مراٹھا برادری کو بھی ریزرویشن

یوں سمجھ لیجئے کہ کانٹوں سے گزرنا ہے اُسے
جب کسی بھی شخصیت پر پھول برسائے گئے
مراٹھا برادری کو بھی ریزرویشن
اب مہاراشٹرا میں مراٹھا برادری کو بھی ریزریشن ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ مہاراشٹرا اسمبلی میںایک قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے مراٹھا برادری کو تعلیم اور ملازمتوںمیں 16 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اسمبلی میں نہ صرف برسر اقتدار جماعتوں کے ارکان نے بلکہ تمام اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے بھی متفقہ طور پر مراٹھا براردری کو ریزرویشن فراہم کرنے کے بل کی حمایت کی ہے ۔ مہاراشٹرا میںفرنویس حکومت نے بھی بی سی کمیشن قائم کرتے ہوئے مراٹھا برادری کیلئے تحفظات کے حق میں رپورٹ حاصل کی تھی ۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر اسمبلی میں بل کو منظوری دی گئی ہے اور اب اسے مرکز کے پاس منظوری کیلئے روانہ کیا جائیگا اور یہ صد فیصد یقین ہے کہ اس بل کو مرکز کی منظوری بھی حاصل ہوجائیگی ۔ مراٹھا طبقہ مہاراشٹرا کی آبادی میں جملہ 30 فیصد حصہ رکھتا ہے اور اس طبقہ کی جانب سے تحفظات کیلئے تحریک چلائی جا رہی تھی ۔ جاریہ سال جولائی اور اگسٹ میںاس کیلئے مہاراشٹرا میں جو احتجاج شروع کیا گیا تھا وہ پرتشدد موڑ بھی اختیار کرگیا تھا ۔ اس کے بعد حکومت کو حرکت میںآنا پڑا اور اس نے بی سی کمیشن قائم کرتے ہوئے اس مطالبہ کی تائید میں رپورٹ حاصل کی اور اسی رپورٹ کی بنیاد پر اسمبلی میں بل پیش کیا گیا اورا سے بالآخر منظوری دلادی گئی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ملک بھر میں مختلف طبقات کی جانب سے تحفظات کیلئے مطالبات میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ ہر برادری اپنے لئے تحفظات چاہتی ہے اور حکومتیں اور سیاسی جماعتیں راست یا بالواسطہ طور پر ان مطالبات کی تائید بھی کرتی جار ہی ہیں۔ تاہم صرف مسلمان اس ملک میںایسے ہیںجنہیںتحفظات فراہم کرنے کے معاملہ میں ہر طرح کی رکاوٹیںپیدا کی جا رہی ہیں۔ اس کی مذہب کی بنیاد پر مخالفت کی جار ہی ہے اور نت نئے بہانے اختیار کرتے ہوئے اگر کہیں دکھاوے کیلئے تحفظات دئے بھی جاتے ہیں تو انہیں عدالتی کشاکش کا شکار کرکے روکا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ واضح ہوگیا ہے کہ ہر جماعت مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہے لیکن انہیں ان کا حق دینے کیلئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔
راجستھان وغیرہ میں گجر برادری کیلئے تحفظات کی تحریک اپنا اثر رکھتی ہے ‘ مہاراشٹرا میں مراٹھوں نے اپنا حق حاصل کرلیا ہے ۔ گجرات میں پاٹیداری طبقہ کی جانب سے سماج میں بااثر ہونے کے باوجود تحفظات کے مطالبات کئے جا رہے ہیں اور مسلمان اس ملک میںانتہائی پسماندہ ترین قوم ہونے کے باوجود انہیں تحفظات سے محروم کیاجار ہا ہے ۔ ان کے رہے سہے حقوق کو بھی تلف کیا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی دکھاکر وعدے تو ضرور کرتی ہے لیکن تحفظات کے معاملہ میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔ صرف متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس نے چار فیصد تحفظات فراہم کرنے میں سنجیدگی دکھائی تھی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ٹی آر ایس نے تلنگانہ میں12 فیصدتحفظات کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ بھی محض وعدہ ثابت ہوا اور کوئی عمل آوری نہیں ہوئی ۔ حد سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کے ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندوں نے تحفظات کے مطالبہ کوکہیں پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرلی ۔ کسی وقت میںتحفظات نہیں تو ووٹ نہیں کا نعرہ دینے والے اب تحفظات کو چھوڑ کر چیف منسٹر اور برسر اقتدار جماعت کی چاپلوسی کرنے میں جٹ گئے ہیں اور اضلاع کے دورے کرتے ہوئے اس کے حق میںمہم بھی چلا رہے ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تلنگانہ ہو یا ملک کی اور ریاستیں ہوں مسلمانوں نے سبھی جماعتوںپر بھروسہ کرکے دیکھ لیا ہے اور ان کے ہاتھ سوائے خالی وعدوں کے کچھ نہیں آیا ۔ مسلمانوں کو حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر ان لوگوں کے حقیقی چہروں کو پرکھنے کی ضرورت ہے جو دعوی تو مسلمانوں کی ہمدردی کا کرتے ہیں لیکن مفادات انہیں صرف ذاتی عزیز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو حکومتیں مسلمانوںکو تحفظات نہیںدیتیں ان سے اپنے لئے سرکاری اراضیات حاصل کرلی جاتی ہیں اور پھر حکومتوں کے گیت گائے جاتے ہیں۔ سارے ملک میںمسلمانوںکو مراٹھا تحفظات سے سبق حاصل کرنے اور اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک مسلمان خود متحد ہوکر اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیںکرینگے اس وقت تک انہیں ان کاحق ملنا مشکل ہوگا بلکہ نا ممکن بھی ہوگا ۔