مسلئے ہندو بھارت او رمسلم کشمیر کا نہیں ہے ‘میر واعظ

سری نگر۔ مرکزکی این ڈی اے حکومت کی جانب سے کشمیر پر سخت موقف اختیار کرنے کا چیرمن حریت کانفرنس میر واعظ عمر فاروق نے ایچ ٹی کو دئے گئے اپنے انٹریو کے دوران حوالہ دیااو ر یہ بھی کہاکہ اس مسلئے پر سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت اورموجودہ حکومت کے درمیان میں بڑا فرق ہے۔

انہوں نے کہاکہ مسئلہ ہندو بھارت اور مسلم کشمیر کا نہیں ہے بلکہ سیاسی ہے۔چیرمن حریت کانفرنس اور وادی کی مرکزی مسجد کے امام میر واعظ عمر فاروق نے عاشق حسین سے کشمیر کے پرامن حل کے لئے علیحدگی پسندوں کے موقف‘ واجپائی اور مودی حکومت کے درمیان کے فرق اور حریت کی جانب سے پہل پر ناکامی کے اسباب پر بات کی اور کہاکہ اگر تم کشمیر کے مومنٹ پر آگے بڑھنا چاہتے تو وہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دوران پر توجہہ دو۔

کیاوہ امید اب بھی باقی ہے؟۔
واجپائی کے دورحکومت کی این ڈی اے سرکارنے جن پالیسیوں کو اپنا یاتھا اس سے تقابل کریں تو نئی دہلی کی پالیسی میں تبدیلی دیکھائی دے رہی ہے۔

میں سمجھتاہوں اس وقت کشمیر کو انسانی بنیادوں پر درپیش مسئلہ سمجھا گیاتھا۔ اسی وجہہ سے مسٹر واجپائی نے اس وقت کہاکہ ہم انسانیت کے مقصدکے ساتھ جڑناچاہتے ہیں۔انہوں نے دہلی سے رابطے کے لئے ہمیں راستہ دیا اور پاکستان بھی گئے۔

یہ سہ رخی راستہ ایک دوسرے باہم بات چیت کے موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ موقع پوری طرح اب نظر انداز کردیاگیاہے۔ ہمیں سخت موقف دیکھائی دے رہا ہے۔واجپائی کے نظریہ کو دوہرے رویہ میں تبدیل کردیاگیاہے۔ اب ریاست کارڈن اینڈ سرچ اپریشن میں لوگوں کے ساتھ مصروف ہے۔

وہیں واجپائی نے امن کی بات کی ہے‘وہیں مسٹر مودی اوران کی ٹیم جنگ کی بات کررہی ہے۔

عمران کے اقتدار میںآنے کے بعد انہوں نے متواتر کشمیر پر بات چیت کے لئے زوردیاہے۔
پہلے دن سے ہی وہ( عمران خان) اس بات کا ذکر کیاہے’’ اگر ہندوستان ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ دوقدم آگے بڑھیں گے‘۔پاکستان کی مرضی ہے مگر یہ خواہش دونوں جانب سے ہونا چاہئے۔ عمران خان متواتر جڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر دوسر ی جانب سے کوئی ردعمل نہیں ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ نئی دہلی اسلام آباد یا پھر کشمیریوں کے ساتھ اس موقع پر جڑنا نہیں چاہا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مجوزہ الیکشن کے سبب ہوگا۔یہ صاف ہے کہ ان کا ایجنڈہ ہندوتوا ہے اوران کی تمام تر توجہہ اسی پر ہے۔

ہندوستان نے کہاکہ ہے جب تک تشدد جاری رہے گا بات چیت ممکن نہیں ہے اور پاکستان کوکشمیر میں کشیدگی پیدا کرنے کا مورد الزام ٹہرایا ہے۔

بہت سارے سیاسی جانکاروں کا یہ کہنا ہے کہ اگر بی جے پی کو سیاسی طور پر کمزوری محسو س ہوتی ہے تووہ کشمیراورپاکستان کا بڑے پیمانے پر استعمال کریں۔ اگر کوئی چیز کام نہیں کرتی ہے توان کے پاس پاکستان‘ دہشت گردی اور کشمیر وہ مسئلہ ہیں جس کے ذریعہ وہ قوم پرستی کے نظریات کوپیش کریں گے۔

ایسا ہی ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔ او رہندوستان تشدد کے لئے پاکستان کو مورد الزام قرار دے رہا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے وہ ایسا کرتے آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر نوجوان مارے جارہے ہیں‘ قتل کئے جارہے ہیں اندھے بنائے جارہے ہیں۔

پچھلے پچیس سالوں سے علیحدگی پسند کشمیر میں بغیرکسی کامیابی کے کام کررہے ہیں۔ آپ لوگوں کی ناکامیوں کے اسباب کیاہے؟
جب آپ دوسرے مسلئے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو آپ کیاکرسکتے ہیں؟وہ صرف ملٹری کااستعمال کرنا جانتے ہیں۔مضبوط او رمستحکم بنانے کے علاوہ آپ کے لئے ہم کیاکرسکتے ہیں۔

اور وہی کام ہم نے کیا ہیاور کشمیری عوام کی نسلوں نے بھی وہی دیکھا یا ہے۔ ہر دوسرے دن متنازعہ مسائل سامنے آجاتے ہیں۔ مسائل جیسے بیرونی‘ ادارہ جاتی اور جموں او ر کشمیر بینک( جس کو پبلک سکیٹر بینک میں تبدیل کردیاگیاہے)۔

کشمیر میں داعش او رالقاعدہ کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟۔
جہاں تک کشمیر ی شدت پسندی کی بات ہے تو آپ اس کو القاعدہ یاکسی اور چیز سے جوڑ سکتے ہیں۔ یہاں پر اس کے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پارٹیاں جیسے حزب المجاہدین اور دیگر ان کا موقف صاف ہے۔

وہ صرف کشمیر تک محدود ہیں۔جن کو الگ انداز میں پیش کیاجارہا ہے
حالیہ مجالس مقامی کے انتخابات کے بائیکاٹ کا آپ نے اعلان کیاوہیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اس سے دور رہی ‘جس کے نتیجے میں بی جے پی کا حوصلہ افزا مظاہرہ رہا توقع کے برخلاف۔

کیاآپ لوگوں سے دوبارہ بائیکاٹ کی اپیل کریں گے تاکہ بی جے پی کی اجارہ داری میں اضافہ ہو؟۔

موافق ہندوستان سیاسی جماعتوں کے پس منظر میں این سی‘ پی ڈی پی اور بی جے پی میں کوئی فرق نہیں ہے۔

کوئی بھی فوجی اور نیم فوجی دستوں کے ادارہ جاتی معاملہ میں حکومت ہند کی ہدایت پر مبنی پالیسی یہاں ہو

۔یہاں تک کہ آج این سی او رپی ڈی پی پر موافق پاکستان ہونے کا لیبل لگاہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ بی جے پی ہم سے پریشان ہے کیونکہ وہ پیسوں او رطاقت کااستعال کرتی ہے