سوال : مسجد میں روشنی و ہوا کیلئے کھڑکیاں نصب کی جائیں تو شرعاً کیا حکم ہے ؟
محمد نعمان، سرورنگر
جواب : فقہاء کرام نے شغل صلاۃ و مخل خشوع و خضوع امور (جیسے طعام کی موجودگی میں جس کی طرف میلان ہو حوائج ضروریہ و خروج ریح ، فراغت کی شدید ضرورت کے باوجود نماز کی ادائیگی) کو مکروہ قرار دیا ہے جیسا کہ نورالایضاح ص : 88 میں ہے ۔ ویکرہ للمصلی… و مدافعالاحد الاخبثین اوالریح … و بحضرۃ طعام یمیل الیہ وما یشغل البال و یخل بالخشوع ۔ مساجد کی تزئین اور اس میں روشندان کی تنصیب کو بوقت نماز اشتغال قلب کی علت کے سبب فقہا کرام نے مکروہ قرار دیا تھا ۔ بعد ازاں مکانات کی تزئین اور اس میں روشندانوں کی تنصیب کی جانے لگی اور مساجد غیر مزین رکھے جانے لگے تو علماء نے شعائر اللہ کی تعظیم و حرمت کے سبب مساجد کی تزئین کو مستحسن و مباح خیال کیا ہے ۔ موجودہ طرز تعمیر میں چونکہ ہوا و روشنی کو اہمیت دی جانے لگی اور لوگ چونکہ اس کے عادی ہوچکے ہیں مصلیوں کے بہ خشوع و خضوع ادائی صلاۃ کے جذبہ کے ساتھ روشندان و کھڑکیاں نصب کی جائیں تو اب یہ عادۃ خشوع و خضوع میں مخل نہیں رہے۔ بریں بناء روشنی و ہوا کے لئے مساجد میں کھڑکیوں کی تنصیب چاہے وہ کسی سمت ہوں منع نہیں بشرطیکہ متصل غیر کی ملک نہ ہو یا مسجد کی ملک میں کھڑکی کھل رہی ہو جیسے مسجد کی تعمیر اطراف سے زمین چھوڑ کر مسجد کی ملک میں کھڑکیاں رکھی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
دوبارہ نکاح
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید بغرض تعلیم وملازمت امریکہ میں مقیم ہے ۔ اسکی شادی بکر کی لڑکی سے طے پائی ہے ۔ عاقدین ہندوستانی شہری ہیں اور ہندوستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں مگر دونوں مختلف شہر والے ہیں ۔
بعض ناگزیر وجوہات کی بناء زید ہندوستان آکر شادی کرنے سے قاصر ہے اسلئے اس نے ہندوستان میں مقیم اپنے ایک عزیز کو وکالت نامہ نکاح دے کر نکاح کا خواہشمند ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی محفل نکاح کیلئے لڑکے کے وکیل کے علاوہ بغرض ایجاب و قبول عاقد سے ٹیلیفون پر ربط پیدا کرنا ضروری ہے ؟ اور کیا وکیل بناتے وقت گواہ ضروری نہیں؟ براہ کرم یہ بھی رہبری کیجئے کہ کیا اس طرح نکاح منعقد ہوجانے کے بعد عروس و عروسہ کے متعلقین کی خواہش پر دوسرے شہر میں اور ایک مرتبہ مذکورہ عاقد و عاقدہ کی وداعی سے قبل نئے قاضی سے دو گواہوں کے روبرو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ؟
جمیل الرحمن، بوکل کنٹہ
جواب : مرد کا اصالۃً یعنی بذات خود موجود رہ کر جس طرح نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح وکالۃً یعنی عاقد کی اپنی عدم موجودگی میں کسی کو وکیل بنا کر نکاح کرنا بھی جائز ہے ۔ صورت مسؤلہ میں زید عاقد نے کسی متعین لڑکی سے نکاح کا اپنے عزیز کو وکیل بنایا ہے تو وہ مہر کی رقم بھی متعین کردے اس طرح وکالتہً نکاح جائز ہے ۔ واذاوکل رجلا ان یزوج لہ امراہ بعینھا ببدل سماہ ، فتزوجھا الوکیل لنفسہ بذلک البدل جاز النکاح للوکیل) ۔ نکاح کیلئے وکیل بناتے ہوئے گواہوں کی ضرورت نہیں البتہ مذکورہ متعینہ لڑکی سے مخاطبت کے وقت گواہوں کا وجود ضروری ہے ۔ ویصح التوکیل بالنکاح وان لم یحضرہ الشھود و انما یکون الشھود شرطافی حال مخاطبۃ الوکیل المرأۃ (تاتار خانیہ ج 3ص 69)وکالتہً جس محفل میں نکاح ہوگا وکیل اور عاقدہ اور گواہوں کی موجودگی میں عاقدہ کا اور وکیل کا اپنے مؤکل کی طرف ایجاب و قبول کافی ہے ۔ ٹیلیفون پر بغرض ایجاب و قبول عاقد سے ربط پیدا کرنا ضروری نہیں ۔ مذکورہ طریقہ وکالت پر نکاح کے انعقاد کے بعد دوبارہ نکاح کا انعقاد بے محل ہے کیونکہ اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ۔ اگر دوبارہ نکاح کیا جائے تو ایک لغو عمل ہے ۔ البتہ وداعی وغیرہ کے عنوان سے رشتہ داروں اور دوست احباب کو مدعو کرنا درست ہے ۔
ہمت افزائی کیلئے کسی لڑکی کو تحفہ دینا
سوال : میں B.A. کی طالبہ ہوں اور میرے ایک اچھے دوست ہیں جو کہ میری اعلیٰ تعلیم اور میرے روشن مستقبل کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں اور مجھے اچھی کتابیں، یا Pen وغیرہ دیکر میری ہمت افزائی کرنا چاہتے ہیں لیکن میرے دل میں یہ خلش رہتی ہے کہ نہ لوں۔ کیا میرے انکار کرنے سے تحفہ دینے والوں کے دل کو تکلیف ہوگی یا میرا انکار کرنا جائز ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں تو نوازش ہوگی ؟
محمد اویس، بنجارہ ہلز
جواب : شریعت میں تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تھادوا تحابوا ۔ تحفہ دیا کرو اس سے باہم محبت پیدا ہوتی ہے ۔ تحفہ دینے میں رشتہ دار ، دوست احباب اجنبی وغیرہ کسی قسم کی کوئی قید نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اگر کوئی تحفہ پیش کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہتر تحفہ عنایت فرماتے۔ کوئی گاؤں سے تحفہ لاتا تو آپ اس کو شہد کا تحفہ مرحمت فرماتے۔ تاہم ایک اجنبی مرد کا ایک بالغ لڑکی کو تحفہ دینا محل غور ہے۔ اجنبی مرد سے بلا ضرورت بات کرنے یا کوئی معاملہ کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر وہ حدود شریعت میں تحفہ دے اور وہ لے تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں مگر دل کا حال اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے اور جس پر گزر رہی ہے وہ اپنے دل کی کیفیت سے واقف ہوتا ہے ۔ اس لئے آپ اپنے دل سے فتوی لیں۔ اگر تحفہ کے قبول کرنیمیں کوئی جھکاؤ یا میلان آپ پاتی ہیں تو آپ سلیقہ سے اس کو واپس کردیں ۔ نیز اس طرح کے اعمال بظاہر اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس کے درپردہ کئی ایک مفاسد اور خرابیاں ہوتی ہیں۔ اس سے دوریاں کم ہوتی ہیں اور کئی ایک برائیاں جنم لیتی ہیں۔ آپ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں اور اجنبی شخص کی ہمت افزائی کی ضرورت نہیں۔
مکان کی تعمیر کیلئے سودی قرض لینا
سوال : مکان کی جدید تعمیر کے لئے بینک سے سود پر رقم حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں اور چٹھیوں کا کاروبار اسلام میں جائز ہے یا نہیں ؟ برائے کرم جواب سے نوازیں عنایت ہوگی ؟
محمد الیاس قاضی، وٹے پلی
جواب : بنک سے قرص لیکر زائد رقم ادا کرنا شرعاً سود ہے جو کہ حرام ہے ۔ لہذا مکان کی جدید تعمیر کے لئے بنک سے سودی قرضہ حاصل کرنا شرعاً درست نہیں۔ ہراج اور سودی چٹھیوں کا کاروبار شرعاً درست نہیں۔ مقسومی چٹھی جس میں کسی بھی شریک کو زائد رقم دینا نہ پڑے اور اس کی جمع کردہ رقم سے اس کو کم رقم حاصل نہ ہو شرعاً جائز ہے۔ محنت کرنے والے کو اجرت مثل لینے کی اجازت ہے۔ چٹھی کے کاروبار کی نوعیت بیان کی جائے تو اس کا شرعی حکم بتایا جاسکتا ہے ۔
کیا قادیانی مسلمان ہیں ؟
سوال : میرے دوست جو اچھے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ ہیں، مجھ سے قادیانیت کے مسئلہ پر الجھ پڑے، کہنے لگے کہ قادیانیوںکو کافر کہنا سراسر غلط ہے کیونکہ وہ لوگ بھی ہماری طرح پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، حج کو بھی جاتے ہیں، تمام اسلامی اعمال و احکام کو بجا لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ توحید ، رسالت ، آخرت وغیرہ تمام دین کی بنیادی باتوں پرایمان رکھتے ہیں۔ مزید میرے دوست حدیث کا حوالہ دے کر ہنے لگے کہ ’’ اہل قبلہ ‘‘ کی تکفیر سے منع کیا گیا ۔ وہ بتانے لگے کہ ایک مرتبہ جنگ میں کسی صحابیؓ نے ایک شخص کو کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ کیا تم نے اس شخص کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟
محترم مفتی صاحب قبلہ ! میں بذات خود قادیانی فرقہ کو کافر سمجھتا ہوں لیکن میں یہ جاننا بھی چاہتا ہوں کہ میرے دوست کی یہ باتیں کہاں تک صحیح ہیں ؟ اور کیا قادیانی فرقہ پر یہ باتیں فٹ ہوتی ہیں ؟ امید کہ آپ میری رہنمائی فرمائیں گے ؟
ولی الرحمن، خیریت آباد
جواب : ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا منکر خارج عن الاسلام ہیں۔ قادیانی ، مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی اسلام سے خارج ہے اس کو حق جاننے والے بھی اسلام سے خارج ہیں۔ اگرچہ وہ قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں ، یہودی اور عیسائی اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی کو مانتے ہیں اور قادیانی خود ساختہ مدعی نبوت کو مانتے ہیں۔
بیت الخلاء کی نشست کا رخ
سوال : نئے مکان کی تعمیر میں جگہ کم ہونے سے بیت الخلاء کی نشست اس طرح بنانا پڑ رہا ہے کہ بوقت قضاء حاجت قبلہ کو پشت ہورہی ہے۔ اس طرح مجبوراً بیت الخلاء بنایا جائے تو شرعاً کیا حکم ہے کیونکہ جگہ کی قلت کے باعث اس کے علاوہ کوئی صورت ہی نہیں ہے ؟
عبدالشکور، کالا پتھر
جواب : بوقت قضاء حاجت سمت قبلہ استقبال (رخ کرنا) استدبار (پشت کرنا) دونوں مکروہ تحریمی ہیں۔ اضطراری صورت یعنی شدید مجبوری کی حالت ہو تو استقبال یا استدبار مکروہ نہیں۔ لیکن اضطراری صورت ہو تو استدبار کو اختیار کرے کیونکہ استدبار کے مقابلہ میں استقبال زیادہ قبیح (سخت ناپسندیدہ و برا) ہے۔ و یکرہ تحریما استقبال القبلۃ و استدبارھا ولو فی البنیان ( نورالایضاح) مذکورہ عبارت کے حاشیہ ص : 3 میں ہے … فان الاستقبال والا ستدبار لایکرھان للضرورۃ و اذا اضطرالی احدھما ینبغی أن یختارالاستدبار لان الاستقبال اقبح فترکہ ادل علی التعظیم ۔ افادہ القسطلانی۔
مذکورہ در صورت میں حتی الامکان و حتی المقدور اس طرح تعمیر کی کوشش و تدبیر کی جائے کہ رخ یا پشت قبلہ کی سمت نہ ہو۔ بصورت مجبوری بجائے رخ کرنے کے پشت کر کے بیت الخلاء کی نشست بٹھائی جاسکتی ہے۔
کیسٹ کے ذریعہ آیت سجدہ کی تلاوت
سوال: عرض یہ ہے کہ روزانہ کسی نہ کسی جگہ قرآن مجید کی تلاوت بذریعہ کیسٹ لگائی جاتی ہے، اس میں سجدہ تلاوت بھی آتا ہے ایسی صورت میں کیا سجدہ تلاوت واجب ہوگا ، بازاروں میں جس راستہ سے گزرنا پڑتا ہے تو آیت سجدہ سننے میں آجاتے ہیں۔ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
عظیم بیگ،فرسٹ لانسر
جواب : صدائے باز گشت گراموفون ، ٹیوی ریڈیو یا کیسٹ جس میں براہ راست آیت سجدہ کی تلاوت نشر نہ ہو بلکہ ریکارڈ ہو پہلے سے محفوظ کر کے بعد میں نشر کیا جارہا ہو توا یسی صورت میں مذکورہ بالا آلات سے آیت سجدہ سننے پر سجدۂ تلاوت لازم نہیں آتا۔ خلاصہ کے باب السجدۃ میں ہے ۔ ولا یجب اذا سمعھا من طیر ھو المختار۔ اسی جگہ میں ہے: وان سمعھا من الصدی لا یجب علیہ۔
بالغ لڑکی کے نام جمع کی گئی رقم پر زکوۃ
سوال : بالغ لڑکی کے حصہ میں آئی ہوئی رقم کو اس کے اخراجات شادی کے خیال سے بینک میں دو تین سال کے لئے فکسڈ ڈپازٹ کرایا گیا ہے ‘ لڑکی کے دیگر کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہے۔ بینک میں جمع شدہ رقم کو ایک سال ہونے کے بعد اس پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا کیا طریقہ ہوگا‘ مطلع فرمائیں ‘ عین نوازش ہوگی ؟
نام مخفی
جواب : بالغ لڑکی کے نام پر جمع کردہ رقم نصاب زکوٰۃ کو پہنچتی ہے تو اس پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کرنا بالغ لڑکی پر لازم ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو۔ جمع کردہ رقم سے زکوٰۃ کی تعداد میں رقم نکال کر زکوٰۃ ادا کرے ۔ اگر کسی وجہ سے ہر سال ادا نہ کرسکے تو دو تین سال کی زکوٰۃ ایک ساتھ ادا کی جائے۔ والد اپنی رقم سے یا والدہ اپنے مال سے بالغ لڑکی کی اجازت سے اس کی طرف سے زکوۃ ادا کرسکتے ہیں۔