قبائیلیوں کیلئے ضلع ایس پی عادل آباد وکرم جیت دگل کا قابل تقلید کارنامہ
نرمل۔28 اگست (جلیل ازہر کی رپورٹ) یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ دوسروں کے دکھ سکھ کا خیال رکھنے والے کبھی پریشان نہیں رہتے۔ ان کے ساتھ خدا کی مدد شامل رہتی ہے۔ آج کے اس پرآشوب دور میں دوسروں کی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف سمجھنے والے موجود ہیں۔ نمائندہ سیاست جلیل ازہر کو تاخیر سے ملی اطلاعات کو قارئین اور عہدیداروں تک پہنچانے کے لئے قلمبند کررہا ہوں تاکہ انسان کے اندر کا احساس جاگ اٹھے تو کسی بے سہارا، غریب، یتیم کی زندگی میں خوشیاں لوٹ آئیں جو کام قیادت کو کرنا چاہئے وہ کام ضلع عادل آباد میں ایک تجربہ کار قابل آئی پی ایس آفیسر مسٹر وکرم جیت دگل یہ ثابت کردکھایا کہ اپنے رویہ میں تبدیلی لاکر غریب کو احساس کمتری سے باہر لایا جاسکتا ہے۔ یہ بات تو ساری ریاست جانتی ہے کہ جب بھی ضلع عادل آباد کا تذکرہ آتا ہے تو یہاں کے گھنے جنگلات اور جنگلوں میں زندگی گزار رہے قبائیلیوں کا ذکر نہ ہو ممکن نہیں ساتھ ہی ان کی زندگی کن کن مسائل کا شکار ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ آزادی کے ستر سال بعد بھی ان لوگوں کی زندگی وہی ہے جو پہلے تھی جس سے ہماری طرز حکومت کے قبائیلی علاقوں کی ترقی کے دعوئوں کی پول کھل سکتی ہے۔ ان قبائیلی لوگوں کے لئے ہماری آبادیاں باہر کی دنیا سے کم نہیں لیکن جو کام عوامی نمائندے نہیں کرپائے اس کام کو ایک آئی پی ایس آفیسر وکرم جیت دُگل ضلع ایس پی نے کر دکھایا۔ گزشتہ ماہ ضلع عادل آباد کے تریاتی گرام پنچایت کے تحت پہاڑوں پر 7 گوڑم قبائیلی بستیاں پائی جاتی ہیں جن کو راجو گوڑم الاگوڑہ کو ناگوڑہ، چکلی گوڑہ، دوڑی گوڑہ اور رالوگوڑہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس علاقے میں پالا گنڈم آشباربھی واقع ہے۔ ان مقامات کی کل آبادی 950 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگوں کا آمد و رفت کا واحد ذریعہ پیدل چلنا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا ہو تو وہ اس کا استعمال کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ہے کہ یہاں پر ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لئے باقاعدہ راستہ تک نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کو اپنے اندر جھانکنا آجائے تو وہ دوسروں کے احساسات کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ یہی خوبیاں وکرم جیت دگل میں موجود ہیں۔ دگل جانتے ہیں کہ خوشی کو کسی نے چھوکر نہیں دیکھا غم کو کسی نے مسل کر نہیں دیکھا۔ یہ محسوس کرنے کی ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں وکرم جیت دگل نے ایک عجیب وغریب کارنامہ کر دکھایا۔ انہوں نے ان مجبور قبائیلیوں کے لئے دشوار گزار پہاڑیوں میں اپنی سرکردگی میں پولیس جوانوں اور مقامی لوگوں کو لے کر راستے بنوائے۔ اس کے لئے انہوںنے آئی ٹی ڈی اے سے پچیس لاکھ روپئے بھی منظور کروائے۔ پولیس کی جانب سے انجام دیئے جارہے پروگرام ’’جنامنتری‘‘ میں شرکت کے لئے ان قبائیلی علاقوں میں پہونچے اور وہاں کے لوگوں کی زندگی اور مشکلات سے واقفیت کے بعد دومبلی میں قبائیلیوں کے ساتھ اجلاس منعقد کیا اور بیلم پلی ڈی ایس پی رمنا ریڈی کی سرکردگی میں 71 قبائیلی لوگوں کے قافلے کو عادل آباد اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا اور طعام کا نظم کرتے ہوئے ان کے ساتھ طعام کیا۔ اور ان قبائیلیوں کو ضلع کلکٹر سے ملواکر آئی ٹی ڈی اے سے سڑک کی تعمیر کے لئے رقمی منظوری کروائی۔ ساتھ ہی تعلیم یافتہ قبائیلی نوجوانوں کو ودیا والنٹیر کے طور پر بند اسکول کو دوبارہ بحال کرواتے ہوئے تعلیم کے نظم کا آغاز کیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ راقم الحروف نے ان سے دو ہفتہ قبل انٹرویو لیا تھا جبکہ یہ کام میرے انٹریو سے قبل ہی انہوں نے انجام دے دیا تھا۔ جبکہ میرے انٹرویو میں جہیز کی لعنت اور ٹریفک مسائل پر بات کی تاہم انہوں نے واضح کردیا کہ وہ غریب عوام کا کام اپنے فرائض اور انسانیت کی بنیاد پر کررہے ہیں۔ نام ونمود یا تشہیر کے لئے نہیں یقیناً ان کی تصاویر کو دیکھ کر اندازہ ہر کوئی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ کر بھی پریشان حال لوگوں کے لئے کس قدر فکرمند ہیں۔ ان کی بے سہارا لوگوں پر ہمدردیوں کو دیکھ کر صرف یہ کہا جاسکتا ہے
مرہم لگا سکو تو کسی غریب کے زخموں پر لگا دینا
حکیم بہت ہیں بازاریں امیروں کے علاج کے خاطر