موجودہ حالات میں حملے مزید خونریزی کیلئے بہانہ فراہم کرسکتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہندو شناخت مزید ٹھوس ہوگی۔ اسی حکمت سے ہندو رکھشکوں نے اسلام آباد اور لشکرطیبہ کو روکے رکھا ہوا ہے۔
اس طرح رکھشکوں کو ایک ڈھال دستیاب ہوگئی کہ اس کا استحصال کیا جائے۔ لیکن ڈھال بعض اوقات ٹوٹ جاتی ہے، جو بی جے پی کے حق میں بھی کام کرتی ہے۔ پاکستانی آرمی اور لشکرطیبہ کے پاس کچھ جغرافیائی و سیاسی وجہ ہوسکتی ہے، لیکن اسلامک اسٹیٹ جیسے گروپ کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں (یہی وجہ ہے کہ ہم آئی ایس ہندوستان کیلئے خطرہ ہونے کی بات حالیہ عرصہ میں زیادہ سن رہے ہیں)۔ جب دہشت گردانہ حملے ہندوستان میں پیش آتے ہیں یا جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوجاتاہے تو توقع کے مطابق بحث مباحثہ کی سمت تیزی سے بدل جاتی ہے اور بالعموم مسلمانوں کے تئیں متوسط طبقہ کا رویہ سخت ہوجاتا ہے۔
اس کا درست اندازہ لگانے کیلئے گزشتہ کشمیر میں سال کے دوران جو کچھ ہوا، اس پر غور کرلیجئے۔ سکیورٹی فورسیس نے گزشتہ جولائی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے اُمڈ آنے والی غم و غصہ کی لہر کو دبانے کیلئے زیادتی سے کام لیا ہے، عام شہری احتجاجیوں کو گولیوں اور پیلٹس کی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ابھی تک تقریباً 100 افراد کی جان جاچکی، کئی نابینا ہوگئے اور سینکڑوں دیگر جزوی طور پر بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔ عام شہریوں کی اس قدر ہلاکت پر تشویش و مباحث اب سنگباری کرنے والے نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دیئے جانے پر منتقل ہوگئی ہے۔ یہ کام عوامی گوشے میں بار بار اعادہ کے ذریعے کیا گیا، جب کہ کشمیر کے پیچیدہ ماضی یا اس کے مصائب پر غوروفکر کیلئے کچھ گنجائش نہ رکھی گئی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران حکومت کو اس بات پر کڑی تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا کہ میجر لیتول گوگوئی نے ووٹر فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر جیپ سے بندھوایا، لیکن یکایک سرینگر میں بے قابو ہجوم نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایوب پنڈت کو مار پیٹ کر قتل کردیا؛ اس حرکت کی خود کشمیریوں نے وسیع تر مذمت کی، اور اب مشکل ہوچلا کہ سرکاری کارروائی پر توجہ واپس مبذول کرائی جائے۔ بہ الفاظ دیگر، ایک حرکت کافی ہے کہ طویل، خونریز ماضی کی برابری کرتے ہوئے اسے ماند کردے، اور مباحث کو حکومت کی مرضی کی سمت موڑ دے۔
ہمیں ایوب پنڈت جیسے مزید واقعات کشمیر اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں دکھائی دینے کا اندیشہ ہے۔ کسی بھی نامعقول حرکت کو تادیر بڑھتے رہنے نہیں دینا چاہئے؛ ایسی صورت میں ایک اور توجہ کو منتشر کرنے والا کام ہوگا، یا ایک اور شدید زیادتی ہوگا… چاہے منصوبہ بند طریقہ سے ہو یا حالات کی منطق کارفرما رہے۔ پریش راول کی اروندھتی رائے کے بارے میں ٹوئٹ نے یقینی بنا دیا کہ نعیم کی خون میں لت پت نعش کی تصاویر سے توجہ ہٹ جائے۔
کچھ بھی الزام دے کر من مانی قتل نہ صرف مسلمانوں سے نفرت کے نتیجے میں ہوتا ہے بلکہ یہ ہندو متوسط طبقہ کی مختلف برادریوں میں تائید و حمایت جٹانے، انھیں رضامند اور خائف کرلینے کا کام بھی کرتا ہے۔ کلیدی وسائل جہاں سے یہ ٹولی تیار ہوتی ہے ، اس کیلئے آزاد، متضاد آراء جیسے یونیورسٹیوں، ذرائع ابلاغ، مصنفین، فلمسازوں اور فنکاروں کو پھنسایا جارہا ہے۔ عوام کے سامنے کھلے تشدد کا منظر لے آئیے اور اس ردعمل در ردعمل یقینی ہوجاتا ہے۔ جب قانون کی حکمرانی ہی نہ ہو تو عوام کو خاموش کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ کوئی پریشان حال فرد جسے ہمسر لوگوں کی تائید کا یقین نہ ہو، اکثر و بیشتر جنونی اور منظم سیاسی قوت کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ کئی لوگ (ناحق قتل کے تعلق سے) خوف اور بے بسی اور (کشمیر میں تشدد کے تعلق سے) طیش کے درمیان فرق بتائیں گے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جسے دانستہ بڑھاوا دیا جارہا ہے، اور یہ بی جے پی کیلئے موزوں ہے کیونکہ وہ ہندو شناخت کو تیزی سے تقویت دینے کوشاں ہے۔ سنیل کھلنانی نے ’’دی آئیڈیا آف انڈیا‘‘ میں بڑی مشہور بات تحریر کی کہ ’’بنیادی اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان میں محض وجود سیاست نہیں بلکہ درحقیقت اس کی تشکیل ہی سیاست کے ذریعے ہوئی ہے‘‘۔ فی الحال سیاست کے امکانات کو منظم خوف و خطر سے خطرہ لاحق ہورہا ہے۔