مرثیہ اور حیدرآباد (حضرت ابراہیم حامی سے فراز رضوی کی بات چیت)

فراز رضوی
مرثیہ اردو ادب کی بہت مقبول صنف رہی ہے ۔ رثاء عربی لفظ ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں ۔ اسی سے لفظ مرثیہ بنا ہے ۔چنانچہ مرثیہ کا اطلاق ایسی ہی نظموں پر ہوتا تھا جن میں رثائی وصف ہو ، لیکن اب بالخصوص اردو میں مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس کا موضوع واقعات کربلا ہو ۔ مرثیے میں اگر کسی شخص خاص یا اشخاص کا تذکرہ ہو اور وہ واقعات کربلا ، محمد و آل محمد ؐسے متعلق نہ ہوں تو اس کو تعزیتی نظم کہیں گے ۔ دکن میں اردو مرثیہ صوفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا  ، اشرف بیابانی کی نوسرہار 1503ء کو مرثیہ کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے ، اس کے بعد شاہ برہان الدین جانم اور شاوراجو نے بھی مرثیے لکھے ۔ غواصی اور وجہی کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں ، اٹھارویں صدی میں لکھے جانے والے مرثیے اپنے ارتقاء کے ابتدائی مراحل کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ انیسویں صدی کا آغاز مرثیے کی ترقی کی نوید لاتا ہے ۔ اس زمانے میں جن لوگوں نے مرثیے لکھے ان میں دلگیر ، فصیح ، خلیق اور ضمیر کے نام اہمیت رکھتے ہیں ۔ ضمیر کے شاگرد دبیر اور خلیق کے لڑکے انیس نے اردو مرثیے کو بام عروج پر پہنچایا ، اردو میں جب بھی مرثیے کا تذکرہ آتا ہے مرزا دبیر اور میر انیس کے نام صفحہ ذہن پر روشن ہوجاتے ہیں ۔ یہ وہ شاعر ہیں جنھوں نے مرثیے کو بام عروج پر پہنچادیا ۔
صنف مرثیہ اور حیدرآباد کے حوالے سے دبستان دبیر کے سلسلہ وار تلمیذ و شاگردِ علامہ نجم آفندی حضرت ابراہیم حامی سے ہوئی گفتگو انہی کے لفظوں میں پیش ہے ۔ میرا نام میر ابراہیم علی اور حامیؔ تخلص ہے ۔ میری پیدائش 1929ء میں حیدرآباد دکن کے محلہ الاوہ یتیماں میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم اسی محلہ کے نام سے منسوب مدرسہ تحتانیہ میں ہوئی اور پھر مدرسہ دارالعلوم و چنچلگوڑہ اسکول سے تعلیم کی تکمیل کے بعد جامعہ نظامیہ میں منشی و منشی فاضل کامیاب کیا ۔ اٹھارہ انیس سال کی عمر میں نظام سرکار کے محکمہ ڈاک و تار میں ملازمت اختیار کی ۔ مابعد آزادی یہ محکمہ حکومت ہند کے زیر انتظام آگیا اور پھر یہ سلسلہ ملازمت 1988 تک جاری رہا ۔ بیسویں صدی عیسوی کے آٹھویں دہے میں مرثیہ کے موضوع پر میری تصنیف ’’تہذیب منبر‘‘ اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کی جزوی مالی اعانت سے شائع ہوئی ۔ میری شاعری کا آغاز پندرہ سال کی عمر سے ہوا ۔ ابتداء میں دو ایک سال بے راہ روی رہی پھر میرے بچپن کے رفیق مرزا عبدالحسین (خاور نوری) کی وساطت سے مرزا تجمل حسین نجم آفندی کے حلقہ تلامذہ میں شمولیت اختیار کی ۔ علامہ نجم کے تلامذہ میں سہیل آفندی ، خاور نوری ، ساجد رضوی ، راحت عزمی ، عادل نجمی ، عازم رضوی ، قائم جعفری ، شاہد حیدری ، خورشید جنیدی وغیرہ کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو مجھے اس وقت یاد نہیں آرہے ہیں ۔ ہم تمام کا سلسلہ تلمذ حضرت مرزا سلامت علی دبیر سے اس طرح ملتا ہے ، استاد محترم علامہ نجم آفندی ، نجم کے استاد انھیں کے والد بزم آفندی ، بزم کے استاد منیر شکوہ آبادی (جو رشتے میں بزم کے ماموں تھے) ، منیر کے استاد علی اوسط رشک جو بالراست حضرت دبیر کے تلامذہ میں تھے ۔ چنانچہ اس سلسلہ تلمذ کا ذکر میں نے اپنے ایک مرثیے میں اس طرح کیا ہے ۔
نجم استاد مرے ہند کے استاد شہیر
انکے استاد تھے بزم ، انکے تھے استاد منیر
رشک استاد منیر اہل سخن کی توقیر
اور پھر رشک کے استاد تھے سرکار دبیر
لطف شبیر سے میخوار غدیری ہوں میں
پانچویں پشت تلمذ میں دبیری ہوں میں
ان دنوں حیدرآباد دکن میں اردو ادب کا ماحول بہت نفیس اور صحتمند تھا ۔ اساتذہ نوواردان ادب کی بلا تفریق مکتب فکر و دبستان فراق دلی سے پذیرائی و حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور تلامذہ کے ادب و احترام کی مثال ہوا کرتے تھے ۔ ادبی محافل میں مشاعرے ، مقاصدے ، مسالمہ اور محافل مراثی عوامی سطح کے علاوہ امراء و نوابین کے ایوانوں میں بکثرت ہوا کرتی تھیں  ۔ چنانچہ نواب تراب یار جنگ بہادر ، کمال یار جنگ بہادر ، شوکت جنگ بہادر ، عنایت جنگ بہادر ، ثریار جنگ بہادر وغیرہ کے یہاں تمام متذکرہ اصناف کی محافل ہوا کرتی تھیں ۔ جس میں اس وقت کے اساتذہ کرام اپنی دیگر تخلیقات و مراثی پیش کیا کرتے تھے ۔ محافل سراپا تہذیب و ادب کی درسگاہ ہوا کرتی تھیں جس میں شعراء و سامعین تہذیب و ادب کی مثال ہوتے تھے ۔ کیا مجال کہ کوئی نوجوان کسی شاعر کے شعر پر داد سخن دینے کی جرات بھی کرے اور بالکل اسی طرح کوئی شاعر بھی داد سخن پانے کیلئے آداب و تہذیب محفل سے سرموروگردانی بھی کرے ۔ اکثر شعراء تحت اللفظ ہی شعر سنایا کرتے ۔ خوش گلو مترنم شعراء بھی ہوا کرتے تھے جو اپنے پراثر کلام کے علاوہ اپنے مخصوص ترنم و آواز سے سماں باندھ دیا کرتے تھے  ۔ لیکن گلے بازی سے گریز کیا کرتے تھے ۔ اسی طرح سوزخوان و مرثیہ خواں حضرات بھی مراثی انیس و دبیر سے منتخب مبکی بند کو دور قطب شاہی کے فن موسیقی کے مشہور استاد خوش حال خاں کی ترتیب دی ہوئی انتہائی انگیز طرزوں پر مجالس عزاداری میں پیش کرتے ہوئے گریہ وزاری کا سماں پیدا کردیتے تھے ، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ان مجالس عزاداری میں بیرونی ذاکرین و شعراء کی آمد کا سلسلہ بھی محبوب علی خاں ہی کے دور سے ہے ، چنانچہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ مرزا فیاض علی خاں کے یہاں مرزا اوج فرزند مرزا دبیر اپنے نو تصنیف مراثی تحت اللفظ میں پڑھتے تھے اور ان مجالس میں محبوب علی خاں بھی شرکت کیا کرتے تھے ۔ 1870ء میں نواب تہور جنگ بہادر کی دعوت پر میر انیس حیدرآباد دکن تشریف لائے تھے اور مرثیہ بھی سنایا تھا ، مرثیہ کے فارم اور اجزائے ترکیبی کے ایک سوال پر حضرت حامی  نے کہا کہ زمانہ قدیم میں مرثیہ دو بیتی مربع ، مثلث اور مخمس کے فارم میں بھی رائج تھا ۔ مرثیہ کو مسدس کی شکل میں سب سے پہلے سودا نے متعارف کیا ۔ مرثیہ کی ہیئت و فارم یکساں نہیں رہی ۔ اختیار کے زیر اثر رہی مثلاً غالب نے عارف کے مرثیے میں غزل کا فارم اپنایا تو حالی نے غالب کا مرثیہ ترکیب بند میں لکھا اور اقبال نے اپنی والدہ کا مرثیہ مثنوی کے انداز میں لکھا لیکن انیس و دبیر کے مرثیوں کی مقبولیت سے مرثیے کو مسدس کے فارم سے مخصوص سمجھا جانے لگا ۔ ضمیر نے موجودہ مرثیہ کے اجزائے ترکیبی وضع کئے جو آج بھی اسی طرح رائج ہیں ۔ (۱)چہرہ (۲)سراپا (۳)رخصت (۴)آمد (۵)رجز (۶) رزم (۷)شہادت اور (۸)بین ۔
صنف مرثیہ کی اہمیت اور مستقبل کے تعلق سے حضرت حامی نے کہا کہ مرثیہ کی اہمیت کیلئے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ جب تک دنیا میں انسانی اقدار ، رشتوں اور جذبات کا احساس باقی رہے گا ۔ مرثیے کی قدر و اہمیت باقی رہے گی اور پھر کربلا تو اپنی آفاقیت میں انسانی اقدار ، رشتوں اور جذبات کے تحفظ کی ضامن تھی ، ہے اور رہے گی  ۔ مرثیے کی تہذیبی ، تمدنی اہمیت کے علاوہ اس کی ادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ مرثیے کی مقبولیت کا راز جہاں مذہبی وابستگی میں ہے ، وہیں تہذیبی ، اخلاقی اور ادبی محاسن میں مضمر ہے ۔ اس کی مقبولیت کے اسباب میں جذبات اور مذہبی نوعیت بہت نمایاں ہیں  ۔ انیس و دبیر نے اسے اپنی تخلیقی صلاحیت سے وہ اعلی مقام عطا کیا ہے جس کی نظیر عالمی ادب میں نہیں ملتی ۔ مرثیے کے مستقبل کیلئے ہمیں اپنے اسلاف کے ورثے کا تحفظ کرتے ہوئے مرثیے میں جدید موضوعات کو فن مرثیہ کے رموز و نکات کے ساتھ شامل کرتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہئے ۔ جیسا کہ جوش ، آل رضا ، جمیل مظہری  ، نجم آفندی ، ناصر زیدپوری ، ڈاکٹر وحید اختر ، باقر امانت خوانی ، قیصر بارہوی اور محسن نقوی وغیرہ نے روایتی مرثیے میں عصری مسائل و اصلاح معاشرہ کو شامل کرکے مرثیے کی صنف میں فکر و آگہی کے نئے زاویے پیدا کئے ۔ اس دور میں رثائیت  پر اتنا زور نہیں ہے جتنا پیغام حسین کی عظمت و وضاحت پر ہے ۔ اب مرثیہ قلب و نظر اور فکر و عمل کو حوصلہ و عزم بخشنے اور جہاد زندگانی میں کربلا کی عطا کردہ بصیرت سے کام لینے کا نام ہے ۔ فن مرثیہ اکیسویں صدی کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا مستقبل روشن و تابناک ہے ۔ جیسا کہ قیصر بارہوی نے مرثیے کی عظمت و فن پر کہا ہے ۔
پڑھ لیجئے عبارت ایوانِ مرثیہ
تزئین قصر علم ہیں ارکان مرثیہ
قائل ہوئے صفات نگاران مرثیہ
صورت گرِ ادب ہے دبستان مرثیہ
بے داغ زندگی کی طلب مرثیے میں ہے
انسانیت کا سارا ادب مرثیے میں ہے