مسلمان، میڈیا اور ڈونالڈ ٹرمپ

محمد مصطفی علی سروری
امریکی نو منتخبہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد دنیا بھر میں عجیب سی بے چینی پھیل گئی ہے ۔ یہ واقعی بے چینی ہے یا میڈیا کی کوئی اختراع اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ سابق میں ایسی کئی نظیر ملتی ہیں ۔ جب عالمی میڈیا نے مخصوص مفادات کی تکمیل کی خاطر جھوٹی اور بے بنیاد خبریں بھی نشر کی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور سب سے بڑی معیشت امریکہ کے نئے صدر نے باضابطہ طور پر اور کھلے عام بیان دیا ہے کہ اس کرہ ارض پر سب سے بے ایمان لوگ میڈیا والے ہیں ۔ اپنی تقریب حلف برداری سے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشہور امریکی نشریاتی ادارے (CNN) کے نمائندے کے سوالات کا جواب دینے بلکہ سوالات قبول کرنے سے بھی واضح طور پر انکار کردیا ۔ ساتھ ہی انہوں نے CNN کو جھوٹی اور فرضی خبریں نشر کرنے والا ادارہ بھی قرار دیا تھا ۔ سارے عالم اور خاص طور پر مسلمانوں کیلئے امریکہ کے نو منتخبہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو سمجھنا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں تک ڈونالڈ ٹرمپ کے متعلق جو کچھ بھی خبریں پہونچتی ہیں اور پہونچ رہی ہیں، وہ CNN جیسے عالمی نشریاتی اداروں اور خبر رساں اداروں کے توسط سے ہی پہونچتی ہے۔ جب مسلمانوں تک پہونچنے والی خبریں ایسے ذرائع سے ہوں جو کہ خود مسلمانوں کے تئیں راست گو اور ایماندار نہیں تو مسلمانوں کوان کا پیش کردہ نقطہ نظر قبول کرلینا چاہئے ؟ ہاں ٹرمپ مسلمانوں کے متعلق اپنے تحفظات کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں ۔ وہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کے خواہاں ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں موجود مسلمانوں کا Data Base بھی تیار کرنے کے بارے میں بیان دیا تھا ۔
ایک ایسا میڈیا جس پر خود ڈونالڈ ٹرمپ  الزامات عائد کر رہے ہیں ، وہ کیسے غیر جانبدار ہوسکتا ہے ۔ اب دو طرح کی صورتحال سامنے آئی ہے یا تو میڈیا مسلمانوں کا دشمن یا مخالف ہے یا پھر ڈونالڈ ٹرمپ مسلم مخالف ہے ؟ دونوں باتیں درست نہیں ہوسکتی ہے ۔
اگر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیاں مخالف اسلام ہیں جیسا کہ میڈیا میں اکثر کہا گیا ہے تو میرا یہ سوال ہے کہ امریکہ کے کس صدر نے اسلام کی حمایت میں امریکی پالیسی تشکیل دی تھی ۔
امریکہ کا ہر صدر بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدہ صدارت کا حلف لیتاہے ۔ بارک اوباما نے بھی بائبل پر ہی حلف لیا تھا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو امریکہ داخل ہونے سے روکنے کے بارے میں اظہار خیال کیا ۔ اس پر دنیا بھرکے مسلمان تشویش میں مبتلا ہیں ۔ ان سے میرا سوال ہے اپریل  2016 ء میں پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے اردو کے مشہور شاعر راحت اندوری کے متعلق خبر جاری کی کہ انہیں امریکہ میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے ویزا جاری نہیں کیا گیا ۔ اگست 2016 ء کے دوران ہی بالی ووڈ بادشاہ شاہ رخ کو لاس اینجلس  ایرپورٹ پر ایمگریشن حکام نے سیکوریٹی کی وجوہات پر مسلسل تیسری مرتبہ روک لیا اور تینوں مرتبہ امریکہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نہیں بلکہ اوباما ہی تھے ۔
2011 ء کی خبر ہے سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ستمبر کے مہینے میں نیویارک ایرپورٹ پر تلاشی کے لئے ایک نہیں دو مرتبہ روک لیا گیا تھا اور اس وقت بھی امریکہ میں صدر بارک اوباما تھے ۔ یعنی ابھی تک امریکہ آنے والے مسلمانوں کو ایرپورٹ پر روکا جاتا تھا اور تلاش لی جاتی تھی ۔ نئے صدر نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر روک لگانے کی بات کی ہے ۔ جیسا کہ میڈیا نے بتلایا ہے تو اس پر تشویش میںمبتلا ہونے کی بات کیا ہے ۔ یہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔ بالغرض امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی بھی لگادی جاتی ہے تو میرا یہ سوال ہے کہ سارے عالم کے مسلمانوں کیلئے امریکہ میں داخلہ ہی سب سے اہم کام باقی بچ رہ گیا ہے کیا ؟  کیا تبلیغ اسلام کیلئے صرف امریکی سرزمین ہی باقی بچی ہے ؟
کیا مسلمان اس بات کو بھول گئے بارک اوباما کے دور میں کئی ہزار بم امریکی افواج نے مختلف مسلم ملکوں پر گرائے تھے ۔ برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے 19 جنوری 2017 ء کو ایک خبر شائع کی کہ جس کے مطابق سال 2016 ء کے دوران امریکی افواج نے 26 ہزار ایک سو اکہتر (26,171) بم محتلف جگہوں پر برسائے اور یہ ممالک مسلم اکثریتی ہیں ۔ شام میں (12,192) عراق میں (12,095) ، افغانستان میں (1,337) ، لیبیاء میں (496) ، یمن میں (85) ، صومالیہ میں (14) ، اور پاکستان میں (3) بم گزشتہ ایک برس میں برسائے گئے ۔ اب میرا یہ سوال ہے کہ بارک اوباما نے اپنی سکبدوشی کے برس جو بم برسائے ہیں کیا وہ اسلام  دشمن ملک تھے اور کیا اس بمباری سے ان مسلم ملکوں میں امن قائم ہوگیا تو پھر کیوں بارک اوباما مسلم دوست اور ڈونالڈ ٹرمپ مسلم دشمن ٹھہرتے۔ بارک اوباما کے دور صدارت میں ہی اسرائیل کو 220 ملین ڈالر مالیتی امداد دی گئی اور یہ ساری امداد ٹیکس میں چھوٹ کی رعایت کے ساتھ اسرائیل میں نئی نو آبادیات کے قیام کے لئے دی گئی۔ اس بات کا اعتراف خود اسرائیل کے آن لائین اخبار Haaretez کے رپورٹر Uribalau نے اپنی ایک رپورٹ میں ڈسمبر 2015 ء میں ہی کیا تھا ۔ اب یہاں سوال یہ ا ٹھتاہے کہ وہ کونسا امریکی صدر ہے جس نے اسرائیل  کے قیام کے بعد سے اس کی حمایت اور سر پرستی نہیں کی ۔ اگر ہم اقوام متحدہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ 1972 ء سے امریکہ نے سلامتی کونسل میں اسراء یل کی مذمتی قرارداد کو روکنے کیلئے (39) مرتبہ (بحوالہ Donal neft رپورٹ) ویٹو (Veto) کے حق کا استعمال کیا ۔ یعنی اسرائیل کی حفاظت اور قیام و توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے بالراست طور پر امریکہ نے ہمیشہ ہر اول دستہ کا کام کیا ہے ۔ اب تک امریکی صدور بغیر اعلان کئے اسرائیل کی حمایت کا کام کرتے تھے اور ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ وہ اسرائیل کے ایک اچھے دوست کا کردار نبھائیں گے ۔ آخر کچھ تو بات ہونی چاہئے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت کی جائے یا میڈیا نے کہہ دیا کہ ٹرمپ مخالف اسلام ہے ، ہم آنکھ بند کئے اس بات کو تسلیم کرلیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پڑوسی ملک میکسیکو سے امریکہ میں  غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو روکنے سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کیا ۔ کیا میکسیکو میں مسلمان رہتے ہیں کہ ان کو امریکہ آنے سے روکنے ٹرمپ نے دیوار کی تعمیر کا اعلان کیا ۔ ٹرمپ کا ایک سیاسی نظریہ ہے وہ امریکہ کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلوانا چاہتے ہیں ۔ ہر ملک میں ایسے سیاست داں ہوتے ہیں جو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ایک الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی انتخابات کا سامنا کر کے صدر امریکہ بنے ہیں اور بنیادی طور پر ایک بزنس مین ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کا ان کا اپنا انداز ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی جو کہ اب تک چلی آرہی ہے اس سے ان کو سخت اختلاف ہے ۔ جی ہاں یہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ ہمیں  غور کرنا ہوگا ۔
1991 ء میں سویت یونین کے زوال کے بعد عالمی سیاست میں طاقت کا توازن بدل گیا تھا اور امریکہ واحد سوپر پاور کے طور پر اپنی من مانی چلاتا رہا اور اگر ہم 1991 ء کے بعد کی عالمی سیاست کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اور خاص کر مشرق وسطی کی پالیسی کبھی بھی مسلم دوست نہیں رہی ، ہاں امریکہ مشرق وسطی میں اپنے حلیف ملکوں کے مفادات کی نگہبانی کا کام کرتا رہا ۔ صدام حسین کو وسیع تباہی کے ہتھیار رکھنے کے الزام میں اقتدار سے بیدخل کرنے کا کام کیا گیا اور امریکہ کے خارجی مفادات خاص کر خارجہ پالیسی کے اہداف کی تکمیل میں میڈیا پیش پیش رہا ۔ یو ایس اے ٹوڈے میں 2003 ء میں شائع رپورٹ کے مطابق اس وقت امریکہ میں کئے گئے ایک سروے میں یہ رپورٹ ملی کہ 10 امریکیوں میں سے 7 امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ 11 ستمبر کو امریکہ پر ہوئے حملے کیلئے صدام حسین خود  ذمہ دار ہے اور یہ سروے واشنگٹن پوسٹ نے کروایا تھا ۔ یہ میڈیا ہی تھا جس کے ذریعہ سے جارج بش نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ 11 ستمبر کے سانحے اور صدام حسین کے درمیان کوئی تعلق ہوسکتا ہے۔ اس طرح یہ بات کئی ایک مثالوں کے ذریعہ سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ امریکی میڈیا اور عالمی میڈیا ہمیشہ ہی امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق کام کرتا رہا جو میڈیا ابھی تک بارک اوباما کے سحر سے باہر نہیں نکل سکا وہ یہ بھول گیا کہ جن حکومتی تبدیلیوں کو وہ عوامی انقلاب کا نام دیتا تھا۔ دراصل امریکی مفادات کے تابع تھی۔ سبکدش امریکی صدر بارک اوباما کی اپنے آٹھ سالہ دور صدارت کی سب سے بڑی غلطی لیبیا میں قذافی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی تیاری نہ کرتا تھا ۔ امریکی صدر نے تو اعتراف کرلیا مگر میڈیا اب ڈونالڈ ٹرمپ کے ہاتھوں ذلیل ہورہا ہے اور میری دانست میں ڈونالڈ ٹرمپ کے متعلق منفی پروپگنڈہ بھی میڈیا کی وہی ذہنیت ہے کیونکہ جب نئے امریکی صدر کی ترجیحات اور میڈیا کی ترجیحات یکساں نہ ہوں تو تصادم یقینی ہے اور ان دونوں کے درمیان تصادم میں مسلمانوں کی عافیت اس میں ہے کہ وہ خود فریق نہ بنیں اور نہ ہی میڈیا کا آلہ کار بنیں ۔ حالانکہ میڈیا چاہتا تو یہی ہے کہ مسلمان ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت میں اس کو اپنا کاندھا استعمال کرنے کا موقع فراہم کریں ۔ کیا مسلمانوں کو ہلاری کلنٹن کی اس ویڈیو سے بھی سبق سیکھنے کا موقع نہیں ملاجہاں پر ایک کمیشن کے روبرو خود ہلاری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ القاعدہ کو افغان جنگ میں ہتھیاروں سے مسلح کر کے سویت یونین کے خلاف لڑانے امریکہ نے کئی بلین ڈالرس خرچ کردیئے اور سویت یونین کے بکھرنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی ۔ افغان جہاد امریکی مفادات کی تکمیل میں کام آیا اور معلوم نہیں کب کوئی کمیشن سامنے آئے گا اور اس کے روبرو امریکی اہلکار اعتراف کریں گے کہ شام میں بھی اسد کے خلاف جہاد کیلئے ہم نے ہی نعرہ لگایا تھا ۔ اس سارے پس منظر میں جب ڈونالڈ ٹرمپ میڈیا کو جھوٹی خبریں پھیلانے والا کہہ رہے ہیں تو ہمیں تعجب نہیں ہونا چاہئے ۔ جب ٹرمپ مذہب اسلام کی تبلیغ کیلئے مسلمانوں کو امریکہ آنے سے منع کر رہے ہیں تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ افریقہ کے ان علاقوں کا رخ کرلیں جہاں ابھی اسلام کی دعوت نہیں پہونچی ہے کیونکہ اسلام صرف امریکہ اور یوروپ میں نہیں بلکہ سارے عالم میں پھیلانے کی  ذمہ داری مسلمانوں کی ہے ۔
sarwari829@yahoo.com