مدھیہ پردیش کے انتخابات دیہات شہر کی تقسیم پر زیادہ ہوں گے

راج دیپ سردیسائی
’’بائی پولار ‘‘ ریاست میں یہ انتخابات روایتی بی جے پی اور کانگریس کی جنگ نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہیکہ کیا مدھیہ پردیش کے انتخابات 2018 کا ’’ گجرات 2017‘‘ کے حالات کو دہرائیں گے ؟
ایک ایسے دور میں جبکہ انتخابات بھی ’’ ٹی 20‘ اسٹائل میں ہورہے ہیں یعنی اپنی رائے کا فوری اظہار ، شوٹ اور اسکوٹ پولس اور پیراشوٹ رپورٹنگ کی وجہ سے ہندوستان میں انتخابات کے نتائج کا اندازہ کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ ہندوستان میں انتخابات میں بہت زیادہ مقابلہ کا عنصر زیادہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے انتخابی نتائج کی پیش قیاسی بھی نہایت ہی مشکل ہوگئی ہے ۔ مذکورہ وجوہات کے مدنظر میں ( یعنی مصنف) مدھیہ پردیش کے مالوہ ۔ نیمار بیلٹ کیلئے تجویز دوں گا کہ رقبہ کے اعتبار سے ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ریاست مدھیہ پردیش میں ’’ ہوا ‘‘ کدھر چل رہی ہے لیکن یہ ضرور کرسکتا ہوں کہ ایک واضح تصویر پیش کرسکتا ہوں کہ جس سے نتائج واضح ہوں ، جس سے اصل زمینی حقائق غیر متعلق نہ ہوں ۔ ہر ایک انتخابی خطاب میں راہول گاندھی ’’ رافیل معاملت ‘‘ پر بات کرتے ہیں اور یہ بھی کہ کس طرح وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے کرپشن کیا اور وہ کس طرح طشت از بام ہوا ۔ جہاں جہاں بھی میں نے سفر کیا ، ’’ رافیل معاملت ‘‘ کے بارے میں عوام کی جانکاری نہ کے برابر تھی بلکہ ایک موقع پر لیجنڈری گلوکار کشور کمار کے پیدائشی وطن کھنڈوا میں ایک بس اسٹیشن پر ایک شخص نے مجھ سے یہ استفسار کیا کہ آیا رافیل کس ’’ جنگلی چڑیا ‘‘ کا نام ہے ۔ ایک حالیہ ٹریکر پول میں اس حقیقت کو پیش کیا گیا کہ 75فیصد رائے دہندوں نے ’’ رافیل ‘‘ کے بارے میں کبھی بھی نہیں سنا ۔ بی جے پی قیادت نے وہی روایتی جذباتی مسائل رام مندر اور گاؤ رکھشا کو ابھارا ہے ۔ میں ، ایک مرتبہ مہا کالیشورم مندر کے باہر بیٹھا ہوا تھا جو اجین میں واقع ہے جسے ’’ مندروں کا شہر ‘‘ کہا جاتا ہے ، وہاں کچھ ’’ شیوبھگت ‘‘ بیٹھے ہوئے تھے جو بالکل پہلی بار ووٹ دینے والے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ہمیں مزید مندروں کی یا گاؤ شالہ کی ضرورت نہیں ہے اور نہ مجسموں یا پتلوں کی بلکہ ہمیں ملازمتوں ، نوکریوں اور روزگار کی ضرورت ہے ۔ آپ حکومت سے نمائندگی کیجئے کہ وہ ہماری ’’ ملوں ‘‘ کا دوبارہ احیاء کرے اور ہمیں مناسب روزگار دستیاب کروائے ۔ ان بھگتوں نے ایک آواز میں یہ جملے کہے ۔
واضح رہے کہ مندروں کے شہر ’’ اُجین ‘‘ میں زائد از دو دہوں سے یعنی بیس سال سے زائد عرصہ سے ’’ ملیں ‘‘ بند پڑی ہوئی ہیں ۔ درحقیقت یہ ہندو مسلم والا معاملہ نہیں ہے بلکہ شہری ، دیہاتی تقسیم والا معاملہ ہے جو سیاسی انداز میں یہ معاملہ آگے بڑھ رہا ہے ۔ اندور میں بڑے بڑے ہورڈنگس آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ مالوہ کا مین سٹی ، سوچھ بھارت ابھیان مہم میں مسلسل دو سال تک ’’ نہایت صاف ستھرا شہر ‘‘ کا ایوارڈ حاصل کرچکا ہے اور وہاں اس بات کا جوش و خروش بھی ہے کہ مسلسل تیسرے سال بھی ایوارڈ جیت کر Hat Trick منائیں ۔ تاہم حیرت ناک امر یہ ہے کہ یہاں سے صرف 200کلومیٹر دوری پر واقع منڈسور دیہات میں پولیس فائرنگ میں گذشتہ جون کو 5 کسان ہلاک ہوگئے تھے ۔ یاد رہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا جھگڑا ہوا تھا جبکہ ہم نے ایک ایسا مسئلہ چھیڑا تھا جو ’’ منیمم سپورٹ پرائز ‘‘ پر مشتمل تھا جو ان مہلوک کسانوں کے بشمول اٹھایا تھا ۔ ’’ سب پیسے ٹریڈرس کھاگئے سر ! کسان کیلئے کچھ نہیں کرتا ( وہ کیا کھائے اور کیسے اپنی زندگی گزارے ) ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ کسانوں کا یہ غصہ چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف نہیں تھا بلکہ مقامی قیادت کے خلاف تھا ۔ اسے سمجھنے کیلئے یہی کافی ہے کہ بی جے پی نے اپنے 53اراکین اسمبلی کو وہاں سے ہٹاتے ہوئے یہ تعداد صرف 7 کردی اور ان کی نشستوں میں تغیر کردیا ۔
چیف منسٹر چوہان ایک نہایت ہی دلچسپ سیاسی مزاج رکھتے ہیں ، وہ مسلسل 13 برسوں سے وہاں بحیثیت چیف منسٹر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی ہندی زبان والی ریاست میں ان کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ آج کے اس دور میں جبکہ نیتا ( لیڈر) کا مطلب بھاری توند والا ، نہایت طاقتور موٹا آدمی ہوتا ہے ، وہ نہایت ہی خوش مزاج سیاست داں اور ان کے اطراف دوست ہی دوست ہوں اور جنہیں ’’مدھیہ پردیش کا شیر ‘‘ نہیں بلکہ جنہیں نہایت سنجیدہ جن کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں کھلتی ، جنہیں کسان کے بیٹے کا خطاب دیا گیاہے۔
کانگریس کا چیلنج وہاں پر موجود بدنظمی کو ’’ کیش ‘‘ کرتے ہوئے وہاں کے مشہور سیاست داں کو ہٹانا اس کا خواب ہے ۔ ’’ کانگریس پارٹی ، دلہے یا تنظیم کے بغیر پارٹی ہے جو مدھیہ پردیش میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے ۔ ایک مٹھائی فروش نے یہ ریمارک کیا ۔ یہ کوئی ایسی حالت نہیں ہے ایک ایسی پارٹی کیلئے جو پارٹی میں نئے چہروں کو شامل کرتے ہوئے مدھیہ پردیش میں اپنا وجود منوانا چاہتی ہے تاکہ مجموعی قیادت کا نکتہ قوم کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔لیکن اس Bipolar ریاست میں یہ عمومی بی جے پی اور کانگریس کا ٹکراؤ نہیں ہے ۔ تقریباً ہر نشست میں حیرت انگیز طور پر آزاد امیدوار اور باقی امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوتی جاتی ہے ۔ مقامی مبصرین کے بموجب آنے والے انتخابات ’’ کانٹے کی ٹکر ‘‘ ثابت ہوں گے اور ووٹ کٹوا (Vote Cutters)کو بھی ان انتخابات میں رکھا گیا ہے تاکہ ’’ مخالف بی جے پی ووٹ ‘‘ کو منقسم کیا جاسکے ۔
کیا مدھیہ پردیش 2018ء کے انتخابات گجرات 2017ء کے حالات کو دہرائیں گے ؟ ۔ ٹی وی اسٹوڈیوز میں ہر الیکشن کو ’’ مودی بمقابلہ راہول ‘‘ کہا جارہا ہے ۔ جیسا کہ صدارتی عہدہ کا طریقہ ہے ۔ تاہم مالوہ کے گرد آلود راستہ پر اس قیادت نے زیادہ کشش والی پیشکش نہیں کی ہے ۔
آٹو پارٹس کے شاپ والے نے اندور ۔ اُجین ہائی وے پر تمام حالات پر زبردست تبصرہ کیا ۔۔ ’’ جب نوٹ بندی کے بعد اور پھر جی ایس ٹی کے نفاذ نے میرے بزنس کو بری طرح متاثر کیا ۔ اس وقت کوئی بھی بڑا لیڈر میری مدد کو نہیں آیا ‘‘ ۔ یہ بس چناؤ ( انتخابات) کے ٹائم ووٹ مانگنے آتے ہیں ۔ جب امید ، ناامیدی میں بدلتی ہے ، ہر پارٹی کو لمبے لمبے وعدے کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔