مسلمانوں اور گریجن طبقات کو تحفظات کی فراہمی کیلئے جدوجہد جاری: کے سی آر

تلنگانہ کی ترقی سے اپوزیشن خوف زدہ، بھدرا چلم ، بھوپال پلی اور دیگر علاقوں میں ٹی آر ایس کی انتخابی مہم میں شرکت
حیدرآباد۔/30 نومبر، ( سیاست نیوز) کارگذار چیف منسٹر و ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں اور گریجن طبقات سے وعدہ کیا کہ وہ اُن کے تحفظات میں اضافہ کو یقینی بنانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ چیف منسٹر نے آج ٹی آر ایس کی انتخابی مہم کے سلسلہ میں ایلندو، کتہ گوڑم، منگور، ملگ ، بھوپال پلی، منتھنی اور پداپلی میں انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات مسلمانوں اور ایس ٹی طبقہ کا حق ہے جوکہ وہ انہیں دلاکر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں اور ایس ٹی طبقہ کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور حکومت انہیں آبادی کے اعتبار سے تحفظات فراہم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں سپریم کورٹ نے جو حد مقرر کی ہے وہ دستور کے مغائر ہے۔ دستور میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کہ تحفظات کی حد 50 فیصد سے زائد نہ ہو۔ چیف منسٹر نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ مرکز میں غیر کانگریس اور غیر بی جے پی سرکار تشکیل پائے جسے وہ دستوری ترمیم کیلئے راضی کرتے ہوئے تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب ٹاملناڈو میں 68 فیصد تحفظات رہ سکتے ہیں تو پھر تلنگانہ میں کیوں ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ دونوں طبقات کیلئے تحفظات حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تحفظات میں اضافہ کیلئے اسمبلی اور کابینہ میں قرارداد منظور کی گئی اور چیف منسٹر کی حیثیت سے وزیر اعظم کو 30 مکتوب روانہ کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم تلنگانہ کی انتخابی مہم میں حصہ لیتے ہوئے تحفظات فراہم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا نریندر مودی پسماندہ طبقات کی ترقی نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اور بی جے پی دونوں غرور و تکبر کا شکار ہیں اور لوک سبھا انتخابات میں غیر کانگریس اور غیر بی جے پی حکومت کی تشکیل کے ذریعہ ہی تحفظات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ کے سی آر نے کانگریس پر الزام عائد کیا کہ اس کے دور میں ہر اسکیم اور پراجکٹ کا نام اندرا ، راجیو اور نہرو کے نام پر رکھا گیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تلنگانہ میں کوئی اور شخصیتیں نہیں ہیں جن کے نام رکھے جاسکیں۔ کے سی آر نے کہا کہ تلنگانہ میں کئی مجاہدین آزادی اور ممتاز شخصیتیں ہیں جنہوں نے نہ صرف جدوجہد آزادی میں حصہ لیا بلکہ ریاست کی تعمیر میں اہم رول رہا ان کے ناموں کے بجائے محض ایک ہی خاندان کے نام رکھنا کہاں تک درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی اور فلاحی کاموں کو دیکھ کر بی جے پی اور کانگریس الزام تراشی پر اُتر آئے ہیں۔ ٹی آر ایس نے 4 برسوں کے دوران کسی بھی اسکام اور کرپشن کے بغیر حکومت چلائی۔ کے سی آر نے کہا کہ مسلسل تنقیدوں کو روکنے کیلئے انہوں نے وسط مدتی انتخابات کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام کا آشیرواد دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ تلگودیشم اور کانگریس نے موقع پرست اتحاد کے ذریعہ ٹی آر ایس کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے عوام اس اتحاد کو مسترد کردیں گے۔کے سی آر نے راہول گاندھی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تلنگانہ کانگریس کے قائدین جو اسکرپٹ دے رہے ہیں وہی پڑھی جارہی ہے۔ انہوں نے کمیشن کیلئے پراجکٹس کی ری ڈیزائننگ سے متعلق الزام پر برہمی ظاہر کی اور راہول گاندھی کو چیلنج کیا کہ وہ اندرا ساگر اور راجیو ساگر پراجکٹس کا ان کے ساتھ معائنہ کریں کہ اُن کی کیا حالت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ری ڈیزائننگ کے ذریعہ سیتارام پراجکٹ کا آغاز کیا گیا ہے۔ انہوں نے راہول گاندھی کو مشورہ دیا کہ وہ بے بنیاد الزامات سے گریز کریں۔ کے سی آر نے کہا کہ کانگریس پارٹی کی جانب سے ترقی میں مسلسل رکاوٹ کے سبب انہوں نے وسط مدتی انتخابات کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام کانگریس اور تلگودیشم پر بھروسہ کریں گے تو ریاست بحران کا شکار ہوجائے گی۔