مسلمانوں میں عصری تعلیم

ڈاکٹر محمد ناظم علی
کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کا دارومدار تعلیم پر منحصر ہوتا ہے ، تعلیم ہی ہمہ جہت ترقی کی ضامن ہے ۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت قدیم زمانے سے ہر قوم و طبقہ میں رہی ہے ۔ تعلیم ہی سے قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ تعلیم سے قومیں مہذب کہلاتی ہیں۔ بااخلاق  کہی جاتی ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں میں تعلیم تھی اس لئے مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں آگے تھے۔ تعلیم ہی سے مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا اور دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان سیاسی طاقت بن کر ابھرے۔ ہندوستان میں مسلمان 1947 ء تک یا 1857 ء تک حکومت کرتے رہے۔ یہ تعلیم ہی کا سہرا رہا لیکن آج کل مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان ہے ۔ تعلیم چاہے روایتی ہو یا عصری ہو ،دونوں میں ان کی نمانئدگی اور موقف بہت کمزور ہے ۔ایسے میں کیسے مسلمان ہمہ جہت ترقی حاصل کرے گا ۔ مسلمانوں کی تعلیم سے دوری کا ایک سبب یہ بتلایا جاتا ہے کہ یہ طبقہ آزادی کے بعد معاشی طور پر کمزور ہوگیا ہے ، اس کی معاشی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں۔ دیگر ابنائے وطن کو بھی یہ احساس ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ ہوگئے، جب کوئی قوم تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہوجاتی ہے تو اس کی نمائندگی زندگی کے ہر شعبہ میں کمزور ہوجاتی ہے اور اس کا معاشی ، سماجی ، اقتصادی ، تہذیبی، ثقافتی موقف کمزور ہوجاتا ہے، چنانچہ 1857 ء کے بعد مسلمانوں میں تعلیم سے بیداری و تعلیمی شعور اجاگر کرنے کیلئے سر سید احمد خاں ، حالی ، شبلی نے انہیں جدید تعلیم کی طرف سے مائل کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی 21 ویں صدی میں مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ ہے تدارک کے طور پر بہت کچھ کوششیں کی جارہی ہیں۔ روزنامہ سیاست نے 12 فیصد تحفظات کی تحریک شروع کی جس کو عوام کی بھرپور تائید حاصل ہے لیکن اس کی عمل آوری اور جی او کی اجرائی میں تاخیر ہورہی ہے ، لہذا مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی کے تدارک کیلئے کاوشیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی جارہی ہیں ۔ لیکن پھر بھی تعلیمی طور پر ان کا موقف بہت کمزور ہے ، اس کا انسداد و تدارک ناگزیر ہے ۔ مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کیلئے ایس سی ، ایس ٹی کی طرح سب پلان بنانا ضروری ہے تاکہ مسلم طبقہ ہر لحاظ سے uplift ہوسکے ۔

مسلمان برسوں سے عصری تعلیم سے دور ہے ، عصری تعلیم کا جذبہ معاشی کمزوری کے جذبے کے تحت ماند پڑگیا ہے ۔ آج بھی درسگاہوں، جامعات میں عصری تعلیم و عصری کورسس میں مسلمان کا تناسب کم ہے ۔ دیگر طبقات کے لوگ خطیر رقم دے کر عصری اور جدید ٹکنالوجی پر مبنی کورسس کر رہے ہیں ۔ ویسے مسلمان معاشی فکر میں ایسے منہمک ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم عصری تعلیم کے ثمرات و فوائد سے کوسوں دور ہیں ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی جماعتیں۔ سماجی دانشور یا مسلمانوں کی غفلت لاپرواہی اہل دانش کیلئے سوالیہ نشان ہے ۔ وہی قومیں عروج حاصل کرتی ہیں جو زیور تعلیم سے آراستہ پیراستہ ہوں اور شعبہ حیات میں ترقیات بھی تعلیم سے ہوتی ہیں لیکن اس ملک میں ایسے پسماندہ ہیں کہ وہ عصری جدید تعلیم کی فیس بھی ادا نہیں کرسکتے۔ صرف ایک مثال انجنیئرنگ اور میڈیکل کی لے لیں ، اگر ان کورسس کے انٹرنس امتحانات مسلم بچے میرٹ یا ایک ہزار کے اندر رینک نہ لائیں تو خطیر رقم دے کر مذکورہ کورسس میں داخلہ لینا پڑتا ہے لیکن مسلمانوں میں اتنی معاشی طاقت و قوت نہیں ہے کہ وہ پیسہ دے کر تعلیم حاصل کرسکیں ۔ مسلمانوں کو آزادی کے بعد معاشی طور پر کمزور کردیا گیا ۔ مختلف ایکٹ کے تحت ان کی جاگیریں اور زمین چھین لی گئی۔ یہ ایک معاشی وسیلہ تھا ، وہ بھی ختم ہوگیا ۔ اوقافی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ ہے اور بعض جائیدادیں فروخت کردی گئی ۔ اوقافی جائیدادوں سے مسلمانوں کو فیض پہنچ سکتا تھا لیکن نہیں پہنچ رہا ہے ۔ اب یہ قوم حکومت پر تکیہ کئے ہوئے ہے کہ حکومتی اسکیمات  سے مدد مل جائے تو فیص اٹھائیں۔ اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے کیونکہ ان اسکیمات کے اصول اور قواعد سخت ہوا کرتے ہیں ۔ بہر حال غریبوں تک فائدہ کم ہی پہنچ رہا ہے ، کوئی ایسی ترکیب اور پلان بنایا جائے جس کے ذریعہ مسلمان کو راست عصری تعلیم حاصل کرسکے۔ ملک میں جدید اور عصری ٹکنالوجی کے ادارے موجود ہیں اور عصری تعلیمی ادارہ بھی ہیں لیکن ان میں مسلمانوں کا تناسب نہ کے برابر ہے ۔ اب بتائیے کیسے مسلمان زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کرسکے۔

ان کا معاشی ، سماجی ، سیاسی ، ثقافتی معاشرتی موقف بہت کمزور ہے۔ کسی بھی شعبہ میں رتبہ نہیں ملا اور نہ ملے گا ، ایک تعلیم ہی ہے جس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی معاشی ، سماجی ، سیاسی ، تہذیبی معاشرتی حالت درست ہوسکتی ہے اور ان کا تعلیمی Think Thank تیار ہوگا۔ اب تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مسلمان ہندوستان کے حالات کے رحم و کرم پر جی رہا ہے۔ مسلمانوں کو ملک کے دیگر ابنائے وطن کے برابر کرتا ہو تو مرکزی اور ریاستی حکومتیں مسلمانوں کے تعلیمی پسماندگی کے تدارک و انسداد کیلئے سب پلان Sub-Plan بنائیںاور ملازمتوں کے لئے 12 فیصد تحفظات کا اعلان کریں ۔ تجربہ شاہد ہے کہ تحفظات سے تعلیمی ، معاشی ترقی ہوسکتی ہے اور ہورہی ہے جو غریب طبقہ تھا جب ان کیلئے Sub-Plan کا اعلان ہوا تو ان کی زندگیوں میں تبدیلیاں آئیں ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کیلئے وقت و حالات کے تقاضوں کے تحت تحفظات کی ضرورت لاحق ہوگئی ہے۔
سر سید احمد خاں سے لے کر سید حامد تک مسلمانوں میں تعلیمی بیداری شعور لانے کی انتھک کوشش کی گئی ہیں۔ تعلیمی کارواں کا آغاز ہوا اور ہر انجمن تعلیمی ترقی کیلئے جد وجہد کر رہی ہیں لیکن پھر بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں کیا بات ہے ؟ مسلمانوں میں عصری تعلیم عام کرنے کیلئے ان میں کوئی مضبوط تنظیم نہیں ہے اور نہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہے۔ مختلف امتیازات و مسالک کی بنیاد پر ہند کے مسلمان بٹے ہوئے ہیں اس لئے مسلم طبقہ سماجی ابتری کا شکار ہوگیا ہے ۔ مسلم طبقہ تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تعلیمی ترقی کیلئے ایک ہوجائے تو مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب آسکتا ہے ۔ مسلمانوں کے بڑے تعلیمی ادارہ خود مسلمانوں کو فیض پہنچانے سے قاصر ہیں ، ان کے اداروں میں غیر مسلم بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے ۔ موجودہ تعلیمی نظام میں زمانے کے تقاضوں کے تحت جو تعلیم مروج ہے، اس پر زور دینا ضروری ہے اور مسلم بچوں کو ترغیب دینا ہوگا کہ عصری تعلیم کے حصول کیلئے جدوجہد کریں۔  مسلم طبقہ عصری تعلیم کے ثمرات اس کی اہمیت افادیت سمجھے۔ صرف چند خاندان کے افراد عصری تعلیم حاصل کرلیں تو کچھ نہیں ہوگا بلکہ مسلم طبقہ عصری تعلیم کے حصول پر توجہ دیں۔ آزادی کے بعد مسلمان زندگی کے ہرشعبہ میں پسماندہ ہوگیا ہے ۔اس طبقہ کا نہ کوئی think tank ہے اور نہ مسائل کی سنوائی کرنے والا ہے ، ان کے معاشی ، تعلیمی ، سماجی تقاضوں کی تکمیل کیلئے کل ہند سطح پر مدبر ، سیاست داں، دانشوروں کا کال پایا جاتا ہے ۔بہرحال اس کے باوجود مسلم طبقہ کو چاہئے کہ وہ اپنے نو نہالوں اور بچوں کو عصری تعلیم کی طرف  متوجہ کریں۔ عصری تعلیم سے سماج میں مقام بنے گا اور شناخت قائم ہوگی ورنہ زمانہ و وقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔