مسجد اور گھر میں باجماعت نماز کا ثواب

سوال : میں آسٹریلیامیں مقیم ہوں، میرے ساتھ چند مسلم نوجوان ہیں۔ ہمارے محلہ میں مسجد نہیں ہے ، معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر کسی آبادی سے مسجد کچھ کم یا زائد تین کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہو کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا نماز پنجگانہ میں شریک ہونا دشوار ہو اور ایسی صورت میں مقامی مسلمان کسی ایک مکان کو مرکز بنائیں اور وہاں جمع ہوکر نماز پنجگانہ کا باجماعت اہتمام کریں تو جماعت کا ثواب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت حاصل ہوگی یا نہیں ؟
محمد واحد حسن، مرادنگر
جواب : کسی مسلم آبادی سے مسجد دور ہونیکی وجہ اگر وہاں کے مسلمان کسی مکان کو عارضی طور پر باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے مختص کرلیں تو بفحوائے حدیث پاک ’’ صلوٰۃ الرجل فی جماعۃ تضعف علی صلوٰتہ فی بیتہ و فی سوقہ خمسا و عشرین ضعفا … صلوٰۃ الجماعۃ افضل من صلوٰۃ الف بسبع و عشرین (رواہ البخاری) پچیس گنا یا ستائیس گنا مضاعف اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ تاہم مسجد کی فضیلت جو احادیث میں وارد ہے وہ اس عارضی مکان کو نہ فضیلت حاصل رہے گی نہ ہی آداب مسجد اس میں شرعاً ملحوظ رہیں گے چونکہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو بنیادی اہمیت و مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرماکر سب سے پہلے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر فرمائی۔ حدیث پاک میں وارد ہے کہ قیامت کی ہولناک گھڑی میں جہاں جہاں لوگ گرمی کی شدت سے اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں شرابور ہوں گے اور جہاں حصول راحت کیلئے کوئی سایہ نہ ہوگا ، حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے ، انہیں میں سے ایک وہ بھی ہیں جن کے قلوب مسجد میں لگے رہیں گے۔ قلبہ معلق فی المساجد (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح) اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جو صبح و شام مساجد کا رخ کرتے ہیں ، حق سبحانہ تعالیٰ ان کے لئے جنت میں مہمانی کا سامان مہیا فرماتا ہے ۔ من غدا الی المسجد اوراح اعداللہ لہ نزلہ من الجنۃ کلما غدا اوراح (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح)۔ ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تم جنت کے باغوں سے گزرو تو اپنے آپ کو خوب سیراب کرلو ۔ عرض کیا گیا جنت کے باغ کونسے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ’’مساجد‘‘ ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رصی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا مرر تم بریاض الجنۃ فارتعوا ۔ قیل یا رسول اللہ و ما ریاض الجناۃ قال المساجد ( مشکوٰۃ المصابیح ص : 70 بحوالہ ابو داؤد) ۔ نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ روئے زمیں پر سب سے بہترین اور خیر کے حامل مساجد ہیں ۔ ’’ خیر البقاع مساجد‘‘ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص : 71 ۔ ( ابن حبان ) مذکورہ آبادی کے مسلمانوں کو چاہئے کہ مسجد کی تعمیر کا اہتمام کریں تاکہ وہاں کے مسلمان مسجد کے مذکورہ بالا برکات و ثمرات سے بہرہ مند ہوسکیں۔
چاند کا مسئلہ
سوال : میں چاند کے متعلق پڑھا تھاکہ پہلی تاریخ کا چاند مکہ مکرمہ میں ہی دکھائی دے گا ، اس کے بعد دوسرے ممالک میں رویت ہوگی، اس اعتبار سے سعودی عرب کے بعد جن ملکوں میں سورج غروب ہوگا ان ممالک میں چاند نظر آئے گا اور ایسا ہی ہوتا تھا اور تمام عرب ممالک سعودی عرب کے اعلان کے ساتھ رمضان کے روزے شروع کرتے تھے ۔ ام القری کیلنڈر میں ایک تاریخ بتائی جارہی ہے اور اخبارات میں ایک الگ تاریخ۔
برائے مہربانی یہ بتلائے کہ اخبار کی تاریخ کو مانیں یا امرالقری کی تاریخ کو ؟ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر ختم کرو۔ ہم ہندوستانی، پاکستانی ، بنگلہ دیشی ، پہلی محرم ، دس محرم ، شب معراج ، شب براء ت کو روزہ رکھتے ہیں۔ اس لئے تاریخ کا تعین کس حساب سے کریں۔
محمد محمود حسن ، جدہ
جواب : چاند کا مسئلہ شریعت اسلامی کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے۔ اس کے متعلق ائمہ و فقہاء کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔ سب سے آسان اور عام فہم اور قابل اعتمار بات یہ ہے کہ جس ملک و علاقہ میں آدمی مقیم ہوں اس ملک و علاقہ کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق چاند کی تاریخ کا تعین ہوگا۔ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام : الصوم یوم تصومون والفطر یوم تفطرون والاضحی یوم تضحون (ترمذی : باب ماجاء الصوم یوم تصومون)
ترجمہ : روزہ اس دن ہے جس دن تم روزہ رہو اور روزہ ترک کرنا اس دن ہے ، جس دن تم روزہ ترک کرو اور قربانی اس دن ہے جس دن تم قربانی دو۔ امام ترمذی نے متذکرہ حدیث نقل کرنے کے بعد بعض اہل علم کا قول نقل فرمایا : معنی ھذا الحدیث الصوم والفطر مع الجامۃ و عظیم الناس۔ یعنی روزہ افطار کا حکم مسلمانوں کی اجتماعیت پر منحصر ہوگا۔
پس سعودی عرب میں حکومت کی جانب سے باضابطہ رویت ہلال کمیٹی مقرر ہے۔ اس لئے اس کے اعلان کے مطابق آپ عمل کریں۔ ام القری کیلنڈر کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ نیز آپ سعودی عرب میں مقیم ہیں تو عمان اور متحدہ عرب امارات کے اعلان رویت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور علحدہ دن اس کے اعلان پر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جس ملک و علاقہ میں مقیم ہے وہاں کی رویت ہلال کے مطابق ہی وہ عمل کرے گا اور دیگر تکلفات میں الجھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال : ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
نام ندارد
جواب : ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔

خلع کیلئے شوہر کی رضامندی
سوال : کیا مسلم عورت کو خلع لینے کیلئے شوہر کی مرضی اور رضامندی کی ضرورت ہے ؟ تفصیل بیان فرمائیں تو مہربانی۔
محمد یسین، نامپلی
جواب : خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ۔ واضح رہے کہ خلع بھی طلاق ہی ہے ، فرق یہ ہے کہ طلاق شوہر کی جانب سے دی جاتی ہے اور خلع معاوضہ کے بدل طلاق کا نام ہے۔شریعت کا قاعدہ کلیہ ہے ۔ ’’الغنم بالغرم، جو نفع کا مالک ہوگا وہ نفقصان کا بھی ذمہ دار ہوگا ۔ جس کی ذمہ داری اور فرائض زیادہ ہوں گے ۔ اس کے حقوق و مراعات بھی زیادہ ہوں گے ۔ عرب کا مقولہ ہے ۔ تولی بارد الشئی من تولی قارھا جو سختی کا ذمہ دار ہوگا وہی نرمی کا بھی حقدار ہوگا ۔ نکاح اگرچہ عاقد و عاقدہ کی باہمی رضامندی و ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے لیکن شوہر مہر کے ذریعہ مخصوص منافع کا مالک ہوتا ہے اور بیوی کے خورد و نوش ، رہائش و دیگر بنیادی ضروریات و اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ انما الطلاق لمن اخذ بالساق (ابن ماجۃ) عورت پر جس کا حق ہوگا وہی طلاق دینے کا اہل ہوگا۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیں کہ یا رسول اللہ مجھے ثابت بن قیس کے دین اور اخلاق پر اعتراض نہیں ہے لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم ان کے باغ کو واپس کردوگی (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا( انہوں نے عرض کیا ہاں : تو آپ نے حضرت ثابت بن قیس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا تو آپ نے تعمیل کی اور اہلیہ سے جدا ہوگئے ۔
اخرجھا البخاری عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ان امرأۃ ثابت بن قیس أتت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ ثابت بن قیس لا أعتب علیہ فی خلق ولادین ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اقبل الحدیفۃ و طلقھا تطلقۃ و فی روایتہ لہ انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال : افتردین علیہ حدیقتہ ؟ فقالت نعم ! فردت علیہ و امرہ ففارقھا۔
مندرجہ بالا حدیث شریف سے واضح ہے کہ عورت بذات خود رشتہ نکاح کو زائل و ختم کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر گزارش کی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معاوضہ کے بدل شوہر کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ۔ اسی کو خلع کہتے ہیں یعنی کسی معاوضہ کے بدل بیوی کی خواہش خلع کو شوہر قبول کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوکر دونوں میں تفریق و علحدگی ہوجاتی ہے اور بیوی پر مقررہ معاوضہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے ۔ اور اگر بیوی شوہر سے خلع کی خواہش کرے اور شوہر نہ طلاق دیتا ہو اور نہ خلع قبول کرتا ہو، اور بیوی کو لٹکائے رکھتا ہو تو یہ حقیقت میں ظلم ہے ۔ بیوی کو اختیار ہے کہ وہ ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔
واضح رہے کہ طلاق و خلع کے احکام قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ شوہر کو طلاق دینے اور خلع قبول کرنے کا اختیار شریعت اسلامی نے دیا ہے ، یہ کوئی اجتھادی اور قیاسی مسئلہ نہیں ہے ۔ اس پر قرون اولی سے تاحال امت کا عمل درآمد ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہ حقیقت ہے کہ آج بعض مسلم لڑکیاں شوہروں کے ظلم و ستم کے شکار ہیں۔ نہ طلاق دیتے ہیں ، نہ خلع قبول کرتے ہیں اور نہ ہی نان و نفقہ کا انتظام کرتے ہیں اور قانونی چارہ جوئی بھی آسان نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے شریعت کے احکام بدل نہیں سکتے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگا ۔
بعض گوشوں سے یہ کوششیں جاری ہیں کہ خواتین کو بذات خود خلع کے ذریعہ رشتہ نکاح کو ختم کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ طلاق و خلع کے مسائل ان مسائل میں سے نہیں ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ احوال و ظروف کے بدلنے اور ممالک کے اختلاف اور عرف و رواج کے بدلنے سے بدلتے ہوں۔ آج اس مسئلہ کو فقہاء کی تنگ نظری قرار دی جانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیا نامعقول و غیر واجبی وجوہات کی بناء واقع ہونے والے طلاق کے واقعات کی بناء پر طلاق کے واقع ہونے کیلئے بیوی کی رضامندی کو مشروط کیا جکاسکتا ہے ؟ قطعاً نہیں۔
بہر کیف خلع کیلئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے ، اگر وہ ناحق لڑکی کو ستا رہا ہے تو وہ ظالم ہے اور ظا لم کو برداشت نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کے خلاف طاقت و قوت اور قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے ۔ بسا اوقات لوگ شوہروں کی ظلم و زیادتی سے تنگ آکر ان کو سزا دینے اور دوسروں کے لئے درس عبرت بنانے کیلئے مختلف کیسس کرتے ہیں اور لاکھوں روپیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے کہ ظالم سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ، ظالم کو سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں دے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ وان یتفرقا یغن اللہ کلامن سعتہ و کان اللہ واسعاً حکیما ۔ اگر وہ دونوں (میاں بیوی) جدا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دونوں میں سے ہر ایک کو غنی و مالدار اور ایک دوسرے سے بے بنیاز کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت و حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء 130/4 )