کورٹلہ۔27نومبر ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبہ میں 12% فیصد تحفظات فراہم کرنے کا ٹی آر ایس پارٹی کی جانب سے تلنگانہ کے مسلمانوں کے ساتھ 2014ء کے اسمبلی و پارلیمانی انتخابات کے موقع پر مسلمانوں سے جو وعدہ کیا گیا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ادارہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی جانب سے جو تحریک شروع کی گئی ہے آج اس کی گونج سارے تلنگانہ میں سنائی دے رہی ہے ۔ جناب عامر علی خان نیوز ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ مسلمانوں کو 12%فیصد تحفظات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ادارہ روزنامہ سیاست کی جانب سے شروع کردہ تحریک کے ضمن میں تلنگانہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلاٹ فارم پر جمع کررہے ہیں ۔ تلنگانہ ریاست کے مختلف اضلاع کے مسلمان بلالحاظ سیاسی وابستگی اس تحریک سے منسلک ہوتے ہوئے اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اپنا رول ادا کررہے ہیں ۔ ٹی آر ایس پارٹی جس نے انتخابات کے موقع پر مسلمانوں سے 12% فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئی ہے ۔ 16ماہ کے دوراقتدار میں حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ۔ ٹی آر ایس حکومت واقعی مسلمانوں کو روزگار اور تعلیمی شعبوں میں 12فیصد تحفظات فراہم کرتے ہوئے مسلمانوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ مسلمانوں کو 12%فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے بی سی کمیشن تشکیل دے ۔ مسلمانوں کو 12% فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے مسلمانوں کا معاشی حالات کا سروے کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے سدھیر کمیشن قائم کیا گیا ہے اسے مسلمانوں کو کبھی بھی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے سلسلہ میں ترقیاتی اقدامات کرنے کی جو تشہیر کی جارہی ہے اسے مسلمانوں کو فائدہ کم اور حکومت کی پبلسٹی زیادہ ہورہی ہے ۔ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی فلاح و بہبودی پر کرورہا روپئے کا بجٹ مختص کرنے کی تشہیر کی جاتی ہے جبکہ بجٹ کا 25% فیصد حصہ مسلمانوں کی فلاحی اسکیمات پر خرچ نہیں کیا جاتا ۔ اگر حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو روزگار اور تعلیمی شعبوں میں 12% فیصد تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں تو مسلمانوں کے معاشی اور تعلیمی حالات مستحکم ہوں گے اورمسلم نوجوان معاشی اور تعلیمی طور پر مستحکم ہوکر اپنا اور اپنے ارکان خاندان کا مستقبل سنوار سکیں گے ۔ مسلمانوں کی پسماندگی پر سچر کمیٹی کی جانب سے سابق حکومت کو جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی معاشی حالات ایس ٹی ‘ ایس سی طبقات سے بھی بدتر ہے ۔جہاں سچر کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دیگر طبقات کی طرح مسلم طبقہ بھی تحفظات کے مستحق ہیں ۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کے معاشی حالات کا جائزہ لینے کیلئے سدھیر کمیشن قائم کیا گیا ۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ جناب کے سی آر جنہوں نے تلنگانہ ریاست کے حصول کے سلسلہ میں تمام طبقات کی تائید حاصل کرتے ہوئے تلنگانہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ‘ وہیں ان پر یہ گراں ذمہ داری حاصل ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں 12% فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے بی سی کمیشن کے قیام کیلئے راہ ہموار کریں ۔ جناب کے سی آر چیف منسٹر تلنگانہ جو تلنگانہ ریاست کو سنہرے گلنگانہ ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو چاہیئے کہ تلنگانہ کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف کریں اور تمام طبقات کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کریں اور مسلمانوں کے چہروں جو مسکراہٹ سابق آندھرائی حکمرانوں کے دور حکومت میں چلے گئی تھی ‘ مسلمانوں کو روزگار اور تعلیمی شعبوں میں 12% فیصد تحفظات فراہم کرتے ہوئے مسلمانان تلنگانہ کے چہروں سے جو مسکراہم غائب ہوگئی تھی اسے لوٹا دیں ۔ تلنگانہ کے تمام مسلمان مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ملت کے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روزنامہ ’’سیاست‘‘ کی جانب سے شروع کی گئی تحریک سے وابستہ ہوکر حکومت سے مسلمانوں کو روزگار اور تعلیمی شعبوں میں 12% فیصد تحفظات فراہم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ اگر ٹی آر ایس حکومت ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظآت فراہم کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو 2019ء کے اسمبلی و پارلیمانی انتخابات میں ٹی آر ایس کا وہی حشر ہوگا جو 2014 کے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کا ہوا تھا ۔