مدھیہ پردیش : اسمبلی انتخابات سے قبل کئی اعلانات

دیپک تیواری
ایک مشکل سال گذارنے کے بعد چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کو ابھی ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا کرنا باقی ہے ۔ شیوراج سنگھ چوہان بی جے پی کے قد آور قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں اور وہ تقریبا 13 سال سے ریاست کے چیف منسٹر ہیں۔ اب وہ انتخابات کا سامنا کرنے سے قبل عملاً ریاست کے عوام پر پیسے اور مراعات کی بارش کر رہے ہیں۔ وہ ساری ریاست میں دورے شروع کرچکے ہیں کیونکہ انہیں خود بھی اندازہ ہے کہ ریاست میں حکومت کے خلاف لہر پائی جاتی ہے ۔ ریاست میں ڈسمبر تک انتخابات ہونے ہیں۔
حال ہی میں بی جے پی کی وکاس یاترا کے طور پر انہوں نے ریاست کے تمام اضلاع کا دورہ کیا تاکہ اپنی ترقیاتی اسکیمات کی تشہیر کرسکیں۔ انہوں نے الیکشن کو نظر میں رکھتے ہوئے جن آشیرواد یاترا بھی شروع کی ہے جو ریاست کے تمام 230 اسمبلی حلقوں کا احاطہ کریگی ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے 2013 میں شیوراج سنگھ چوہان کو پارٹی کا وزارت عظمی امیدوار بنانے کی وکالت کی تھی ۔ اڈوانی نے مدھیہ پردیش کو ملک کی ہندی پٹی میں بی جے پی کی لیبارٹری قرار دیا تھا جسے آر ایس ایس نے پوری دلچسپی سے آگے بڑھایا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست میں پارٹی کا سب سے بہترین تنظیمی ڈھانچہ ہے ۔ اس کی قیادت ایک دور کے آر ایس ایس کے کارکن چوہان کے ذمہ ہے ۔ چوہان کو عموما ماڈل چیف منسٹر کہا جاتا ہے ۔ وہ پارٹی میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے کبھی پارٹی قیادت یا آر ایس ایس سے ٹکراو کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا ۔
بی جے پی نے 2003 میں مدھیہ پردیش میں اوما بھارتی کی قیادت میں کامیابی حاصل کی تھی اور یہاں چار دہے قدیم کانگریس اقتدار کو ختم کردیا تھا ۔ اوما بھارتی عدالتی فیصلے کے بعد 2005 میں مستعفی ہوگئی تھیں جس کے بعد شیوراج سنگھ چوہان ریاست کے چیف منسٹر بنے ۔ اس کے بعد انہوں نے پارٹی اور حکومت پر گرفت مضبوط بنائی اور 2008 اور 2013 میں یہاں پارٹی کو اقتدار دلایا ۔ اپنی عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوامی لیڈر کے طور پر بھی ابھرے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب انہیں ریاست میں مخالف حکومت لہر کا سامنا ہے ۔ بعض گوشوں کا ماننا ہے کہ شیوراج سنگھ چوہان نے بی جے پی کے تعلق سے یہ تاثر بدل کر رکھ دیا کہ وہ تاجروں اور اعلی ذات والوں کی پارٹی ہے ۔ انہوں نے اسے کسانوں اور غریبوں کی پارٹی کی امیج دینے کی کوشش بھی کی ہے ۔ موجودہ اسمبلی میں بی جے پی کے 150 اور کانگریس کے 66 ارکان ہیں۔ ریاست کی لوک سبھا کی 29 میں بی جے پی کے پاس 26 نشستیں ہیں اور کانگریس کا تین پر قبضہ ہے ۔ تمام 16 میونسپل کارپوریشنس پر بی جے پی کے مئیر ہیں ۔ ریاست کی 270 میونسپلٹیز کی اکثریت پر بی جے پی کے قائدین فائز ہیں۔
تاہم اب یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے تقریبا ہر ادارہ میں بی جے پی کے اقتدار کے باوجود ریاست میں ایک طاقتور مخالف حکومت لہر پیدا ہو رہی ہے ۔ یہ بھی شائد ہر ادارہ پر بی جے پی کے قبضہ ہی کا نتیجہ ہے ۔ گذشتہ دس مہینوں میں چار اسمبلی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اور ان تمام میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ ان نتائج سے شیوراج سنگھ چوہان کا امیج متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔ ایک داخلی سروے میں بی جے پی قیادت کو حیرت کا سامنا کرنا پڑا ہے جس میں ادعا کیا گیا ہے کہ پارٹی کے 70 فیصد ارکان اسمبلی بشمول ایک تہائی وزرا کو بھی اس بار کامیابی حاصل کرنی مشکل ہوگی ۔ اس سروے اور آر ایس ایس کی کچھ ملحقہ تنظیموں کے تاثرات نے بی جے پی اور چوہان کو اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور کردیا ہے ۔ حالات مزید مشکل ہونے اس وقت شروع ہوئے جب گذشتہ ایک سال کے دوران ریاست میں تشدد کے کئی واقعات پیش آئے ۔ جون 2017 میں منڈسور میں چھ کسانوں کو ایک مظاہرہ کے دوران ہلاک کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ جاریہ سال اپریل میں دلت احتجاج کے دوران آٹھ افراد ہلاک ہوگئے ۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے شیوراج سنگھ چوہان سانٹا کلاز کی طرح تحائف کی برسات کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے کسانوںکو خوش کرنے بھوانتر اسکیم کا اعلان کیا ۔ اس کے مطابق اگر کسی فصل کی قیمت ایک حد سے کم ہوجائے تو کسانوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ اس اسکیم پر اب تک 1,450 کروڑ روپئے خرچ ہوچکے ہیں۔ چوہان نے 2017 میں فروخت کئے گئے دھان اور گیہوں کیلئے فی کنٹل 200 روپئے کے خصوصی بونس کا بھی اعلان کیا ۔ ریاست کی نوجوانوں کی تنظیم بیروزگار سینا کے صدر اکشے ہنکا کا کہنا ہے کہ یہ برہم کسانوں کو راست رشوت دینے کی کوشش ہے ۔ یہ انتخابی سال ہے اور کسانوں کیلئے ایسے اعلانات ہوتے ہیں تو دوسری برادریوں پر منفی اثرات ہوں گے ۔ اس طرح کے اعلانات تاہم کسانوں تک محدود نہیں ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان نے ٹیچرس کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا ہے اور کئی مراعات دی جا رہی ہیں۔ آنگن واڑی ورکرس اور صحافیوں کیلئے بھی تحائف کا اعلان کیا گیا ہے ۔ سابق کانگریس صدر ارون یادو کا کہنا ہے کہ یہ جمہوری اصولوں کے مغائر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست پر دو لاکھ کروڑ کا قرضہ ہے اور حکومت سرکاری خزانہ کو خالی کرنے پر تلی ہوئی ہے تاکہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ انہوں نے تاہم کہا کہ بی جے پی کو اس بار لازمی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
شیوراج سنگھ چوہان تاہم تنقیدوں کی پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے سرکاری ملازمین کی سبکدوشی کی عمر کو 60 سال سے بڑھاکر 62 سال کردیا ہے ۔ اس سے تین لاکھ ملازمین کو فائدہ ہوگا ۔ بیروزگار سینا کا تاہم کہنا ہے کہ اس اقدام سے ریاست میں نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے اور نوجوانوں کو روزگار کا حصول اور بھی مشکل ہوجائیگا ۔ حال ہی میں ریاست میں 5,197 غیر مجاز کالونیوں کو قانونی حیثیت دیدی گئی ۔ بھوپال سٹیزنس فورم کے دھنیش ڈکشت کا کہنا ہے کہ یہ در اصل منصوبہ بند شہری ترقی کے نظام میں مداخلت ہے اور اس کی کوئی مناسب اجازت بھی نہیں لی گئی ہے ۔ حکومت کے اس اقدام سے قانون کے پابند شہریوں کو دھوکہ کا احساس ہوگا ۔ اب جبکہ مسٹر چوہان غریبوں اور پچھڑے طبقات کو راغب کرنے میں مصروف ہیں بی جے پی کا اصل ووٹ بینک سمجھے جانے والے اعلی ذات کے لوگ ناراض ہو رہے ہیں۔ برہمن قیادت اقتدار میں اپنا حصہ طلب کر رہی ہے جو حال ہی میں کم ہوگیا ہے ۔ ریاستی بی جے پی کی صدارت سے دو راجپوت قائدین کو علیحدہ کردیا گیا ہے ۔ اس فیصلہ سے برہمن قائدین ناراض ہیں ۔ اس کے باوجود مسٹر چوہان ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہیں اور انہیں آر ایس ایس کی تائید حاصل ہے ۔ وہ بی جے پی کی اعلی قیادت کے بھی منظور نظر ہیں۔