مرزا غالب کے ایک شعر کی تفہیم

ظفر عالم قاسمی
اردو زبان کے قدیم اور معروف شاعر اسد اللہ خان غالب کا ایک شعر ہے ۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
مرزا غالب اس شعر میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ دنیوی زندگی میں جو بھی امور درپیش ہوتے ہیں وہ عموماً سہل نہیں ہوتے بلکہ ہر کام مشکل سے عبارت ہے ، چنانچہ یہ مقولہ درست ہے کہ مشکل کے بعد آسانی ہے ، انسان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے بعد ہی کسی کام میں کامیابی کے زینے تک پہنچتا ہے چنانچہ غالب کہتے ہیں : دنیاوی زندگی میں ہر عمل دشوار ہے اور دشواری کی انتہا یہ ہے کہ آدمی جو کہ اشرف المخلوقات ہے ، اس کے لئے بھی کمال انسانیت کے مرتبہ تک پہنچنا سہل نہیں ہے ، اگرچہ کچھ لوگ خود کو دوسروں سے منفرد تصور کرتے ہیں مگر باطنی طور پر وہ لوگ انسانیت کی صفت سے عاری ہوتے ہیں ، غالباً مضطر مجاز نے ایسے ہی لوگوں کے تعلق سے طنزاً کہا ہوگا کہ
رکھتا نہیں کسی سے کوئی اختلاف میں
باتیں ضرور کرتا ہوں کچھ صاف صاف میں
موجودہ دور سائنسی ترقی کا دور ہے تاہم غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانیت ابھی ترقی سے کوسوں دور ہے ، بقول خلیل تنویری
زمانہ لاکھ ستاروں کو چھو کے آجائے
ابھی دلوں کو مگر حاجتِ رفو ہے بہت
غالب کے مذکورہ شعر کی روشنی میں حقیقی انسان وہ ہے جس کو دیگر انسانوں سے غایت درجہ محبت ہو ، وہ علاقائیت ، لسانیت ، قومیت اور رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعلق رکھے ۔ یہی انسانیت کا تقاضہ ہے ، مگر حالات اس کے برعکس ہیں ، آج ہر فرد ایک دوسرے کے تعلق سے بغض و حسد میں مبتلا ہے بقول شاعر
حسد کی آگ ہے اور داغ داغ سینہ ہے
دلوں سے دُھل نہ سکا وہ غبار کینہ ہے
کسی کی زندگی کے حوالے سے عیب جوئی سراسر جرم ہے مگر یہ ہمارا وطیرہ ہے کہ ہم اس عیب کو عیب تصور نہیں کرتے اور اس تعلق سے کبھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے کہ ہمارے اندر کیا عیوب ہیں ۔ اپنے عیوب پر نظر رکھنے والا شخص کبھی کسی کے عیب کی تلاش میں نہیں رہتا ، اسے تو صرف اپنی ہی اصلاح کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔
دشمن تو وہیں ذات گرامی میں چھپا تھا
باہر کو گھماتے رہے تلوار میاں جی
کچھ لوگ اپنی زندگی میں اچھے اوصاف پیدا کرنے کی سعی ضرور کرتے ہیں تاہم تکمیل کمال ہوتے ہوتے وہ زوال کی تمہید ہوجاتے ہیں بقول شاعر

تکمیلِ کمال ہوتے ہوتے
تمہیدِ زوال ہوگئے ہم
غالب نے بجا کہا ہے کہ
بس کہ دشوار ہے ہر کام کاآساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
ایسا کبھی قطعی نہیں ہوا کہ دنیا سے مکمل طور پر شر ختم ہوگیا ہو ، اگرچہ انسان کے اندر شر کی قوتیں خیر کی طاقتوں سے ہمیشہ نبرد آزما رہی ہیں ، آپ اسے انسان کی فطرت کہہ سکتے ہیں ، ان شر انگیز طاقتوں کو آپ منفی قوتوں کا عنوان دے سکتے ہیں ، ہر منفی سوچ ، ہر تخریبی خیال ، ہر انسان دشمن منصوبہ خواہ اس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو ، یا اس کے ماحول سے ہو ، یا ملک یا اس کی سرزمین سے ہو ، تمام اسی کی کارستانی تصور کی جاتی ہے ۔ ہوس ، لالچ ، ظلم ، بدعنوانی ، بدامنی ، بدعہدی ، بے وفائی ، فریب کاری ، بزدلی ، منافقت ، خیانت ، جھوٹ ، بے ادبی ، بغض و عناد ، انا پرستی ، چوری ، ڈاکہ زنی ، قتل و غارت اور وحشت و بربریت یہ تمام اسی کی ایجاد کردہ ہیں اور اسی کے گرداب میں وہ آج تک پھنسا ہوا ہے ۔ شک ، بے یقینی اور مایوسی انسان کی صفات نہیں ہیں ، یہ تو شیطان کے اسلحے ہیں اور شیطان جب ان اسلحوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوتا ہے تو بڑے بڑے پختہ عزم انسان اس کے محکوم ہوجاتے ہیں ۔ سچ کہا ہے غالب نے کہا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
مرزا غالب نے اس شعر میں انسان کو صحیح انسان بننے کی طرف راغب کیا ہے ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان کے سارے مسائل کی بنیادی وجہ الہامی تعلیمات سے بے تعلقی ہے ۔ اسی بے تعلقی نے آج انسان کو شیطانی قوتوں کے سامنے بے بس کردیا ہے اور انسان نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کی آمد  کے چودہ سو برس گذر جانے کے بعد بھی شبہات کی تاریکیوں میں ہے ، انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈال دی ، سورج کی روشنی کو قابو میں کرچکا ، ساری کائنات کو ایک مٹھی میں بند کرنے کے باوجود وہ الہامی ہدایات کے حوالے سے اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ۔ اور احسن تقویم کا جو اعزاز خدا نے اسے عطا کیا ہے  ، انسان ابھی اس اعزاز کو قبول کرنے سے بہت دور ہے ۔ بقول اقبال
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

آج کے مادہ پرست دور میں حب دنیا ، حب مال ، حب دولت ، حب جاہ و حشم ، حب شہرت ، حب رتبہ و عہدہ نے ’خدا‘ کی جگہ لے لی ہے ، جبکہ ہر انسان کو مثبت رویوں کے سانچے میں شعوری طور پر خود کو ڈھالنا چاہئے ، کیونکہ اسی صورت میں انسان رشتے ، انسانی روابط استوار ہوسکتے ہیں اور مسلک و مشرب ، رنگ و نسل اور ذات و برادری کی تفریق ختم ہوسکتی ہے اور بے چین انسانیت کو آرام و اطمینان مل سکتا ہے ۔
آج انسان میں انسانی صفات مفقود ہونے کے سبب خدا کی آراستہ کائنات تباہ ہورہی ہے ۔ نت نئی برائیاں پروان چڑھ رہی ہیں ، انسانی اقدار پامال ہورہے ہیں ۔ چمنستان انسانیت خزاں رسیدہ ہوتے جارہے ہیں ، انسانی رشتے بری طرح شکست و ریخت سے دوچار ہیں ، خوددار لوگ تڑپ تڑپ کر جی رہے ہیں اور پرُآشوب حالات سے مقہور ہیں اور انسان امن و سکون کے لئے بے قرار ہے ، آج انسانی دنیا پر غالب کا یہ شعر بہرحال صادق آتا ہے کہ
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کسی فلسفی سے پوچھا گیا کہ بڑا آدمی کون ہے ؟اس نے جواب دیا کہ ’’ہر انسان میں فطری طور پر دو قسم کی قوتیں کارفرما ہوتی ہیں ، ایک قسم  کی قوت اسے بلندی کی طرف کھینچتی ہے اور دوسرے قسم کی قوت اسے پستی کی طرف لے جانا چاہتی ہے ،بڑا آدمی وہ ہے جو پہلی قسم کی قوت کے بل چلتا ہے جو کہ اسے بلندی کی طرف لے جاتی ہے اور دوسرے قسم کی قوت اسے تنزلی و پستی کی طرف لے جاتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ہر انسان میں خدا کی طرف سے دونوں طرح کی قوتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ چاہے تو بڑا آدمی بن جائے یا چھوٹا آدمی بنا رہے ۔ فطری طور پر اس کا اختیاری عمل ہے ، لیکن ہم اس کے لئے اپنی قسمت کو بُرا بھلا کہتے ہیں ، حالانکہ انسان کا عمل خود اس کی قسمت ہے ، قسمت کا بہانہ دراصل ایک شیطانی فریب ہے اور انسان اس کے فریب میں مبتلا ہے اور عمل کے میدان میں قدم رکھنے سے گریزاں ہے ۔ قرآن میں ہے یعنی جس نے ذرہ بھر نیک عمل کیا ہوگا وہ اس کو (بروز قیامت) دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برا عمل کیا ہوگا وہ اسے دیکھ لے گا۔ اس خدائی ارشاد سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عمل ہی اس کی قسمت ہے ۔ بقول علامہ اقبال
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری