مسجد اقصیٰ اور اسرائیلی جارحیت

کرکے گٹھ جوڑ ظلمت کی افواج سے
وقت پھر روشنی کو سزا دے گیا
مسجد اقصیٰ اور اسرائیلی جارحیت
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو نظرانداز کرنے کے نتائج دن بہ دن خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ بیت المقدس سے فلسطینی باشندوں کو دور رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جارہی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے خلاف اسرائیلی قبضہ یا اسرائیلی نوآباد کاروں کی جانب سے کی جانے والی جارحیت کی تمام سطحوں سے مقابلہ کی ضرورت ہے مگر عالم عرب اور اقوام متحدہ کی نرم پالیسیوں سے اسرائیل کے جارحانہ منصوبوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ امریکہ اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتیں ہمیشہ فلسطینیوں پر ہونے والی اسرائیلی جارحیت اور فوجی کارروائیوں پر چشم پوشی اختیار کرتی رہی ہیں۔ وہ صرف مذمتی بیان دے کر اپنی عالمی ذمہ داری کو پورا کرتی ہیں اس مرتبہ بھی مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور مسجد میں گھس کر ہنگامہ آرائی کرنے پر صرف مذمتی بیان دیا گیا۔ مسجد اقصیٰ اور باہر کے احاطہ میں تیسرے دن بھی تصادم جاری رہا۔ اسرائیل کی جارحیت اور اشتعال انگیزی کا کوئی جواب تلاش نہیں کیا جاتا۔ صرف وارننگ دینے اور مذمت کا بیان سپرد صحافت کرنے کے سواء کوئی بھی عالمی طاقت اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت نہیں کرتی ہے جس کے نتیجہ میں آج تباہ کن حالات سے دوچار فلسطینیوں کو مزید تنگ کیا جارہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں صرف اردن ہی ایسا عرب ملک ہے جس کے اسرائیل سے روابط ہیں مگر اس نے بھی اب اسرائیلی جارحیت اور اشتعال انگیزی کا نوٹ لیا ہے مگر اس کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات توڑنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ حال ہی میں اردن نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو طلب کیا تھا اور بعدازاں دوبارہ تعینات کیا گیا۔ اب بیت المقدس میں فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس کے حملے جارحیت کا نیا ثبوت ہیں۔ اسرائیل نے اپنے سال نو کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں ہنگامہ کرنے کی کوشش کی لیکن فلسطینی عوام نے اسرائیلی فوج کو مسجد کی بے حرمتی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مسلمانوں کے اس قبلہ اول کی حفاظت ہر ایک مسلم فرد کی ذمہ داری مانی جاتی ہے اور اس ذمہ داری کو فلسطینی عوام ہی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں تشدد اور فائرنگ کرنا اسرائیلی فوج کی پرانی عادت ہے۔ اگر حکومت اسرائیل کو اس کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں انتباہ نہیں دیا گیا اور حکومت کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی نہیں ہوتی تو پھر فلسطینی عوام کو قبلہ اول کی حفاظت کے لئے اسرائیلی فوج سے یوں ہی صف آراء ہونا پڑے گا اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہوں گی اور بیت المقدس کی بے حرمتی بھی ہوگی۔ اس لئے اسرائیلی فوج کو اس علاقہ سے ہٹا دینا اور نوآبادیاتی پراجکٹ کو فوری برخاست کرونا عالمی طاقتوں خاص کر اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔ اسرائیل کی جارحیت کے سامنے عرب ملکوں کے سربراہوں کی صرف بیان بازی چلتی ہے جبکہ اسرائیل اپنی حرکتوں سے عالم عرب کی سلامتی کو درہم برہم کرتا جارہا ہے۔ مقدس مقامات پر فوج کے حملے ہرگز برداشت نہیں کئے جاتے۔ اتوار اور پیر کے دن بھی اسرائیل کی فوج نے درجنوں فلسطینیوں کو زخمی کردیا۔ اسرائیلی فوج نے قبلہ اول کی چھت پر چڑھ کر آنسو گیاس شیل برسائے اور جارحیت کی انتہاء کرتے ہوئے فلسطینی عبادت گذاروں کو وہاں سے چلے جانے پر مجبور کردیا۔ اسی طرح ستمبر 2000ء میں اس وقت کے متنازعہ اسرائیلی سیاستدان ایئریئل شیرون نے مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انتفاضہ کی دوسری لہر اٹھی تھی اور اس میں ہزاروں فلسطینی عوام کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ ایئریئل شیرون نے بعدازاں اسرائیلی وزیراعظم کی حیثیت سے فلسطینیوں پر جو زیادتیاں کی ہیں، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اس کے باوجود اقوام متحدہ اور امریکہ نے اسرائیل کی درپردہ سرپرستی کرکے صیہونی طاقت کے حوصلے بڑھائے ہیں، مگر فلسطینی عوام نے نہتے ہوکر بھی اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔ بیت المقدس مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لئے فلسطینی عوام آج بھی اسرائیلی فوج سے نبردآزما ہیں۔ ان کی ہر ممکنہ مدد کرنا اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے عرب ملکوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ دونوں کو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یروشلم میں اسرائیل کے ساتھ 1994ء سے امن معاہدہ کے تحت ہی امن برقرار رکھتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی کو بچانے کی ضرورت ہے۔ قبلہ اول کی بے حرمتی کیلئے اسرائیلی فوج کو ہرگز اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یہودی فوج کی نمازیوں پر فائرنگ اور اس کے حملوں کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔