مرے جنوں کا نتیجہ ضر ور نکلے گا

محمد مصطفیٰ علی سروری
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی 12 ربیع الاول کی مناسبت سے سارے شہر حیدرآباد اور ملک بھر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مختلف پروگراموں کا اہتمام کیا ۔ خاص طور پر جلسے ، نعتیہ پروگرام اور جلوس نکالے گئے ۔ شہر کے ہر بڑے چوراہے پر لاؤڈ اسپیکر پر نعت رسول لگانے اور سنانے کا خاص طور پر انتظام کیا گیا ۔ ہر تھوڑی دور پر خاص پکوان کی دیگیں چڑھائی گئی اور بلا کسی تفریق عام و خواص کو کھانا کھلانے کیلئے دسترحوان بھی بچھائے گئے ۔ ان سارے پروگراموں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد شریک رہی لیکن وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں اور وہ مسلمان جو ان تقاریب کا حصہ نہیں تھے ، ان کیلئے یہ بات بڑی تعجب خیز تھی کہ مسلم نوجوانوں کی خاصی تعداد سڑکوں پر اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ گاڑیوں پر سبز رنگ کے پرچم لگائے۔ ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے ، صرف دو پہیوں والی گاڑیوں پر ہی نہیں بلکہ چار پہیوں کی گاڑیوں پر بھی بڑے بڑے اسلامی پرچم لہرا رہے تھے ۔ یہاں تک کاروں اور جیپوں میں گنجائش سے ز یادہ شمع محمدی کے پر وانے سڑکوں پر نظر آرہے تھے۔
یہ کسی پروگرام میں شریک تھے یا نہیں اس کا تو علم نہیں لیکن یہ ضرور تھا کہ انہیں اپنی منزل کا کوئی پتہ نہیں تھا ۔ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے ، وہ بھی نہیں معلوم ، ہاں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ یہ گاڑیاں جب سڑک پر گزر رہی تھی تو دوسرے لوگ ایک لمحے کیلئے ٹھٹھک کر انہیں دیکھنے پر مجبور ضرور ہورہے تھے۔
ایسے ہی نوجوانوں کا ایک گروپ آصفیہ لائبریری افضل گنج کے روبرو مین سڑک پر کھڑا تھا اور ان لوگوں کی گاڑیاں سڑک پر دوڑ نہیں رہی تھی بلکہ ایک ہی جگہ کھڑی تھی لیکن ان گا ڑیوں کی آواز بڑی تیز آرہی تھی اور ہر تھوڑی دیر بعد ان گا ڑیوں کے سائلنسر سے زوردار پٹاخے پھوٹنے کی آواز نکل رہی تھی ۔ یہ کونسا طریقہ ہے جشن منانے کا سڑکوں پر اس تعلق سے نوجوان نسل کو رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے کیا نوجوان کسی کی بات سننے کیلئے تیار ہیں ، اس سوال کا جواب ایک بزرگ نے ایک واقعہ کے ذریعہ دینے کی کوشش کی ۔
نماز جمعہ کا وقت قریب تھا ، خطبہ جمعہ ختم ہونے کو تھا کہ ایک ماشاء اللہ سے صحت مند نوجوان شہر کی ایک مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔ جلدی جلدی وضو کر کے مسجد کے اندرونی حصہ کا رخ کرتا ہے ، عین اسی وقت جماعت کھڑی ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ نوجوان کو اندرون مسجد منبر کے قریب جگہ نہیں ملتی اور وہ ایمرجنسی میں باہر نکلنے کے لئے مختص راستے میں بچھائی میاٹ پر ہی رکعت باندھنے کیلئے ٹھہر جاتا ہے ۔ بزرگ مصلی حضرات اس سے درخواست کرتے ہیں بابا پیچھے چلے جاؤ بہت جگہ مل جائے گی ، یہ راستہ ہے اس میں نماز پڑھ کر دوسروں کیلئے تکلیف کا سامان پیدا مت کرو لیکن نوجوان بزرگ مصلیوں کی بات سنی ان سنی کر کے بدستور اپنی جگہ ٹھہر کر رکعت باندھنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک ضعیف مصلی اپنی کرسی سے اٹھ کر اس نوجوان مصلی کو اپنی کرسی دیتے ہیں اور سب دیکھتے رہ گئے، ایک صحت مند نوجوان اس ضعیف مصلی کی کرسی پر ہی بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کرنے لگتا ہے اور وہ ضعیف مصلی اس ایمرجنسی راستے پر بچھائی میاٹ پر چلتے ہوئے پیچھے ہجوم میں کہیں چلے گئے اور بقیہ سب مصلیوں نے دیکھا کہ وہ نوجوان جو راستے میں بچھائی گئی میاٹ پر نماز پڑھنے پر مصر تھا جب کرسی ملی تو اس کو ہٹانا بھی مناسب نہیں اور اپنی نماز کرسی پر ہی بیٹھ کر ادا کی۔ ان صاحب کے مطابق اب تو مسجد کے صف اول کے بزرگ مصلیان اس بات سے ڈرنے لگے ہیں کہ اگر کوئی صحت مند نوجوان ان کے بازو نماز پڑھنے آجائے تو اس سے نماز میں لگنے والے دھکوں سے بڑا ڈر لگتا ہے کہ اگر دھکا لگ کر گر گئے تو معلوم نہیں کیا ہوجائے ؟
سڑکوں پر پھرنے والے نو جوانوں کی ایک ٹولی جب عثمان گنج کے قریب پانی پینے کے لئے رکی تو ہم نے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ یابا تم لوگ جلسہ میلاد النبیؐ میں کیوں نہیں چلتے تو ان بچوں نے جواب دیا کہ ارے انکل صبح وہاں جلسے میں بیٹھ کر ہی نکلے وہاں پر تو سب اردو میں تقریر ہورہی اور ہمارے کو تو یہ اردو سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ ہاں نعت وغیرہ پڑھے تو اچھا لگا سن لئے مگر اردو کی اسپیچ سمجھ سے باہر ہے۔
اردو کے ایک سے زائد اخبارات کے صفحات ہم نے چھان لئے ، سینکڑوں میلاد النبیؐ کے پروگرام تھے لیکن ایسے کسی پروگرام کے بارے میں پتہ نہیں لگا کہ وہاں بزبان انگریزی سیرت النبیؐ کا پروگرام ہوگا ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں یہ وہ قیمت ہے جو مسلمان اردو زبان سے دوری اختیار کرتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔ سیرت النبیؐ کے جتنے پروگرام اردو زبان میں ہوتے ہیں اور جتنی تقاریر اردو زبان میں ہوتی ہیں انگریزی یا تلگو زبان میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ا یسی صورتحال میں کیا کیا جائے ؟ اول تو 12 ربیع الاول کی مناسبت سے نوجوان نسل کیلئے انگریزی اور دیگر زبانوں میں پروگرام کا اہتمام کیا جائے ، دوم اپنی نوجوان اور نئی نسل کو اردو زبان سے واقف کروانے کے اقدامات کئے جانے چاہئے ۔ کیا ساری صورتحال مایوس کن ہے، جی نہیں پچھلے آٹھ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی آصفیہ لائبریری افضل گنج پر مرکزی میلاد بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ معروف مفتی مولانا قاسم صدیقی تسخیرصاحب نے 8 برس قبل تنظیم ارشاد المسلمین کے بیانر تلے حیدراباد کی نوجوان نسل کو میلاد النبیؐ منانے کا ایک طریقہ روشناس کردیا تھا ۔ الحمد اللہ اس مرتبہ نواں میلاد بلڈ ڈونیشن کیمپ 12 ربیع الاول کا سٹی سنٹرل لائبریری افصل گنج میں انعقاد عمل میں آیا۔ مولانا مفتی قاسم صدیقی صاحب نے نو برس قبل میلاد النبی کی مناسبت سے بلڈ ڈونیشن کیمپ کے آغاز کے متعلق کہا تھا کہ آج دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی جارہی ہیں اور میڈیا مسلمانوں کو خون کا پیاسہ بتانے کے لئے ہر روز کوئی نہ کوئی خبر جاری کر رہا ہے ، ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ولادت باسعادت کے حوالے سے بہتر دوسرا کوئی موقع نہیں ہوسکتا ہے۔ جب مسلمان نبی رحمتؐ کے پیغام محبت کو عام کرنے کیلئے کام کرسکتے ہیں اور نبیؐ آخری الزماںؐ کے پیغام رحمت کو دنیا تک پہونچانے کیلئے شمع محمدی کے پروانوں کے لئے اپنے خون کا عطیہ ضرورت مند مریضوں کو دینے سے بہتر دوسرا کوئی طریقہ نہیں ہوسکتااور پچھلے نو برسوں کے دوران شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ بیرون شہر اور ریاست بھی بڑے پیمانے پر میلاد بلڈ ڈونیشن کیمپ لگاکر شمع محمدیؐ کے پروانے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان کسی کا ناحق خون نہیں بہاتا ہے بلکہ ضرورت مند کو ا پنے خون کا عطیہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو نبیؐ کا سچا امتی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مولانا مفتی قاسم صدیقی تسخیر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ نوجوان جو 12 ربیع الاول کو بے مقصد سڑکوں پر گھومتے ہیں ان کو کم سے کم خون کے عطیہ کیلئے آمادہ کرتے ہوئے ایک کار خیر کا حصہ بنانا اور یہ بتلانا کہ نبیؐ کا سچا عاشق جو ہوگا وہ ساری انسانیت کی فلاح کیلئے کام کرے گا ، نہ کہ سڑ کوں پر شور مچاکر دوسروں کیلئے تکلیف کا سامان کرے گا ۔ نو برس پہلے مفتی قاسم صدیقی تسخیر صاحب کا بلڈ ڈونیشن کا کیمپ اکلوتا اور واحد تھا اور آج اس نظریہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اور بھی نوجوانوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اسی طرح کے خون کے عطیہ کیمپ منعقد کرنے شروع کئے ہیں۔ اس مرتبہ 12 ربیع الاول کے موقع پر پرانے شہر حیدرآباد کے ایک بزرگ شہری بھی مرکزی میلاد بلڈ ڈونیشن کیمپ پر پہونچ گئے اور اپنے خون کا عطیہ دینے کے لئے معائنہ کروانے لگے ، وہاں موجود طلبی عملے نے ان بزرگ سے ان کی عمر دریافت کی اور پھر بڑی معذرت سے ان کو مطلع کیا کہ جناب عالی ربیع الاول کے موقع پر آپ کی جانب سے اپنے خون کا عطیہ دینے کیلئے کیمپ پر آپ کی آمد باعث مسرت ثابت ہوئی لیکن ہم معذرت خواہ ہیں کہ طبی نقطہ نظر سے ایک 60 سال سے زائد عمر کے شخص سے پھر چاہے وہ مکمل صحت مند کیوں نہ ہوں خون کا عطیہ لینا درست نہیں ۔
ان صاحب سے جب دریافت کیا گیا کہ آپ کو اپنے خون کا عطیہ دینے کا خیال کیونکر آیا تو انہوں نے بتلایا کہ ان کی مسجد کے امام صاحب نے انہیں میلاد النبیؐ کے موقع پر اس کار خیر میں حصہ لینے کے متعلق اپیل کی تھی۔ صرف بزرگ ہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اب 12 ربیع الاول کے موقع کو اسلام کی امن پسند تصویر عام کرنے کیلئے اپنے خون کا عطیہ دینے لگے ہیں۔
ربیع الاول کا مہینہ ہمیں دو طرح کے کام کرنے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ اول تو خود مسلمانوں کو سیرت النبیؐ سے واقفیت کروانا ، دوم وہ کام جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے سبھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام کا پیغام سارے عالم کے لوگوں تک پہونچانا مجھے کسی کے پروگرام، جلسہ ، جلوس اور کام پر تنقید نہیں کرنی چاہئے ۔ ہاں مجھے اپنی ذات کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیا میں بحیثیت مسلمان مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس کو پورا کر رہا ہوں ؟ اگر نہیں تو میں روز محشر کیا جواب دوں گا۔
خدائے تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی سیرت پر چلنے والا اور قرآن کے پیغام کو سمجھ کر عمل کرتے ہوئے سارے عالم تک دین کی دعوت پہونچانے والا بنادے تاکہ ہم سب دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے سے بچ سکیں۔ آمین یا رب العالمین
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اس سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
sarwari829@yahoo.com