گجرات …مودی پر راہول کا خوف
ایودھیا… روی شنکر کس کے ایجنٹ
رشیدالدین
گجرات میں رائے دہی کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے نریندر مودی اور امیت شاہ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگی ہیں۔ یہ وہ قائدین ہیں جن کے نزدیک گجرات ایک ریاست نہیں بلکہ ان کی جاگیر ہے۔ گجرات کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کے دونوں دعویدار اب عوام کے دل سے اترنے لگے ہیں۔ جس ریاست نے انہیں قومی منظر تک پہنچایا، بدلہ میں اسے کیا ملا۔ صرف وعدے اور جی ایس ٹی۔ گجرات جو بنیادی طور پر ایک بزنس اسٹیٹ ہے، وہاں کی تاجر برادری کو کاروبار میں ترقی کے بجائے خسارہ ملا۔ گجرات چھوڑ کر دہلی جانے کے بعد مودی اور امیت شاہ جوڑی کیلئے گجرات کے عوام جیسے اجنبی بن گئے۔ محمد بن تغلق کے بعد کرنسی منسوب کرنے والے مودی دوسرے حکمراں بن گئے۔ تغلق کی طرح مودی بھی کہیں چمڑے کے سکے رائج نہ کردیں۔ 2014 ء میں انتخابی جملوں اور بولیوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بولیاں بے اثر ہونے لگی ہیں۔ عوام کی ناراضگی ایک طرف تو دوسری طرف راہول گاندھی۔ یہ دونوں بی جے پی کی راہ میں اہم رکاوٹ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ جادو ہی کیا جو سر چڑھ کر نہ بولے لیکن یہ ہر کسی کیلئے ممکن نہیں ہوسکتا۔ ملک میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسی مقبول شخصیتوں کی حکومتوںکو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی اگر یہ تصور کرتی ہے کہ مودی کا جادو عوام پر ابھی بھی برقرار ہے تو گجرات کے نتائج اس غلط فہمی کو دور کردیں گے ۔ گجرات کے رائے دہندے یہ طئے کریں گے کہ مودی کے جادو کا اثر خود ان کی ریاست میں کس حد تک باقی ہے۔ گجرات کے انتخابی عمل میں مودی۔امیت شاہ جوڑی جس طرح متحرک ہوچکی ہے ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ راہول گاندھی کا خوف ان کی نفسیات پر طاری ہوچکا ہے
اور ان کے لئے کانگریس کے یوراج غیر متوقع حریف ثابت ہوئے ہیں۔ جن کے ایک اشارہ پر گجرات میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی ، آج وہی افراد اپنوں کی بیگانگی کا شکوہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی نے راہول گاندھی کے بارے میں غلط اندازے قائم کئے تھے۔ جس وقت راہول نے سیاست میں قدم رکھا فطری طور پر وہ سیاسی داؤ پیچ اور سیاسی جملوں اور بولیوں سے آشنا نہیں تھے۔ انہیں یقیناً سیاست میں نو وارد کہا جاسکتا تھا لیکن جس گھرانے میں انہوں نے آنکھ کھولی وہ ملک کا ٹاپ سیاسی گھرانہ ہے۔ اس گھرانہ کی ملک کیلئے قربانیوں کے سبب دلوں میں احترام ہے۔ ظاہر ہے کہ مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا۔ ہاں اسے بڑی مچھلیوں کا شکار بننے سے بچنے کی مہارت حاصل کرنے وقت ضرور لگتا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ راہول گاندھی کے ساتھ ہے۔ سیاست کے میدان میں تلخ تجربات اور مشاہدات نے انہیں کندن بنادیا ہے۔اب تو وہ انتخابی بولیاں ادا کرنے کا فن سیکھ چکے ہیں۔ اسٹیشن پر چائے فروخت کرنے والا شخص سیاسی داؤ پیچ سیکھ کر جب وزارت عظمیٰ تک پہنچ سکتا ہے ، یہ تو استادی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ جمہوریت کی یہ خوبی اور خصوصیت ہے کہ عام شہری ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ ترقی کی منزلیں طئے کرسکتا ہے۔ راہول گاندھی جو سیاست میں ناتجربہ کار تھے تو انہیں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ کسی نے امول بے بی کہا تو کسی نے پپو کے خطاب سے نوازا۔ آج وہی ناتجربہ کار نوجوان بی جے پی پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔ بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے شخصی حملوں کا آغاز کردیا ہے لیکن یہ حکمت عملی خود بی جے پی کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگی۔ گجرات میں بی جے پی نے پوسٹرس میں راہول گاندھی سے متعلق قابل اعتراض ریمارکس شامل کئے تھے جس پر الیکشن کمیشن نے اعتراض جتایا۔ بی جے پی کو آخر کار اپنے اشتہاری مواد سے لفظ پپو کو حذف کرنا پڑا جبکہ الیکشن کمیشن نے لفظ یوراج کی برقراری کی اجازت دی۔ بات جب یوراج کی چل پڑی ہے تو ہمیں بی جے پی کے یوراج یاد آگئے ۔ قارئین شائد یہ سمجھ رہے ہوں کہ مودی اور امیت شاہ میں سے کسی ایک کو ہم یوراج کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ ملک پر راج ضرور کر رہے ہیں لیکن عمر کے اس حصہ میں یوراج نہیں بن سکتے۔
ہماری مراد امیت شاہ کے فرزند جئے شاہ سے ہے جو حالیہ دنوں تک میڈیا کی سرخیوں میں چھائے رہے۔ نوٹ بندی کے بعد جئے شاہ کی کمپنی کے کاروبار میں زبردست اضافہ ہوا تھا اور یہ میڈیا میں ایک اسکام کی شکل میں منظر عام پر آیا ۔ بی جے پی ایک یوراج کے پیچھے پڑ چکی ہے لیکن اپنے یوراج کا تحفظ کر رہی ہے۔ اگر جئے شاہ پر الزامات غلط ہوں تو پھر حکومت کو تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے حقائق کو عوام کے درمیان پیش کرنا چاہئے ۔ امیت شاہ کے یوراج کے اسکام پر حکومت ، پارٹی اور میڈیا میں سناٹا ہے۔ اگر یہی کسی اپوزیشن لیڈر اور خاص طور پر کسی کانگریسی قائد کے یوراج ہوتے تو میڈیا خود تحقیقاتی ایجنسی اور عدالت کا رول ادا کرتے ہوئے سزا بھی سنادیتا۔ الغرض الیکشن کمیشن نے بی جے پی کے دباؤ کو قبول کئے بغیر اپنے آزادانہ اور غیر جانبدار ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ راہول گاندھی اب ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستداں کی طرح قدم اٹھا رہے ہیں۔ بہترین بولیوں کے ساتھ عوام کو متاثر کرنے والی تقریر بھی وہ سیکھ چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم ایک ریاست کی انتخابی مہم سے دور رہتے لیکن گجرات میں مودی وزیراعظم نہیں بلکہ چیف منسٹر کی طرح مہم چلا رہے ہیں۔ اگر عوام کا رجحان مخالف بی جے پی دکھائی دے تو کوئی عجب نہیں کہ وہ دوبارہ گجرات کے چیف منسٹر کے عہدہ پر واپسی کا اعلان کرسکتے ہیں تاکہ آبائی ریاست کے عوام کی خدمت کی جاسکے۔ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی مہم کی حکمت عملی تک مودی۔امیت شاہ جوڑی کی بات حرف آخر ہے ۔ اس طرح گجرات میں مودی۔امیت شاہ کا وقار داؤ پر ہے۔
بی جے پی نے گجرات میں کامیابی کیلئے مختلف حربے اختیار کئے ہیں۔ ایک طرف رائے دہندوں کو لبھانے کیلئے جی ایس ٹی میں کمی کا اعلان کیا گیا تو دوسری طرف مسلم آبادیوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے مکانات پر زعفرانی رنگ کے نشان لگائے گئے۔ یہ نشان 2002 ء گجرات فسادات کی طرز پر تھے جبکہ مسلم خاندانوں کو نشانہ بنانے کیلئے اسی طرح کے نشان لگائے گئے تھے ۔ جی ایس ٹی میں کمی کے باوجود عوام اور تاجروں کی ناراضگی میں کوئی کمی دکھائی نہیں دی اور یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں بی جے پی کیلئے مصیبت بن سکتا ہے ۔
نوٹ بندی فیصلے سے بی جے پی کسی طرح ابھرنے میں کامیاب ہوئی لیکن جی ایس ٹی کے مسئلہ پر عوامی ناراضگی سے بچنا آسان نہیں ہے ۔ گجرات میں مخالف لہر کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو کانگریس سے دور کرنے کی سازش تیار کی گئی اور مکانات پر نشان لگائے گئے۔ مقامی بلدیہ کی جانب سے اگرچہ اس سلسلہ میں وضاحت جاری کی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کے مکانات کو ہی سوچھ بھارت کیلئے منتخب کیوں کیا گیا؟ دراصل یہ خوف و دہشت کاماحول پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ بی جے پی نے راہول گاندھی کے خلاف جس طرح جارحانہ اور نچلی سطح کی مہم کا آغاز کیا ہے ، اس سے مبصرین کا خیال ہے کہ ہماچل پردیش میں بی جے پی پرامید نہیں۔ نریندر مودی کا جادو شاید ہماچل پردیش میں نہیں چلا جس کے باعث اپنے گھر کو بچانے کیلئے مکمل طاقت جھونک دی گئی ہے۔ انتخابی ماحول میں ایودھیا تنازعہ کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بے وقت کی راگنی کی طرح روی شنکر اور ان کے ہمنوا تنازعہ کی یکسوئی کے نام پر ہم خیال افراد اور تنظیموں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔ روی شنکر سے کوئی یہ سوال کرے کہ آخر کس نے ان سے اس بات کی خواہش کی تھی کہ تنازعہ کی یکسوئی کی مساعی کریں۔ کسی بھی فریق نے روی شنکر کو یہ ذمہ داری نہیں دی، پھر کس کے اشارہ پر وہ میدان میں کود پڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے سوا کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ روی شنکر سابق میں بھی اس طرح کی ناکام مساعی کرچکے ہیں۔ انہیں دوبارہ میدان میں لانے کا مقصد رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنا ہے۔ روی شنکر اگرچہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس فارمولہ نہیں ہے لیکن ان کے ایک مشیر نے میڈیا کے روبرو فارمولہ کا انکشاف کیا جس کے مطابق موجودہ مورتی کے مقام پر مندر تعمیر کی جائے گی اور قریبی علاقہ میں مسجد کی تعمیر کی تجویز ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی فارمولہ نہیں ہے تو پھر مذاکرات کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔ ایودھیا تنازعہ کے اہم فریقین نے سری روی شنکر کی مساعی کو مسترد کردیا اور اترپردیش حکومت کے چند آلۂ کار ان کے اطراف دکھائی دے رہے ہیں۔ نرموہی اکھاڑہ نے وشوا ہندو پریشد پر رام مندر کے نام پر 1400 کروڑ کے غبن کا الزام عائد کیا ہے ۔ بعض مسلم قائدین اور تنظیمیں بار بار سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے کے بیانات جاری کر رہی ہیں۔ شائد وہ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر عدالت کے فیصلے کی تلخ حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی پرسنل لا بورڈ نے عدالت کے فیصلہ کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا اور فیصلہ آخر کار شریعت کے خلاف آیا۔ مسجد کے معاملہ میں مسلمانوں کا اٹوٹ عقیدہ اور ایمان یہ ہونا چاہئے کہ مسجد جو اللہ کا گھر ہے ، صبح قیامت تک مسجد برقرار رہے گی اور اس معاملہ میں کسی عدالت یا حکومت کو رائے زنی کا اختیار نہیں ہوسکتا۔ ملک میں مسلمانوں کو اس قدر سنگین مسائل درپیش ہیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس روزانہ کی بنیاد پر منعقد کیا جانا چاہئے لیکن بورڈ نے فروری میں اجلاس کا فیصلہ کیا۔ کیا آئندہ دو ماہ تک مسلمانوںکی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے ؟ مسائل کی بنیاد پر اجلاس کے بجائے موسمی حالات اور بہتر میزبانی کی اساس پر اجلاس کی طلبی مسلمانوں کو مایوس کرسکتی ہے۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں اُن کو کام دو
ایک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے