محمد منظور احمد
کل نفس ذائقۃ الموت ۔ دنیا میں آنکھ کھولنے والا ہر انسان ایک نہ ایک دن آنکھ بند کرکے چلا جاتا ہے ۔ موت سے کسی کو مفر نہیں ۔ آگے اور پیچھے جلد یا بدیر لیکن ہر انسان کو دنیا سے رخصت ہونا ہے لیکن وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جو بظاہر دنیا سے گذر جاتے ہیں لیکن اپنے کارناموں ، خدمات ، جد وجہد اور سرگرمیوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے زندہ شمار ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی خوش نصیب افراد میں مولانا عبدالعزیز سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ مولانا عبدالعزیز صاحب کی شخصیت ملک اور بیرون ملک اسلام پسند حلقوں میں انتہائی معروف ہے ۔ جن کی زندگی دعوت دین کے لئے وقف تھی اور برادران وطن میں اسلام کی دعوت پہنچانا ان کا خاص مشغلہ اور سرگرمی تھی ۔ اردو ، انگریزی اور تلگو زبان پر مولانا کو زبردست عبور حاصل تھا اور اپنی غیر معمولی شعلہ بیانی کے ذریعہ وہ سامعین کے دلوں کو مسحور کردیتے اور اندر کے انسان کو جگا کر روح کو جھنجھوڑ کر ایمان اور عمل کی شاہراہ پر گامزن کردیتے ۔ مولانا کو قرآن اور سیرت رسولؐ سے خاص شغف تھا ، اپنی تقاریر اور خطابات میں آیات قرآنی اور واقعات سیرت رسولؐ کو خاص انداز سے پیش کرنے کی انہیں خاصی مہارت حاصل تھی ۔ بسا اوقات علامہ اقبال اور عامر عثمانی مرحوم کے اشعار کو بھی اپنے خطاب میں پیش کرتے ۔ مولانا کے خطابات ہر کس و ناکس کے دل پر اثر کرتے تھے ۔ ان پڑھ ، کم پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ افراد یکساں طور پر مولانا کے خطابات سے مستفید ہوتے تھے ۔ دنیا میں یوں تو مقررین کی کمی نہیں لیکن سامعین مقرر کی تعریف اور ستائش اور واہ واہ کرکے واپس ہوجاتے ہیں۔ لیکن محترم مولانا مرحوم کی شخصیت ان سے الگ تھی ۔ مولانا کی تقریر اور خطابات محض واہ واہ تک محدود نہیں تھے بلکہ ایمان اور عمل پر ابھارتی اور راہ حق میں سرگرم ہونے کے لئے تیار کرتی تھی ۔
چنانچہ آج ریاست کے دور دراز دیہاتوں اور گاؤں میں دعوت دین کی جو آواز سنائی دیتی ہے اس میں مولانا کا خاص رول رہا ہے ۔ دعوت الی اللہ کا یہ سپاہی رات دن اللہ کے پیغام کو بندگان خدا تک پہنچانے کی تڑپ اور جستجو میں رہتا ۔ گھر اور اہل خانہ سے محض رسمی تعلق رہتا ۔ رات دن راہ خدا میں سرگرمی ہی مولانا کی زندگی کا حاصل تھی ۔ ہر مہینہ 20 ، 25 دن وہ دوروں پر رہتے ۔ پیدل ، سائیکل رکشہ ، بس ، ٹرین جو سواری میسر آتی یا سفر کے لئے موزوں ہوتی اس پر روانہ ہوجاتے ۔ نہ کھانے کی فکر نہ آرام کی پرواہ ۔ مولانا کے خطابات سامعین کو مبہوت کردیتے اور لوگ دور دور سے مولانا کی تقاریر سننے کے لئے جمع ہوتے ۔ مولانا کے اظہار سے سامعین کے دل نرم ہوجاتے ، دل و دماغ پر اثر ہوتا اور جذبہ عمل پیدا ہوتا چنانچہ مولانا جب تقریر کرتے تو اجتماع میں مکمل سناٹا چھا جاتا اور ہمہ تن گوش لوگ سننے لگتے بلکہ یہ کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ مولانا کا نام کسی جلسہ اور اجتماع کی کامیابی کی کلید کی حیثیت رکھتا تھا ۔ انڈو عرب لیگ کا ایک تاریخی جلسہ گوشہ محل پر وزیراعظم اندرا گاندھی کی صدارت میں منعقد کیا گیا تھا جس میں مولانا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ۔ سارا اسٹیڈیم عوام سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جب مولانا کا نام پکارا گیا اور پانچ منٹ کا وقت مقرر کیا گیا ۔ مولانا اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے اپنی تقریر کو شروع کردئے اور 5 منٹ میں ایک سکنڈ بھی ضائع کئے بغیر اپنے خطاب کو مکمل کیا ۔ سارا اسٹیڈیم 5 منٹ تک تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونجتا رہا اور مہمان حیرت زدہ رہ گئے اس فن خطابت پر ۔
مولانا کی شخصیت اسم باسمی تھی ۔ مولانا کی شخصیت میں سادگی ، انکساری ، عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ شخصیت میں اتنی جاذبیت اور جادو تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ ملتا تو پھر مولانا کا گرویدہ ہوجاتا ۔ مولانا ہر ایک کے ساتھ محبت خلوص اور اپنائیت کا سلوک کرتے کسی کے متعلق دل میں کوئی میل آنے نہیں دیتے ۔ بلکہ جب کوئی کسی کے متعلق شکایت کرتا تو فوری روک دیتے ۔ مولانا کو کبھی بھی اپنے منصب کو لیکر غرور کا شائبہ بھی نہیں چھوا ۔ ہمیشہ یہی فکر ہوتی کہ رضائے الہی حاصل ہو اور آخرت کی کامیابی میسر آئے ۔ دوسروں کو بھی رضائے الہی اور فلاح آخرت کے جذبہ سے کام کرنے کی تلقین کرتے ۔ نام نمود سے انہیں نفرت تھی اور گمنامی کی زندگی پسند کرتے تھے ۔ مولانا اختلافی امور و مسائل سے ہمیشہ دور رہتے ، اختلاف و انشار پسند نہیں تھا ۔ مسلسل جد وجہد تگ و دو اور بلاوقفہ سرگرمی پر ایقان تھا ، یہی فکر رہتی کہ اللہ کا پیغام کیسے بندگان خدا تک پہنچایا جائے ۔ مخالفتوں اور مخالفین کی الزام تراشیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ خواتین ، طالبات ، طلباء اور نوجوانوں کی طرف خاص توجہ دیتے تھے ۔ ان کی کردار سازی کے ساتھ راہ حق کے لئے سرگرم عمل ہونے پر آمادہ کرتے ۔ چنانچہ جماعت اسلامی کا شعبہ خواتین اور شعبہ طلباء ایس آئی او کے قیام میں مولانا کی کافی دلچسپی اور کوشش رہی ۔
1981 میں وادی ھدی میں مولانا کی نظامت میں جماعت اسلامی کا تاریخ ساز آل انڈیا اجتماع منعقد ہوا جس میں ساری دنیا کے اہم اسلامی مفکرین اور دانشور شریک رہے اور ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خمینی بھی شریک تھے ۔ اس اجتماع کے انتظام اور انصرام کا بے مثال کارنامہ مولانا ہی کے حصہ میں آیا ۔
علم اور عمل ایمان اور جستجو مولانا مرحوم کی تمام تر جد و جہد کا محور تھا ؎
جس کے جلو میں جہد و عمل کی تڑپ نہ ہو
وہ صرف ایک فریب دعا ہے دعا نہیں
اپنی کم عمری ہی میں وہ دعوت دین کی جد وجہد سے خود کو منسلک کرلئے تھے ۔ مولانا مودودیؒ نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے جانہ سکے ۔ کہتے تھے کہ میری زندگی کا وہ المیہ ہے کہ میں مولانا مودودی کی دعوت پر لبیک نہ کہہ سکا ۔ گریجویشن کی تکمیل پر کریمنگر میں مدرس مقرر ہوئے ۔ تدریس کے بعد جو بھی وقت میسر آتا اطراف کے دیہاتوں میں اصلاح و تربیت اور دعوت دین کو پہنچانے میں لگادیتے ۔ دینی سرگرمیوں کو دیکھ کر متعصب آفیسر نے عادل آباد تبادلہ کردیا ۔ لیکن وہاں دعوتی سرگرمیاں میز تیز تر انداز میں ہونے لگی ۔ ڈائرکٹر ایجوکیشن نے نوٹس بھجوائی کہ جماعت اسلامی کی رکنیت سے دستبردار ہوجاؤ ورنہ ملازمت چلی جائے گی ۔ عزم و حوصلہ اور ہمت کے پیکر مولانا نے ایمان و یقین کے ساتھ کہا کہ میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک جماعت کا رکن رہوں گااور رہا مسئلہ ملازمت کا تو میں خالق کائنات کو اپنا رزاق تسلیم کرتا ہوں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا کوملازمت سے برطرف کردیا گیا جس پر مولانا نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب میں آزاد ہوگیا ہوں اور اب سارے ملک میں گھوم پھر کر دعوت دین کا کام انجام دوں گا ۔ اور اللہ تعالی نے مولانا کے جذبہ کو قبول فرمایا اور مولانا کو اس بات کا موقع دیا کہ وہ سارے ملک کے طول و عرض میں برادران وطن میں خاص کر اسلام کا پیغام پہنچائیں ۔ مولانا نے 89 سال کی عمر پائی اور ساری عمر دعوت دین کے لئے وقف کردی ۔ دور دراز دیہاتوں میں دینی مدارس اور مساجد کا قیام مولانا کا اہم کارنامہ ہے ۔
مولانا نے تلگو زبان میں اسلام کے لٹریچر کو منتقل کرنے کے لئے بھی ایک ادارہ کی بنا ڈالی ۔ تلگو زبان میں مقررین کی تیاری کا کام انجام دیا ۔ سماجی اور اخلاقی برائیوں کے حلاف ’’انسداد فواحش و منکرات‘‘ کا نام سے ایک زبردست مہم چلائی ۔ ایمرجنسی میں بنگلہ دیش کی جنگ کے موقع پر مولانا کو جیل کی بھی صعوبتیں برداشت کرنا پڑا ۔ مولانا درویش صفت انسان تھے چنانچہ وہ ایک عرصہ تک آندھرا و اڑیسہ کے امیر رہے اور کل ہند نائب امیر رہے لیکن عہدہ اور منصب کو اپنے ذاتی فائدہ یا اہل و عیال کے لئے استعمال نہیں کیا ۔ مولانا کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ملک و بیرون ملک پھیلی ہوئی ہے اور اپنے اپنے انداز میں دعوت دین کی جد وجہد میں مصروف ہے ۔ مولانا کے چاہنے والوں میں جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں اور مکاتب فکر کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ چنانچہ مولانا کے سانحہ ارتحال کی خبر سن کر ہزاروں افراد نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور بادیدہ نم رخصت کیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹادی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر