محمد غوث علی خاموشؔ
تخلیق انسان کا مقصد ہی جب اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی ہے تو اسے بھول کر کامیاب و پرامن زندگی کا تصور کرنا کم عقلی نہیں تو اور کیا ہے، دور حال میں مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق و اتحاد کی خاص کمی صاف نظر آرہی ہے جبکہ مذہب اسلام خود اتحاد و اتفاق کا عظیم درس دیتا ہے اور مسلمان قوم کے اندر اتحاد و اتفاق کا دور دور تک نام و نشاں تک نہیں ! مسلمان مشرق کا ہو یا پھر مغرب کا ہو سب ایک ہیں مگر فاصلوں نے دشمن اسلام کو جگہ دے رکھی ہے ، صرف اس لئے کہ ہمارے اتحاد کا مرکز کہلائے جانے والے مسجدیں خالی پڑیں ہیں، کیونکہ ہمارے اندر اتحادکا احساس صرف ہماری مسجدوں سے شروع ہوتا ہے ۔ ہمارا دین ، ہمارا ایمان ہی ہماری طاقت اور کامیابی کا راز ہے ، مسلمان جب تک ایک رہیںگے متحد رہیں گے تو ہی نیک ہونے کی گنجائش صد فیصد ہے ورنہ بکھرے ہوئے پھول کبھی گلشن نہیں کہلاتے، مساجد کو مصلیوں سے خالی رکھتے ہوئے اتحاد پیدا کرنے کے نعرے لگانا جھوٹی تسلی دینے کے برابر ہے۔ اللہ کے گھروں کو یوں خالی رکھتے مسلمان غالب ہونے کی خام کوشش کر رہے ہیں۔ غیر معمولی فکر کی ضرورت ہے ، ملک میں تو مسلمان قوم فی لوقت مظلوم قوم بن کر رہ رہی ہے۔ قوم کے پاس مولانا آزاد جیسا قائد ہے اور نہ تعلیم سے قوم آراستہ ہے ، نہ طاقت ہے اور نہ اتحاد ہے تو پھر مظلوم بن کر رہنا مقدر نہیں تو اور کیا رہے گا ، آج مسلم معاشرے میں مغڑبی تہذیب ، مغربی سوچ اپنی جگہ بناکر آہستہ آہستہ مسلمانوں کو کمزور بنانے لگی ہے ، اسی لئے مسلمان اتحاد کا مرکز کہلانے والے مساجد سے دور ہوچکے ہیںاور دوری نے خالق کو بھلاکر دنیا کی تعیش میں محو کر رکھا ہے ، مسلمان دنیاوی مصروفیات میں اس قدر مشغول ہوچکا ہے کہ اسے مسجد کا راستہ تک یاد نہیں اور نہ آخرت کی کسی کو فکر ہے ، اگر کچھ ہے تو فکر دینا ہے جس میں کامیابی کیلئے صبح و شام مصروف رہتا ہے ۔ جس خالق نے پیدا کیا اور کئی نعمتوں سے نوازا جس کا حساب نہیں اسے ہی بھول کر ارزاں و فانی کی لالچ میں تمام وقت صرف کر رہا ہے، اور بندگی کا اہم مقصد آج کے مسلمان کو یاد نہیں تو پھر قدم قدم پر ناکامی نہیں تو کیا ہوگی ۔ خدا وند قدوس کی بارگاہ میں سر نہ جھکانے پر ہی غیروں کے سامنے سر جھکانے کے حالات پیدا ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی عظیم نعمتوں کو تقسیم کرنے کیلئے ہی ہر روز پنچ وقتہ اپنے گھر بلاتا ہے لیکن اذانوں کو سن کر بھی خالق کے گھر کا رخ کرنے کی آج کے مسلمان کو فرصت نہیں، رب کی بارگاہ کو بھول کر دنیا حاصل کرنے اس کی عیش و عشرت پانے کا جنون پال رکھا ہے ، اسی لئے دنیا بھر کی برائیاں قوم میں پھیلتی جارہی ہیں، نماز جو تمام برائیوں کو روکتی ہے اور اسی سے مسلمان دور رہ کر برائیوں کے قریب ہوتا جارہا ہے جس سے ملک کی سب سے کمزور قوم صرف مسلمان ہوگئے ہیں جبکہ ہماری ایمانی حرارت سے قوم کو آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جر اء ت تک کسی میں نہ رہتی تھی لیکن آج ہماری شریعت کے ساتھ ہر روز کھلواڑ کیا جارہا ہے پھر بھی مسلمان خاموش ہیں۔ ہماری شناختوں کو مسخ کیا جارہا ہے اور ہم خاموش ہیں ۔ طرح طرح کے ظلم ڈھائے جارہے ہیں پھر بھی خاموش ہیں ،د شمنان اسلام مسلمان قوم کو مظلوم بناکر رکھنے کی مکمل منصوبہ بند سازش کرچکے ہیں، مسلمان غالب ہونے آکر مغلوب ہوکر رہ گیا ہے ، یہ صرف اتحادی مراکز ہماری مسجدوں کو خالی رکھا جانے کا نتیجہ ہے ۔ اسی لئے ظلم کو مٹانے والی قوم خود آج ظلم کا جگہ جگہ شکار ہورہی ہے ، نہ سیاسی میدان میں ہمارا کوئی وجود اطمینان بخش ہے اور نہ ہمارا کوئی سیاسی ہمدرد ہے ۔ ہر سیاسی جماعت مسلمانوں کا صرف استحصال کرنے میں ماہر ہوچکی ہے ۔ یہ سب اس لئے ممکن و آسان ہوگیا ہے کہ ہمارے اندر اتحاد اب باقی نہ رہا ۔ بکھری قوم کو ہر کوئی بس استعمال کر رہا ہے اور اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے ۔ ملک کے حکمراں تو مسلمانوں کو صرف کیڑے مکوڑے سمجھ رہے ہیں ، پھر بھی غفلت کی گہری نیند سے مسلمان بیدار ہونے کو نہیں ، جو کسی لمحہ فکر سے کم نہیں ہے۔ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول کر مسلمان بے بس و لاچار کمزور بنا اپنی تباہی کا انتظار کر رہا ہے ۔ مسلمانوں کو متحد رکھنے کے مراکز ہماری مسجدیں ہمارا ہر روز پانچ وقت انتظار کر رہی ہیں، ہماری مساجد متحد بنانے کی ٹکسال ہیں اور مسلمان ہیں کہ اس سے دور رہ کر کامیاب زندگی کی کوشش کر رہا ہے ۔ دنیا کو تہذیب و تمدن کا سلیقہ جس قوم نے سکھایا ، آج یہی قوم دوسروں کی تہذیب کو سلیقہ کو اپناکر خود کو برباد کر رہی ہے ۔ سر کے بال ہو کہ جسم کا لباس یہودی فیشن مسلم معاشرے کا حصہ بن گیا ہے ، اس سے زیادہ بدنصیبی قوم کیلئے کیا ہوسکتی ہے ۔ دین سے دوری ، عبادت سے غفلت کرنے سے ہی مسلمانوں میں کمزوری سرایت کر گئی ہے اور ایمانی حرارت ختم ہورہی ہے ۔ اسی لئے دشمن اسلام کھلے عام شریعت پر ضرب لگانے کی جراء ت کر رہا ہے ۔ عدم اتحاد ایمان کی کمزوری سے ہی آج یہ سب سننا اور جھیلنا پڑ رہا ہے ۔ مسلمانوں کے اٹوٹ اتحاد کا ثبوت پیش کرنے والی مساجد خالی خالی رہنے سے دشمنوں کے حوصلہ قوی ہورہے ہیں۔ وقت رہنے تک مسلمانوں کو فوری سنبھلنا ہوگا اور اتحاد کو یقینی بنانے کیلئے مساجد کا رخ کرنا ہوگا ۔ اللہ کے گھروں کو سجدوں سے سجانا ہوگا ، خالق سے اپنے رجوع ہوکر آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو لئے گڑگڑانا ہوگا جس کے بعد رب العزت کی رضا حاصل ہوسکے اور پیارے نبی صلی اللہ علہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک مل سکے ، کیونکہ مسلمانوں کی بے پناہ اتحادکی طاقت کا مظاہرہ ہماری مساجد سے ہی ممکن ہے ۔ حقیقی خالق سے غفلت ہی زمانہ میں مسلمانوں کو کامیاب زندگی گزارنے میں حائل ہے اور اسی لئے اللہ رب العزت نے اپنے گھروں کو روئے زمین پر پھیلا رکھا ہے تاکہ بندوں کو متحد رکھنے اور رہنے میں آسانی ہو۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے اور اس پیام کو عام کیا جاسکتا ہے ۔اس لئے بھی کہ مسلمان کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے جس کو پورا کرنا ہر مسلمان کا فرض بھی ہے ۔ ظلم سہنا مسلمان کی فطرت نہیں اور نہ ہمارے خون میں حد سے زیادہ برداشت کرنا ہے ، اس کے باوجود ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ پھر بھی مسلمانوں کو اپنی کمزوری کے اسباب وجوہات کو محسوس کرنے کی فرصت نہیں ! جبکہ اہل بیت نے سروں کا نذرانہ دے کر شریعت کی حفاظت کی تھی اور آج کا مسلمان شریعت میں مداخلت پر تماش بین بنا بیٹھا ہے نہ کوئی پر زور آواز ہے نہ کوئی حرکت ہے ، جب متحد ہی نہیں ہے تو کسی بھی آواز و حرکت کا کسی کو کیا احساس ہوگا ۔ سیدنا امام حسینؓ نے کربلا میں آخری سجدہ کرتے ہوئے قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ پیام دے دیا کہ مسجدوں میں ہی ہماری کامیابی پنہاں ہے۔ اسلام کی علامت ہی نماز ہے۔جب کوئی آفت آسمان سے اترتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹ جاتی ہے اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل خدا وند قدوس کے پاس نماز ہی ہے جو وقت پر ادا کی جائے۔ آدمی اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے ، اسی لئے سردار جنت سیدنا امام حسینؓ نے آخری سجدہ میں بندگی کی اہمیت و کامرانی ، شان کا راز بتایا ، قوم کو شدید غور و فکر کرنے کا قت ہے۔ ترک بندگی کر کے زوال کو خود پر لازم کرلینے والی مسلم قوم کو مذہب اسلام کی وسیع پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھنا ہوگا ۔ دور حال میں مسلمانوں کو اسلام پر عمل کی ضرورت ہے ۔ ہمارا عظیم عمل ہی زمانہ میں انقلاب برپا کرسکتا ہے ۔ بس اتحادی مراکز کہلانے والی مسجدوں کو آباد کریں پھر دیکھیں کون کس پر غالب رہتا ہے۔