مسجد کی توسیع میں قبور کے آثار برآمد ہونا

سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کی توسیع کا کام شروع کیا گیا ہے ۔ مسجد کے آنگن میں آر سی سی کا چھت ڈالا جارہا ہے تاکہ مصلیان مسجد کو سہولت ہو ستون کیلئے کھدائی کی گئی تو ایک گڑھے میں دو پرانی قبریں نمودار ہوئی ہیں۔ یہ قبریں سطح زمین سے چار فٹ نیچے ہیں ، موجودہ حالت کی وجہ تعمیری کام رک گیا ہے ۔ اس بارے میں فتوی عنایت فرمائیں تاکہ قبروں کی حرمت بھی باقی رہے اور مسجد کی توسیع کا کام بھی تکمیل پاجائے ؟
محمد وزیر، شاہین نگر
جواب : شریعت مطھرہ میں واقف کی تصریحات نصوص شارع کی طرح واجب ا لتعمیل ہیں جیسا کہ در مختار جلد سوم ص : 476 میں ہے ۔ وما خالف شرط الواقف فھو مخالف للنص سواء کان نصہ نصا او ظاھرا ھذا موافق لقول مشائخنا کغیرھم شرط الواقف کنص الشارع فیجب اتباعہ کما صرح بہ فی المجمع۔
مذکورہ صراحت کی روشنی میں سب سے پہلے یہ تحقیق ضروری ہے کہ آیا یہ زمین قبرستان کے لئے موقوفہ ہے یا مسجد کے لئے اگر قبرستان کے لئے موقوفہ ہو تو اس میں مسجد کی تعمیر و توسیع شرعاً درست نہیں۔ باعتبار دستاویز اگر وہ مسجد کی ملک ہو تو اس میں مسجد کی تعمیر و توسیع شرعاً درست قرار پائے گی اور یہ سمجھا جائے گا کہ سابقہ ادوار میں عام طور پر بانی مسجد وغیرہ مساجد کے صحن میں اپنی تدفین کیلئے ایک جگہ متعین کرلیا کرتے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بانی مسجد اور ان کے متعلقین کے قبور ہوں یہی صورت اگر متحقق ہو تو قبور کے محاذی سطح زمین کے اوپر قبور کے نشان بنائے جائیں اور ان کے سامنے ایک حاجز (دیوار) تعمیر کرلی جائے تاکہ قبور کے آگے نمازوں کی ادائیگی میں جو شرعی حرج و کراہت ہے، وہ دور ہوجائے ۔

اکرام مؤمن و جذبۂ ہمدردی
سوال : آپ کے اس کالم میں شرعی مسائل اور اس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی کی جاکر اسلامی نقطہ نظر سے رہبری کی جاتی ہے۔ آج مسلمان میں بداخلاقی، مفاد پرستی ، خود غرصی ، کوٹ کوٹ کے بھر چکی ہے ۔ دوسروں کے کام آنا ، ہمدردی کرنا ، خیر خواہانہ جذبہ رکھنا ناپید ہے ۔ ایک دوسرے کی شکایت کرنا ، احترام کے خلاف گفتگو کرنا، توہین کرنا عام ہوتے جارہا ہے ۔ ان حالات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں مذکورہ احوال پر رہبری فرمائی جائے تو بہت بہتر ہے ؟
اختر نواب ، ملے پلی

جواب : اسلام میں اکرام مومن کی کافی اہمیت ہے۔ دوسروں سے متعلق حسن ظن رکھنا اور اچھا سلوک کرنا اخلاقی فریضہ ہے ۔ دوسروں کیلئے آپؐ کے دل میں ہمیشہ ہمدردی اور مہربانی کے جذبات موجزن رہے ۔اس مسئلہ میں آپؐ کے نزدیک اپنے بیگانے ، آزاد اور غلام کی کوئی تمیز نہ تھی ۔ آپؐ اکثر فرمایا کرتے تھے : ’’ میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہوجائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں ‘‘ (ابو داؤد : السنن ، 183:5 ، حدیث 4860 : الترمذی 71:5 ، حدیث 3896 ، مطبوعہ قاہرہ 1965 ء) ۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے دو افراد کے متعلق آپؐ کو کوئی شکایت پہنچائی ۔ جسے سن کر آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپؐ نے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو کنایۃً فرمایا کہ ’’ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو ‘‘ (الترمذی ، محل مذکور ، البخاری ، 127:4 ) ۔ اس کے برعکس آپؐ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ترغیب دیا کرتے تھے کہ وہ دوسروںکے حق میں اچھی باتیں کیا کریں۔ ایک موقع پر فرمایا : ’’ لوگوں کی میرے سامنے سفارش کرو تاکہ تم اجر پاؤ اور اللہ ا پنے نبیؐ کی زبان پر جو چاہے فیصلہ جاری کردے (البخاری ، الادب ، مسلم (البر) ، 1026:4 ، حدیث 2627 ) ۔ یہی ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ تھا کہ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ میں نے اللہ سے پختہ عہد لے رکھا ہے کہ اگر (ولو بالفرض) میری زبان سے کسی کے حق میں کوئی غیر مفید دعا یا جملہ نکل بھی جائے تو اللہ تعالیٰ متعلقہ فرد کو اس کے بدلے میں رحمت ، دل کی پاکیزگی اور روز قیامت میں قربت عطا فرمادے (مسلم ، 2000:4 ، حدیث 2600 تا 2604 ) ، آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ اخلاق کی بلندی یہ نہیں کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے ، بلکہ صحیح اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقہ ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے‘‘۔ اسی بناء پر آپؐ کے نزدیک نیکی کا مفہوم حسنِ خلق ، یعنی دوسروں سے اچھا برتاؤ تھا ۔ آپؐ کا ارشاد ہے ’’ البر حسن الخلق ‘‘ (مسلم ، 1980:4 ، حدیث 2552 ) ۔ آپ نے فرمایا:’’ ا کمل المؤمنین ایماناً احسنھم خلقا ‘‘ (الترمذی : السنن : 3 ، 469 ، حدیث 1162 ، ابو داؤد 6:5 ، حدیث 4682 )۔ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طر ز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ، فرمایا ’’ ان خیارکم احسنکم اخلاقاً ‘‘ (البخاری ، 121:4 ، کتاب 78 ، باب 39 ) ، یعنی تم میں وہی بہتر ہے جس کا اخلاق دوسروں سے اچھا ہو ۔ ایک بار آپؐ نے فرمایا کہ ’’ اچھے اخلاق والے کو اچھے اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور قائم اللیل کا درجہ مل جاتا ہے (ابو داؤد : السنن ، 141:5 ، حدیث 4798 ) آپؐ کے نزدیک حسن خلق سے مراد چہرے کی بشاشت ، بھلائی کا پھیلانا اور لوگوں سے تکلیف دہ امور کا دور کرنا ہے (الترمذی ، 363:4 ، حدیث 20005 ) ۔
صرف یہی نہیں بلکہ آپؐ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرے میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے بھی وہی پسند نہ کرنے لگو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو ‘‘ (مسلم ، 67:1 ، حدیث 45 ، احمد بن حنبل : مسند ، 272:3 ) ۔ ایک موقع پر فرمایا : ایک دوسرے سے نہ تو رو گردانی اختیار کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ لگاؤ اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ ‘‘ (مسلم 1985:4 ، حدیث 2563 ، البخاری 128:4 ، کتاب الادب) ۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی آپؐ کے درِ دولت سے پوری طرح مستفید ہوتے رہے۔

بروز جمعہ انتقال اور عذاب قبر
سوال : میرے والد کا انتقال شب جمعہ ہوا اور ان کی نماز جنازہ جمعہ میں ادا کی گئی ۔ کئی پرسہ دینے والوں نے مجھے تسلی دی کہ جمعہ کے دن جن کا انتقال ہوتا ہے ان کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ کیا حساب و کتاب سے پہلے قبر میں عذاب دیا جانا ثابت ہے ؟ میری دعائیں اور استغفار سے میرے مرحوم والد کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ ان سوالوں کا جواب جلد سے جلد دیں تو مجھ کو اطمینان ہوگا ؟
محمد عمران، آصف نگر
جواب : ارشاد الٰہی ہے: ’’ النار یعرضون علیھا غدواً و عشیاً و یوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب ‘‘ (المومن 46/40 ) یعنی ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جائے گا اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔ اس آیت پاک میں قیامت سے قبل صبح و شام عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے ۔ اس سے فقہاء کرام نے عذاب قبر حق ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام اپنے لئے اور مرحوم والدین اور عام مسلمانوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے۔ ’’ رب اغفرلی ولو الدی ولمن دخل بیتی مؤمناً و للمؤمنین والمؤمنات‘‘ (نوح 28/71 ) تفسیر روح البیان میں سورہ الحشر 10/59 کے ضمن میں ہے ۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ درندے ان کی چیخ و پکار سنتے ہیں۔ (دیکھئے : الترغیب والترھیب ‘‘ ج : 2 ، ص : 361 )
ایک یہودن بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور عذاب قبر کا ذکر کی اور کہنے لگی ’’ اعاذک اللہ من عذاب القبر‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے بچائے رکھے ۔ جب وہ خاتون چلے گئیں تو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب قبر سے تعلق استفسار کیا تو آپ نے فرمایا ہاں ’’ عذاب القبر حق ‘‘ قبر کا عذاب حق ہے ۔ (صحیح بخاری)۔
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ جہاں جہنم کے عذاب ، دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے ہیں آپ قبر کے عذاب سے بھی پناہ طلب کرتے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے، اے اللہ ! میں عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن نسائی ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی، ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ روتے نہیں اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے جس نے اس سے نجات پائی ، اس کے لئے آئندہ بھی آسانی ہوگی اور جس نے اس سے نجات نہ پائی اس کیلئے آئندہ زیادہ سختی ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے قبر سے بڑھ کر کوئی ہولناک منظر نہیں دیکھا۔
متذکرہ بالا آیت قرآنی ، احادیث شریفہ ، آثار صحابہ سے ثابت ہے کہ عذاب قبر حق ہے اور اس کا تصور سابقہ تمام ادیان سماویہ میں رہا ہے اور یہ آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ انسان جو عمل دنیا میں کرے گا تو قبر میں اس کے آثار و نتائج حساب و کتاب سے پیشتر ظاہر ہوں گے ۔ مزید برآں احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا شب جمعہ انتقال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔ جیسا کہ الترغیب و ا لترھیب ج : 4 ، ص : 373 میں ہے ’’ عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال مامن مسلم یموت یوم الجمعۃ او لیلۃ الجمعۃ الا و قاہ اللہ من فتنۃ القبر ‘‘۔
ملا علی قاریؒ کے مطابق جمعہ یا شب جمعہ انتقال کرنے والے کو مطلقاً قبر میں نہ سوالات ہوں گے اور نہ عذاب ہوگا ۔ جیسا کہ مرقات المفاتیح جلد 3 صفحہ 242 باب الجمعہ میں ہے ۔ ای عذابہ و سوالہ وھو یحتمل الا طلاق و ا لتقید والاول ھو الاولی بالنسبۃ الی فضل المولی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد تدفین ، میت کے لئے دعاء مغفرت کرنے کا حکم فرمایا ’’ استغفرو الاخیکم و اسالو الہ التثبت فانہ الان یسئل ‘‘ (سنن ابی داؤد) تم اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو اور ثبات قدمی کی دعاء کرو کیونکہ اب اس سے سوال کئے جارہے ہیں ۔ یعنی قرآنی آیات میں مرحوم مومنین خصوصاً والدین اور اساتذہ کرام کے لئے دعاء رحمت و مغفرت کرنے کے جواز و استحباب پر پر دلیل موجود ہے۔

جماعت تاخیر سے ٹھہرانا
سوال : نماز کا وقت مقرر ہو مگر امام جماعت کا اہتمام عموماً دیری سے کرے، صرف ذاتی وجوہات کی بناء پر تو کیا ایسی نماز میں قباحت نہیں آئے گی اور امام و موذن فرض نماز سے پہلے کی سنتوں کا اہتمام نہ کرے چاہے وہ سنت موکدہ ہی ہو تو کیا نماز فرض ایسے امام کے پیچھے پڑھنی جائز ہیں ؟
وسیم قادری، مصری گنج
جواب : وقت مقررہ پر جماعت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ امام صاحب کو بھی اس جانب توجہ کرنا چاہئے ۔ تاہم کسی وجہ سے جماعت تاخیر سے کھڑی ہو تو تاخیر کی بناء جماعت پر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا۔ اس طرح امام بغیر سنت ادا کئے نماز پڑھا دے تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن امام صاحب کا سنتوں کو بلا وجہ ترک کرنا اور اس کو عادت بنالینا سخت معیوب ہے ۔ امام ، قوم کا مقتدا و پیشوا ہے ۔ اس کو بدرجہ اولی سنت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ وہ خود اس میںکوتاہی کرے تو قوم کے لئے کیا نمونہ ہوگا ۔