ظفر آغا
ذرا غور فرمایئے کہ نام نہاد جہادیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی دنیا بھر میں کیا درگت بنادی ؟ اسکا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے جو ابھی چند روز قبل آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں پیش آیا اور جس کی رپورٹ دنیا کے سارے اخبارات کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ٹائمز آف انڈیا کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ آسٹریلیا کے مشہور شہر سڈنی میں دو مسلمان جن کا نام حفیظ احمد اور خالدہ حفیظ تھا ، شہر کی ایک لوکل ٹرین پر سفر کررہے تھے ۔ سفر کے دوران ان کے قریب ہی ایک آسٹریلیائی عورت بیٹھی ہوئی تھی جس کی نگاہ یکایک خالدہ حفیظ پر پڑگئی جو برقعہ میں تھیں ۔ بس اس آسٹریلیائی عورت کونہ جانے کیا ہوا کہ وہ بڑبڑانے لگی ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس عورت نے خاصی بلند آواز میں کہنا شروع کردیا ’’دنیا بھر میں ان مسلمانوں کی وجہ سے لوگ مارے جارہے ہیں ۔ ذرا اخبار پڑھو ان لوگوں (مسلمانوں) نے دنیا بھر میں کیا آفت مچارکھی ہے… (غرض اس آسٹریلیائی عورت نے ایک مسلمان عورت کو دیکھ کر ہنگامہ برپا کردیا) اور وہ دونوں مسلمان خاموشی سے سفر کرتے رہے ۔ بیچارے اور کرتے بھی کیا ۔ کیونکہ جیسا اس آسٹریلیائی عورت نے کہا کہ آئے دن اخبار ایسی خبروں سے بھرے رہتے ہیں کہ جہادیوں نے معصوموں کے گلے کاٹ دئے ، طالبان کے بم دھماکوں سے درجنوں افراد ہلاک ہوگئے یا بوکوحرم لڑکیوں کو اغوا کرگئے ۔ ظاہر ہے کہ ان خبروں کو پڑھنے کے بعد ایک اس شخص کے ذہن میں جس کو اسلام کے بارے میں صحیح علم نہیں ہے یہی خیال آئے گا کہ نعوذ باللہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے اور سارے مسلمان بے رحم ہوتے ہیں ۔
تب ہی تو اس آسٹریلیائی عورت نے برقعے میں ایک عورت کو دیکھ کر بے تحاشہ بڑبڑانا شروع کردیا ۔یوں تو ہم اس عورت کی جس قدر ملامت کریں کم ہے کیونکہ اس کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کے مذہب پر انگلی اٹھائے لیکن بطور مسلمان ہم کو یہ سوال تو کرنا ہی ہوگا کہ آخر اسلام اور مسلمانوں کی یہ درگت کس نے بنائی کہ لوگوں کو ہر مسلمان دہشت گرد نظر آنے لگا ؟ کیا اس نوبت کے لئے جہادی مسلمان ذمہ داری نہیں ہیں ؟ اگر کوئی غیر مسلم انٹرنیٹ پر ایک ایسا ویڈیو دیکھے جس میں نعرہ تکبیر کی صدا کے ساتھ بے گناہوں کے گلے جانوروں کی طرح کاٹے جارہے ہوں تو کیا وہ سارے مسلمانوں کو وحشی اور دہشت گرد نہیں سمجھنے لگے گا ؟ اس طرح یہ خبر پڑھ کر کہ اسلام کے نام پر بوکوحرم کے لوگ نوجوان لڑکیوں کو اس لئے اغوا کرکے لئے گئے کہ وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کررہی تھیں ، کیا کسی بھی شخص کا خون نہیں کھولے گا ؟یا پھر جس طرح افغانستان اور پاکستان میں طالبان روز بھرے بازار اور حد یہ ہے کہ مسجد کے اندر لوگوں پر گولیاں برسا کر معصوموں کو ماردیتے ہیں ، اس سے غیروں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا وہی تصور نہیں پیدا ہوسکتا ہے جو آسٹریلیائی عورت کا تھا؟
لب لباب یہ ہیکہ اس اکیسویں صدی میں ایک گروہ کی دہشت اور دہشت گردی اسلام کے لئے ایک لعنت اور مسلمانوں کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ سوائے ایک ہندوستان کے کم و بیش تمام عالم اسلام میں نام نہاد جہادیوں کے خلاف کوئی بلند آواز نہیں ہے ۔ مسلم حکومتیں ان گروپوں پر ضرور لعنت بھیجتی ہیں لیکن عوامی سطح پر ایسے گروپس کے خلاف خود مسلم معاشرے میں جو جد وجہد ہونی چاہئے وہ کہیں نظر نہیں آتی ہے ۔ اس کے بجائے زیادہ عرب ٹی وی اسٹیشنوں پر ایسے چینل چل رہے ہیں جن پر جہاد کی دعوت دی جاتی ہے اور جہادیوں کی ثنا خوانی ہوتی ہے ۔ پھر وہ طالبان ہوں یا داعش یا پھر بوکوحرم ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آرہی ہے کہ وہ ہتھیار خریدیں اور اپنی تحریک چلائیں ۔ اب یہ بات منظر عام پر آچکی ہے کہ دولت مند افراد جہادیوں کی فنڈنگ کرتے ہیں ۔ آخر ایسے لوگوں پر یہ کرم کیوں ؟ وہ افراد جنہوں نے اسلام کو دہشت کا رنگ دے دیا ہے ان کی امداد کرنا کیا سراسر خود اسلام کو بدنام کرنا نہیں ہے ۔ اس سوال کا جواب راقم الحروف کی ذاتی رائے میں تو یہی ہے کہ جو بھی نام نہاد جہادیوں کی مدد کرے وہ اسلام دشمن ہے ،خواہ وہ پاکستان جیسی حکومتیں ہوں یا وہ کوئی فرد ہو ۔
اب یہ وقت نہیں کہ ان انتہا پسندوں کو سر پر بٹھایا جائے ۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان کے خلاف خود مسلم معاشرے اور مسلم ممالک میں ہر سطح پر جد وجہد ہونی چاہئے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نام نہاد جہادی سیاست ایک نظریاتی سیاست بن چکی ہے جس کی اپیل مسلم نوجوانوں میں بڑھتی جارہی ہے ۔ اس لئے سب سے پہلے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف ایک زبردست جذباتی جنگ چھیڑنی ہوگی ۔ لیکن یہ جذباتی جنگ کس سطح پر ہوسکتی ہے ؟ دراصل انتہا پسندوں نے مسجد ، منبر اور مدارس اپنے قبضے میں کرلئے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہا پسندوں کا مسجد ، منبر اور مدارس پر سے قبضہ ختم کروانا چاہئے ۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ایسے مدارس اور مساجد کی فنڈنگ روک دی جائے جو کہ جہاد کا پروپگنڈہ کرتے ہیں ۔ ہر جگہ ایسے خطیب ، معلم پیش امام کی مذمت ہونی چاہئے جو مساجد ، منبر اور مدارس کا استعمال جہاد کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے کررہے ہیں ۔
نام نہاد جہادیوں کا دوسرا سب سے اہم ہتھیار انٹرنیٹ بن چکا ہے ۔ اس دور میں انٹرنیٹ سے سستا اور چوبیس گھنٹے کام آنے والا پلیٹ فارم اور کوئی دوسرا نہیں ہے ۔ چوبیس گھنٹے انٹرنیٹ کے ذریعہ اپنی ویب سائٹ پر جو چاہئے اپ لوڈ کیجئے کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔ تب ہی تو داعش والے کسی کی گردن کاٹتے ہیں تو فوراً اسکا ویڈیو یوٹیوب پر پوسٹ کردیتے ہیں اور منٹوں میں ساری دنیا میں شور مچ جاتا ہے ۔ الغرض انتہا پسندوں نے دنیا کی سب سے تیز رفتار اور تازہ ترین انٹرنیٹ ٹکنالوجی کو اپنے قبضے میں کرلیا ہے جو کہ دور حاضر کا سب سے کارگر ممبر ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ جو حکومتیں یا افراد نام نہاد جہادیوں کی مخالفت کررہی ہیں وہ بھی انٹرنیٹ کا استعمال جہادیوں کے خلاف کریں ۔ حکومتوں اور جہادی مخالف افراد کی جانب سے بڑے پیمانے پر مخالف انتہا پسندی ویب سائٹ کی شروعات ہونی چاہئے ۔ جس کا مقصد لوگوں میں جہاد مخالف جذبات پیدا کرنا ہو ۔ یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے لیکن اس کام میں مسلم حکومتوں کو پہل کرنی چاہئے اور جہاد مخالف مسلم این جی اوز کی مدد کرنی چاہئے ۔
مذہبی انتہا پسند سیاست نے اسلام اور مسلمانوں کو اس موڑ پر پہنچادیا ہے جہاں لوگ مسلمانوں کو دیکھ کر نعوذ باللہ اسلام کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں جیسا کہ ابھی آسٹریلیا میں ہوا ۔ اس لئے اب خود مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کو جہادیوں کے چنگل سے بچائیں تاکہ اسلام کے خلاف دنیا بھر میں جو غلط خیالات پیدا ہورہے ہیں اس پر روک لگائی جاسکے ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اسلام اور مسلمان دونوں واقعی خطرے میں پڑجائیں گے ۔