مسلمانوں میں بڑھتا جدید تعلیم کا رجحان

ظفر آغا
ایک عرصہ کے بعد یہ اچھی خبر ملی ہے کہ مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے گزشتہ ہفتہ ملک کے مختلف طبقات کی جو تعلیمی رپورٹ پیش کی ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق مسلم بچوں کا داخلہ اسکولوں میں بڑھ گیا ہے۔ سمرتی ایرانی کے بقول مسلمانوں کی کل آبادی ملک میں 22.4 فیصد ہے، جب کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مسلم بچوں اور بچیوں کا اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا تناسب 24.8 فیصد ہے، جو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ اب مسلم بچے دلتوں سے زیادہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ رجحان دہلی، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش (بالخصوص حیدرآباد)، کیرالا اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں زیادہ پایا جا رہا ہے، جب کہ اتر پردیش، بہار اور گجرات جیسی ریاستوں کے مسلمان اب بھی تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ اتر پردیش اور بہار ایسی ریاستیں ہیں، جہاں مسلم آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، یعنی اگر اتر پردیش اور بہار کے مسلمان تعلیمی میدان میں پسماندہ رہ گئے تو مجموعی طورپر ہندوستانی مسلمان پسماندگی کا شکار رہیں گے، اس لئے اتر پردیش اور بہار میں خصوصی تعلیمی بیداری تحریک کی ضرورت ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ وہ جدید تعلیم کے میدان میں پیچھے ہو گئے ہیں، اس لئے وہ زندگی کی دوڑ میں بھی پچھڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اب مسلم رکشا چلانے والا بھی اس جستجو میں رہتا ہے کہ کسی طرح اس کے بچے تعلیم حاصل کرلیں تو ان کی زندگی سنور جائے۔ یہی سبب ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ دور حاضر ایک انتہائی تیز رفتار دور ہے، اس اکیسویں صدی میں کسی فرد یا قوم کی ترقی کے لئے محض اسکول کی تعلیم حاصل کرلینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ زمانے کے لحاظ سے اسے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی ترقی کی ابتدا اسکول سے ہوتی ہے، یعنی اگر بچہ دسویں تک کی تعلیم مکمل کرلیا تو اس کے لئے ترقی کے کچھ نہ کچھ راستے کھلنے لگتے ہیں اور اگر دسویں پاس کرنے کے بعد بھی اس کی دلچسپی تعلیم میں برقرار رہی تو اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر بچہ سرکاری اسکول سے پڑھ کر نکلا ہے تو اس کی مارکٹ ویلو کم ہوگی اور اگر بچے نے کسی انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے تو اس کی مارکٹ ویلو زیادہ ہوگی۔ مرکزی حکومت نے ابھی اسکولی تعلیم کے تعلق سے جو تازہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں، اس کے مطابق مسلم بچوں کی کل اسکولی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا تقریباً 70 فیصد سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یعنی مسلمانوں میں عموماً یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم ملنی چاہئے، تاہم ابھی انھیں تعلیم کے معیار کا احساس نہیں ہوا ہے، جس کا سبب ان کی معاشی بدحالی ہے۔ جس قوم کی اکثریت کسی مستقل روزگار سے جڑی نہ ہو، وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں بھی پڑھالے تو بڑی بات ہے۔ لیکن اس بات کا ذکر کرنے سے مسلمانوں کی پسماندگی کا مسئلہ حل نہیں ہو جائے گا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے معیار کے تعلق سے مسلمانوں کا شعور بیدار کیا جائے۔پہلی بات یہ کہ تعلیم کا معیار کیسا ہو؟ اور کیا تعلیم محض اعلی انگلش میڈیم اسکول ہی سے حاصل ہو سکتی ہے؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیاری تعلیم زیادہ فیس حاصل کرنے والے اعلی انگلش میڈیم اسکول ہی سے حاصل ہوتی ہے، اس اعتبار سے یہ بات بھی مسلم ہے کہ کم از کم 95 فیصد مسلم آبادی اپنے بچوں کو معاشی بدحالی کے سبب معیاری اسکولوں میں داخلہ نہیں دلواسکتی۔ یعنی اگر ایک مسلم بچہ کسی سرکاری اسکول سے دسویں پاس بھی کرلیتا ہے تو اس کے لئے ترقی کی راہیں کھلنا مشکل ہیں، بالفاظ دیگر اگر مسلمانوں میں سرکاری اسکولوں کے ذریعہ تعلیم کا تناسب بڑھا بھی ہے تو ابھی ان کی ترقی کے امکانات پیدا نہیں ہوئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے فی الحال مسلمانوں کی تعلیم میں اضافہ کے تعلق سے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں، اس پر زیادہ خوشیاں منانے کی ضرورت نہیں ہے۔

آج دنیا کی ہر شے کی قیمت مارکٹ ویلو سے جڑی ہوئی ہے۔ آپ سرکاری اسکول سے دسویں پاس ہیں تو آپ کی اہمیت کم ہے اور اگر آپ کسی سرکاری اسکول سے دسویں پاس ہیں، مگر اس کے ساتھ آپ تھوڑی بہت انگریزی لکھ اور بول لیتے ہیں تو آپ کی قیمت کچھ حد تک بڑھ جائے گی۔ اسی کے ساتھ ساتھ اگر آپ کو کمپیوٹر آتا ہے اور آپ کمپیوٹر پر بیٹھ کر کام کرسکتے ہیں تو آپ کا مارکٹ ریٹ مزید بڑھ جائے گا۔ یعنی اس اکیسویں صدی میں ترقی کے لئے اسکولی تعلیم کے علاوہ مزید دو چیزوں پر قدرت حاصل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے، ایک انگریزی زبان پر کسی حد تک قدرت حاصل کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر پر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی معاشی حالت اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم دلواسکیں یا اپنے بچوں کو کمپیوٹر سکھا سکیں، تو کیا مسلم بچے سرکاری اسکولوں سے دسویں پاس کرنے کے بعد اپنے والدین کی طرح رکشا ہی چلائیں گے؟۔ اس مسئلہ کا حل حکومت وقت نہیں، بلکہ خود مسلم معاشرے کو تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ یہ کوئی ایسا سنگین مسئلہ نہیں ہے کہ مسلم معاشرہ اپنے بچوں کو مفت انگریزی اور کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم نہیں دلواسکتا۔

دہلی کا مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا، دہلی کے مسلم علاقوں میں برٹش کونسل کی مدد سے ایک ایسی تعلیمی اسکیم چلا رہا ہے، جس کے ذریعہ وہ ان بچوں کو جو کبھی اسکول نہیں گئے، انگریزی سے کچھ نہ کچھ واقف کروا رہا ہے، جس کے بعد ان بچوں کو مارکٹنگ کی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ یعنی اب یہ صاحب حیثیت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ درمیانی طبقہ کے مسلم بچوں کو جو سرکاری اسکول سے پڑھ کر نکل رہے ہیں، انھیں رکشا چلانے کی بجائے بہتر نوکریوں کے لائق بنائیں، تاکہ آج کی مارکٹ میں ان کی قدر و قیمت میں اضافہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ کوئی اچھا ہنر حاصل کرنے سے بھی انسان کا مارکٹ ویلو بڑھتا ہے، کیونکہ ہنر ہمیشہ سے ترقی کا راستہ رہا ہے، لیکن اب دور حاضر میں میں کسی ہنر کی بھی ڈگری ضروری ہے۔ حکومت کی جانب سے بہت سے ایسے ادارے چل رہے ہیں، جو کم پڑھے لکھے بچوں کو ہنر سکھاکر ڈگریاں دے رہے ہیں اور ان کی مارکٹ ویلو بھی اچھی ہے۔ ایک ایسا ہی ادارہ دہلی میں ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ‘‘ (این آئی او ایس) ہے، جس کی جانب سے دسویں پاس بچوں کے لئے کچھ ایسے کورسس کا اعلان کیا گیا ہے، جنھیں وہ بہت کم عرصہ میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح اگر دسویں پاس بچے یہ ڈگریاں حاصل کرلیں تو ان کی مارکٹ ویلو یقیناً بڑھ جائے گی۔ لب لباب یہ کہ مسلمانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھنا ہمارے لئے خوش آئند ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ میں یہ بیداری پیدا کرنا بھی لازمی ہے کہ آج محض دسویں پاس کرلینے سے ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے، بلکہ اس کے آگے بھی محنت کی سخت ضرورت ہے، جس کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ انگریزی سیکھنے کے علاوہ کمپیوٹر یا کسی ہنر سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے اگر ادارہ ’’سیاست‘‘ جیسے حساس ادارے مسلمانوں کی ترقی اور انھیں علم و ہنر سے جوڑنے کے لئے کام کریں تو ایک دن مسلمان بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔