بجٹ میں تلنگانہ کو باغبانی یونیورسٹی کیلئے 200 کروڑ روپئے
اور
گجرات میں سردار پٹیل کے مجسمہ کی تعمیر کیلئے 250 کروڑ روپئے مختص
محمد نعیم وجاہت
بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی جانب سے پیش کردہ پہلے عام بجٹ میں تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، تاہم آندھرا پردیش کو کسی قدر راحت ملی ہے۔ مجموعی طورپر یہ بجٹ سنگھ پریوار اور کارپوریٹ سیکٹر کو خوش کرنے والا ہے۔ خسارہ کا بہانہ کرتے ہوئے متوسط طبقہ اور غریب عوام کو دی جانے والی سبسیڈی کم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی نے 10 جولائی کو لوک سبھا میں بجٹ پیش کرتے ہوئے تقسیم ریاست بل کے جو تقاضے تھے، تلنگانہ کو یکسر نظرانداز کردیا، جب کہ این ڈی اے کی حلیف تلگودیشم حکومت کو آندھرا پردیش میں کسی قدر راحت فراہم کی گئی ہے۔ تقسیم ریاست کے بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظوری دی گئی تھی، جس کے مطابق تلنگانہ ریاست میں صنعتوں کا جال بچھانے کے لئے ٹیکسوں میں خصوصی رعایت، ہارٹیکلچر یونیورسٹی کے قیام، 4000 میگاواٹ کا برقی پلانٹ تیار کرنے، قومی شاہراہوں کی توسیع، ضلع کھمم کے بیارم میں لوہے کی صنعت کا قیام، ریلوے کوچ فیکٹری، حیدرآباد میں ریاپڈ ریل نیٹ ورک کا قیام اور پرانہیتا چیوڑلہ پراجکٹ کو قومی پراجکٹ کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز کو 16 تجاویز پیش کی تھیں، جن میں سے صرف ایک تجویز یعنی ہارٹیکلچر یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ کرتے ہوئے صرف 200 کروڑ روپئے منظور کئے گئے ہیں، جب کہ تقسیم ریاست کے بعد حیدرآباد اور تلنگانہ پر توجہ مرکوز کرنے کی زیادہ ضرورت تھی۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو کے تعلقات بی جے پی اور این ڈی اے قائدین سے اچھے ہونے کی وجہ سے بجٹ میں آندھرا پردیش کو کسی قدر اہمیت دی گئی ہے۔
آندھرا پردیش کو مختص کئے گئے پراجکٹس کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک آئی آئی ٹی، زرعی یونیورسٹی اور ایمس ہاسپٹل کی تعمیر کے لئے 500 کروڑ روپئے کی منظوری کے علاوہ کاکیناڈا بندرگاہ کی ترقی، کاکیناڈا میں ہارڈویر انڈسٹری کا قیام، وشاکھا پٹنم اور چننائی کے درمیان صنعتی کاریڈور کا قیام، ہندوپور میں نیشنل اکسائز اینڈ کسٹمس اکیڈمی اور کرشنا پٹنم انڈسٹریل اسمارٹ سٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تلنگانہ کے ساتھ مرکز کا سوتیلا سلوک کھل کر سامنے آگیا ہے۔ مالی بحران کا سامنا کرنے والے آندھرا پردیش کو مرکزی حکومت نے تعاون کا اشارہ دیا ہے، مگر تقسیم بل میں تلنگانہ کے لئے جو کچھ مختص کیا گیا تھا، اس پر عمل آوری سے روگردانی کی گئی ہے۔ پولاورم پراجکٹ کے لئے بجٹ میں نہ صرف 250 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے، بلکہ تلنگانہ و اڑیسہ ریاستوں کی مخالفت کے باوجود بل کو پارلیمنٹ میں منظوری دے دی گئی۔ آندھرا پردیش میں ضلع کھمم کے سات منڈلوں کے انضمام کی مخالفت کو نظرانداز کردیا گیا، جب کہ ٹی آر ایس اور کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ ابتدا سے وزیر اعظم نریندر مودی تلنگانہ کی بنسبت آندھرا پردیش کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے این چندرا بابو نائیڈو سے دوستی نبھا رہے ہیں۔ تلنگانہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا تلنگانہ کے بی جے پی اور تلگودیشم یونٹس صرف تماشہ دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ زبان کھولنا بھی مناسب نہیں سمجھ رہے ہیں۔
مرکزی بجٹ میں اقلیتوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی ہے، یعنی اقلیتی امور کے بجٹ میں صرف 5.75 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، تاہم دینی مدارس کو عصری سہولتوں سے لیس کرنے کے لئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت حکومت میں اقلیتوں کے دیگر امور کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف دینی مدارس کو اہمیت دینے پر مسلم حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے، کیونکہ سنگھ پریوار کی نظروں میں دینی مدارس کھٹک رہے ہیں۔ پروین توگاڑیہ نے تو دینی مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دے کر مسلم جذبات کی توہین کی تھی اور اب بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت دینی مدارس کو عصری سہولتوں سے لیس کرنا چاہتی ہے، لہذا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اوپر ذکر کیا تھا کہ ارون جیٹلی کا پیش کردہ بجٹ، سنگھ پریوار اور کارپوریٹ اداروں کو خوش کرنے والا بجٹ ہے۔ این ڈی اے حکومت نے یو پی اے حکومت کی بیشتر پالیسیوں اور اسکیموں کو برقرار رکھا ہے اور جن نئی اسکیموں کو متعارف کرایا ہے، ان کو سنگھ پریوار کے قائدین مدن موہن مالویہ، سردار ولبھ بھائی پٹیل، شیام پرساد مکرجی اور دین دیال اپادھیائے کے ناموں سے موسوم کرکے آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں کو خوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے اقلیتی وزارت اور مفادات کو نظرانداز کرنے والے نریندر مودی اب بحیثیت وزیر اعظم اقلیتی امور اور ترقی بالخصوص اسکالر شپس کی اجرائی وغیرہ پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ ارون جیٹلی نے 9 جولائی کو اکنامک سروے جاری کرتے ہوئے عام بجٹ سے عجوبہ توقعات نہ رکھنے عوام کو مشورہ دیا تھا، جب کہ اسی بی جے پی نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی جانب سے ’’حکومت کے پاس جادو کی چھڑی نہ ہونے کے ادعا پر‘‘ ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔
مرکزی حکومت کے عام بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو ملک سے غربت کے خاتمہ کے منصوبہ کا نہ کوئی اعلان کیا گیا اور نہ ہی اس کے لئے درکار فنڈس مختص کئے گئے، تاہم سرکاری خزانہ بھرنے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ بجٹ کی پیشکش سے قبل ریل کرایوں، پٹرول، ڈیزل، کیروسین وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والی این ڈی اے حکومت سبسیڈی کو بوجھ اور ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کر رہی ہے۔ پکوان گیس پر تحدیدات عائد کرتے ہوئے سال میں چند سیلنڈرس ہی سبسیڈی پر فراہم کرنے کی حکمت عملی کا اعلان کیا ہے۔ یو پی اے حکومت میں معاشی تباہی کا بہانہ کرتے ہوئے معیشت کے استحکام کے لئے سخت فیصلوں کو لازمی قرار دیا اور انشورنس جیسے اہم شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کو 49 فیصد تک بڑھادیا ہے۔ یعنی معاشی اصلاحات کے نام پر ایک طرف سبسیڈی ختم کی جا رہی ہے اور دوسری طرف خانگی شعبوں کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے، جس کا راست اثر متوسط طبقہ اور غریب عوام پر پڑے گا۔ حکومت میں خانگی اداروں کی شراکت داری بڑھ جائے گی، پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ خانگی شعبوں کی اجارہ داری کے آگے حکومت بے بس ہو جائے گی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول باقی نہیں رہے گا، ایک طرح سے خانگی ادارے ملک میں راج کریں گے۔
ملک کی ریاستوں کے لئے مرکز کا عام بجٹ اہم سنگ میل ہوتا ہے، مگر این ڈی اے حکومت نے بجٹ میں ریاستوں کی ضروریات کو توقع کے مطابق اہمیت نہیں دی۔ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دیو قامت مجسمہ کے لئے 250 کروڑ روپئے منظور کیا ہے، مگر دیگر ریاستوں میں غریب عوام کے لئے چلائی جانے والی اسکیموں سے تعاون کو مناسب نہیں سمجھا گیا۔
ریاست کی تقسیم کے بعد تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے لئے نئے مسائل اور چیلنجس درپیش ہیں۔ جس طرح تلنگانہ میں برقی بحران ہے، اسی طرح آندھرا پردیش میں معاشی بحران ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بجٹ کو مایوس کن قرار دیا اور تقسیم ریاست کے بل سے واقف ہونے کے باوجود تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کا الزام عائد کیا۔ جب کہ این ڈی اے کے حلیف چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے مرکزی بجٹ کو متوازن قرار دیتے ہوئے آندھرا پردیش کے لئے مزید اضافہ پر زور دیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں ملک کی معیشت تباہ ہو گئی، تاہم ارون جیٹلی کی جانب سے پیش کردہ بجٹ معاشی نظام کو بہتر اور مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔