مرکز پر تلنگانہ سے زیادہ آندھرا پردیش اثرانداز

محمد نعیم وجاہت
ریاست کی تقسیم کے تقریباً ایک ماہ بعد تلنگانہ اور آندھرا پردیش ریاستوں میں برقی، پانی اور طلبہ کی فیس باز ادائیگی کے مسئلہ پر ٹکراؤ شروع ہو گیا ہے۔ تلگودیشم این ڈی اے کی حلیف جماعت ہے، جس کی وجہ سے مرکز کا تعاون آندھرا پردیش کو زیادہ ملنے کا امکان ہے۔ آندھرا پردیش میں حکومت تشکیل دینے والی تلگودیشم تلنگانہ میں کانگریس کے 21 کے مقابل 15 اسمبلی حلقہ جات پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے صرف 6 نشستوں کی کمی سے تیسرے مقام پر ہے، جب کہ ٹی آر ایس صرف تلنگانہ ریاست تک محدود ہے۔ کانگریس کی مقبول اسکیم فیس باز ادائیگی کے مسئلہ پر طلبہ، اولیائے طلبہ اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں تجسس پایا جاتا ہے، حکمراں ٹی آر ایس نے اس مسئلہ پر کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے اسکیم کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صرف تلنگانہ کے طلبہ کو فیس باز ادائیگی اسکیم سے فائدہ پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں آندھرا پردیش میں زیر تعلیم تلنگانہ طلبہ کی فیس کا بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے تلنگانہ میں زیر تعلیم آندھرا کے طلبہ کی فیس اور بقایہ جات آندھرا پردیش حکومت کی جانب سے ادائیگی پر زور دیا ہے

، تاہم مقامی طلبہ کی شناخت کس طرح کی جائے گی؟ اس کے رہنمایانہ خطوط جاری نہیں کئے گئے۔ تلنگانہ حکومت کے اس فیصلہ کے بعد آندھرا حکومت کا کہنا ہے کہ جس ریاست میں برقی پیدا ہو رہی ہے، اس کو وہی ریاست استعمال کرے، لہذا اب تک جتنے بھی برقی معاہدے ہوئے ہیں، انھیں منسوخ کرنے کا مرکز سے مطالبہ کیا ہے۔ اگر یہ معاہدے منسوخ ہو جاتے ہیں تو پہلے سے برقی قلت کا سامنا کرنے والی تلنگانہ ریاست کو مزید 460 میگاواٹ برقی سے محروم ہونا پڑے گا۔تلنگانہ کی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے آندھرا پردیش حکومت کے اس فیصلہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ ریاستی وزیر آپباشی ہریش راؤ نے سخت انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ تقسیم ریاست کے بل میں برقی سربراہی کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی قانون سازی کی گئی ہے، اگر تلگودیشم حکومت اس کو منسوخ کروانے کی کوشش کرے گی تو تلنگانہ حکومت اس کا منہ توڑ جواب دے گی اور حیدرآباد میں آندھرا پردیش اسمبلی، سکریٹریٹ، وزراء کے کوارٹرس وغیرہ کو برقی سربراہی منقطع کردی جائے گی۔
سربراہ تلگودیشم این چندرا بابو نائیڈو کے وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی اور این ڈی اے کی حلیف جماعتوں سے بہتر تعلقات ہیں، جس کی وجہ سے مسٹر نائیڈو مرکز پر دباؤ ڈالتے ہوئے مرکزی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ضلع کھمم کے 7 منڈلوں کو آندھرا پردیش میں انضمام کا آرڈیننس جاری کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس کی سخت مذمت کی اور ٹی آر ایس نے ایک روزہ بند بھی منایا، جس کا مرکزی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش صرف اتنے ہی پر خاموش نہیں رہے، بلکہ مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مرکز کو ایک مکتوب روانہ کیا، جس میں کہاگیا ہے کہ پولاورم بورڈ میں تلنگانہ کو نمائندگی نہ دی جائے، جو تلنگانہ کے سیاسی حلقوں میں کافی متنازعہ بن گیا ہے۔

تقسیم ریاست کے بعد تلنگانہ اور آندھرا پردیش حکومتوں کے درمیان ٹکراؤ شروع ہو گیا ہے۔ اگر اس کی بجائے صحت مندانہ مسابقت ہوتی تو دونوں ریاستوں کی تیز رفتار ترقی ہوتی اور عوامی فلاح و بہبود کا کچھ کام ہوگا، مگر دونوں ہی حکومتیں تعاون و اشتراک سے مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی مفادات کی خاطر مسائل کو پیچیدہ بنا رہی ہیں، جو مستقبل میں دونوں ریاستوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ چندرا بابو نائیڈو دہلی کے دورہ پر ہیں، جہاں وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ دیگر مرکزی وزراء سے ملاقات کریں گے۔

تلنگانہ اور آندھرا پردیش اسمبلیوں کا پہلا اجلاس مکمل ہو چکا ہے، کسانوں کے قرض معافی کے معاملے میں ٹی آر ایس حکومت کی تھوڑی سی غفلت کے سبب کسانوں نے خودکشی کی اور سیاسی جماعتوں کو حکومت کے خلاف احتجاج کا موقع فراہم ہوا، تاہم چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے اسمبلی میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کسانوں کے تمام قرضہ جات بشمول سونے پر حاصل کردہ قرضوں کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے کسانوں کو بڑی حد تک راحت پہنچائی ہے۔دس سال تک اپوزیشن میں رہنے والی تلگودیشم نے اپنے انتخابی منشور میں حکومت تشکیل دینے کے بعد کسانوں اور ڈاکرا گروپس کے قرضہ جات کی معافی، بے روزگاری بھتہ دینے کے علاوہ اور بھی کئی وعدے کئے تھے، جس پر آندھرا کے عوام نے تلگودیشم پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے اقتدار تک پہنچایا۔ ریاست کی تقسیم اور حیدرآباد سے محرومی کے بعد آندھرا پردیش کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ کسانوں اور ڈاکرا گروپس کے قرضہ جات کی معافی کا بوجھ تقریباً 80 ہزار کروڑ روپئے ہے، جب کہ حکومت اتنا بوجھ برداشت کرنے کے موقف میں نہیں ہے، جو حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ٹی آر ایس اور تلگودیشم قرض معافی کا اعلان کرکے اقتدار تک پہنچی ہیں، تاہم ریزرو بینک آف انڈیا نے دونوں حکومتوں کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے قرضہ جات کی معافی کو ناممکن قرار دیا ہے۔ اب دونوں حکومتیں آر بی آئی کو کس طرح منائیں گی اور جو وعدے کئے ہیں، ان کو کس طرح عملی جامہ پہنائیں گی؟ تو یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

ریاست کی تقسیم تو ہو گئی، تاہم سرکاری ملازمین کا بٹوارہ مرکزی حکومت کے لئے بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں کو سرکاری کاموں کی انجام دہی کے لئے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ چیف منسٹرس اور وزراء کو اب تک مکمل اسٹاف نہیں مل سکا۔ دونوں ریاستوں کی کابینہ پر سرسری نظر ڈالیں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ہی چیف منسٹرس نے اپنے ہم خیال اور وفاداروں کو اپنی اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے اور دونوں ہی ریاستوں میں پہلی مرتبہ دو دو ڈپٹی چیف منسٹرس بنائے گئے ہیں۔ تلنگانہ میں کے چندر شیکھر راؤ نے ایک مسلم قائد محمد محمود علی کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا ہے اور ساتھ ہی انھیں روایت سے ہٹ کر اقلیتی وزارت سونپنے کی بجائے وزیر مال بھی بنایا ہے،

جس کا شمار بڑی وزارتوں میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ایک ایس سی طبقہ کے قائد کو بھی ڈپٹی چیف منسٹر بنایا ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو نے بھی دو ڈپٹی چیف منسٹرس بنائے ہیں۔ اسمبلی اور کونسل کا رکن نہ ہونے کے باوجود نارائنا ایجوکیشن گروپ کے سربراہ کو راست ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا۔ تلگودیشم کے ٹکٹ پر آندھرا پردیش میں ایک بھی مسلم قائد کو کامیابی نہیں ملی، تاہم مسٹر نائیڈو نے جس طرح نارائنا ایجوکیشن گروپ کے سربراہ کے معاملے میں جرأت کا مظاہرہ کیا، کسی مسلم قائد کو کابینہ میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی، جب کہ ہندوپور کے مسلم رکن اسمبلی عبد الغنی نے صدر تلگودیشم کے برادر نسبتی و سمدھی بالاکرشنا کے لئے اپنی نشست خالی کی تھی اور ان کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا، اس کے باوجود انھیں نظرانداز کردیا گیا۔ ریاستی وزیر پی رگھوناتھ ریڈی کو وزارت اقلیتی بہبود کی زائد ذمہ داری سونپی گئی ہے، یعنی تلگودیشم نے ایک بار پھر مسلمانوں کو نظرانداز کرنے کا ثبوت دیا ہے۔تلگودیشم نے اپنے انتخابی منشور میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے جو وعدے کئے تھے، ان پر عمل آوری کے سلسلے میں تجسس برقرار ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے اسمبلی کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا ہے، کیا آندھرا پردیش کے مسلمانوں کو بھی تحفظات فراہم کئے جائیں گے؟ چیف منسٹر آندھرا پردیش کی جانب سے اب تک کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

دونوں حکومتوں کے لئے وعدوں پر عمل آوری آسان نہیں ہے، لہذا دونوں چیف منسٹرس اپنے اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں پر کتنا عمل کرتے ہیں، آنے والے مہینوں اور برسوں میں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومتوں پر کتنا دباؤ ڈالتی ہیں اور تعمیری رول ادا کرنے میں کتنا کامیاب ہوتی ہیں؟ اس کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔