میرا کالم مجتبیٰ حسین
دہلی کے ہندی روزنامہ ’’جے وی جی ٹائمس‘‘ میں محکمہ موسمیات کے خلاف ایک قاری کا خط شائع ہوا ہے جس میں اس نے محکمہ موسمیات پر گرج چمک کے ساتھ اپنے غصہ کے چھینٹے برسائے ہیں اور محکمہ موسمیات کے خلاف اپنی برہمی کے نہ صرف طوفانی ہواؤں کے تیز جھکڑ چلائے ہیں بلکہ کہیں کہیں اولے بھی برسائے ہیں ۔ اس کا غصہ اتنا شدید ہے کہ لگتا ہے یہ اس کی زندگی کا اعظم ترین غصہ ہے ۔مراسلہ نگار کا کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات حکومت کا واحد محکمہ ہے جس کا مصرف کسی کی سمجھ میں نہ آسکا ۔ اس کی بیشتر پیش قیاسیاں نہ صرف غلط اور گمراہ کن ہوتی ہیں بلکہ خود قدرت کے لئے بھی اس محکمہ کا وجود ناقابل برداشت نظر آتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے قدرت ، محکمہ موسمیات کی تاک میں بیٹھی رہتی ہے ۔ ادھر اس محکمہ نے پیشین گوئی کی اور اُدھر قدرت اس پیشین گوئی کی تردید کرنے کے لئے کمربستہ ہوگئی ۔ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان وہ رشتہ اور تعلق خاطر نظر نہیں آتا جو عموماً چولی اور دامن کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ بلکہ یہ تعلق کچھ ایسا ہے جو آگ اور پانی کے بیچ ہوسکتا ہے ۔ مراسلہ نگار نے ایک مثال بھی دی ہے کہ پچھلے دنوں دور درشن جب دہلی کے موسم کے بارے میں یہ پیش قیاسی کررہا تھا کہ دہلی میں ابھی تک مانسون کے بادل نہیں آئے ہیں اور یہ کہ دہلی میں عام طور پر موسم خشک رہے گا تو عین اسی وقت ساری دہلی پر مانسون کے بادل چھائے ہوئے تھے اور دہلی میں موسلادھار بارش ہورہی تھی ۔ یہ ایسا نکما اور کام چور محکمہ ہے کہ کھڑکی سے باہر تک جھانک کر نہیں دیکھتا کہ موسم کیا کررہا ہے ۔ جو محکمہ دن کو رات اور رات کو دن کہے ایسے محکمہ کو رکھنے کا کیا فائدہ ۔ مراسلہ نگار نے آخر میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اس محکمہ کو فوراً برخاست کیا جائے ۔ اس طرح حکومت کے اخراجات میں خاصی کمی واقع ہوسکتی ہے ۔
مراسلہ نگار سے ہمیں دلی ہمدردی ہے کہ وہ ایک ایسے مسئلہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کررہا ہے جس پر اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہئے ۔ ہم بھی محکمہ موسمیات کی پیش قیاسیوں کو نہایت پابندی سے سنتے ہیں لیکن کبھی اپنا خون اس طرح نہیں کھولاتے جس طرح مذکورہ بالا قاری نے کھولایا ہے ۔ ہم تو ان پیش قیاسیوں کو ایک تفریحی پروگرام کے طور پر سنتے ہیں ۔ پھر مراسلہ نگار نے جس طرح اپنا سارا غصہ محکمہ موسمیات پر اتارا ہے اس سے لوگوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ حکومت کے سارے محکمے تو ٹھیک ٹھاک کام کررہے ہیں اور محکمہ موسمیات ہی واحد محکمہ ہے جو ایمانداری سے کام نہیں کررہا ہے ۔ مراسلہ نگار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ہاں حکومت کا کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جو ایمانداری سے کام کررہا ہو ۔ بیچارے محکمہ موسمیات پر ہی سارا غصہ اتارنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ہمارا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ حکومت کا یہی وہ واحد محکمہ ہے جہاں ایمانداری کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور اس میں کسی بے ایمانی اور گھپلے کی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ ہم نے آج تک محکمہ موسمیات کے کسی افسر کو قدرت سے رشوت لیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ اس محکمہ کے عہدیدار تو دیانتداری اور حلال کی روٹی کھاتے ہیں ۔
پنی تنخواہ پر گذارا کرتے ہیں اور ان کی بالائی آمدنی وہی ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے انہیں ملتی ہے ۔ ان کی جانب سے کی جانے والی پیش قیاسیاں جب غلط ثابت ہوتی ہیں تو ان کا ایمان کچھ اور بھی مستحکم ہوجاتا ہے ۔ اس محکمہ کے سوائے کسی اور محکمہ کے عہدیدار اس حقیقت کو نہیں مانتے کہ قدرت جو چاہتی ہے وہی ہو کر رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ موسمیات کا عملہ نہایت دین دار ہوتا ہے ۔ خدا کی ذات پر اس کے عملہ کو پورا بھروسہ ہوتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی کا جتنا گہرا ادراک اسے ہوتا ہے کسی اور کو نہیں ہوتا ۔ جب کہ حکومت کے دوسرے محکموں میں کام کرنے والے بعض عہدیدار تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ ان کے کروفر کو دیکھ کر عام آدمی کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ دنیا ان ہی کے حکم سے چل رہی ہے ۔ جب کہ محکمہ موسمیات کے عہدیدار ایک گوشہ میں بیٹھے یاد الہی میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے اختیارات کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے ۔ مراسلہ نگار سے ہمیں ایک شکایت اور بھی ہے ۔ جب اسے پتہ ہے کہ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان نہایت شدید اختلافات ہیں اور ان دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنتی تو مراسلہ نگار کو ان دونوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ ہماری تو روایت یہ رہی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان آپس میں اختلافات ہیں تو ان سے بھرپور فائدہ اٹھایاجائے ۔ انگریزوں کو دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تین سو برس سے زیادہ عرصہ تک اس ملک میں اپنی بالادستی برقرار رکھی ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ دو بلیاں جب روٹی کی تقسیم کے مسئلہ پر لڑجھگڑ کر تصفیہ کے لئے بندر کے پاس جاتی ہیں تو فائدہ بلیوں کا نہیں بلکہ بندر کا ہوتا ہے ۔ مراسلہ نگار کو بھی اس معاملہ میں بندر بن جانا چاہئے ۔
ہمیں دیکھئے کہ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان پائی جانے والی ازلی دشمنی سے ہم کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ کسی دن محکمہ موسمیات جب پیش قیاسی کرتا ہے کہ موسلادھار بارش ہوگی تو ہم اس دن رین کوٹ اور چھتری وغیرہ لے کر نہیں جاتے اور جب محکمہ موسمیات موسم کے خشک رہنے کی پیش قیاسی کرتا ہے تو ہم اپنے ساتھ نہ صرف چھتری اور رین کوٹ رکھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو حفظ ماتقدم کے طور پر گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے اور نہایت مزے میں رہتے ہیں ۔ مراسلہ نگار بھی اگر ہمارے اصول پر عمل کرنے لگے تو اسے محکمہ موسمیات کے خلاف مراسلہ شائع کرنے اور نزلہ زکام اور کھانسی بخار میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے بشرطیکہ آدمی واقعی عقلمند ہو ۔ البتہ مراسلہ نگار کی اس رائے سے ہم متفق ہیں کہ دوردرشن جب موسم کاحال نشر کرے تو نیوز ریڈر کو موسم کا حال نشر کرنے سے پہلے اسٹوڈیو کی کھڑکی کھول کر ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ باہر بارش ہورہی یا موسم خشک ہے ۔ ہم نے دوردرشن کے ایک اعلی عہدیدار کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی تھی کہ موسم کا حال نشر کرنے والے نیوز ریڈر کو اصولاً اس ٹاور کے اوپر بٹھایا جانا چاہئے جہاں سے ٹیلی ویژن نشریات کو پھیلانے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ یہ ممکن نہ ہو تو پھر اسے قطب مینار کی اوپری منزل پر بٹھایا جائے ۔ اس طرح نیوز ریڈر آسمان اور موسم دونوں سے حتی الامکان قریب رہے گا اور اسے موسم کا حال نشر کرنے میں سہولت رہے گی ۔ لیکن ہماری تجویز یہ کہہ کر مسترد کردی گئی کہ خبروں کو اسٹوڈیو کے سوائے کسی اور جگہ سے نشر نہیں کیا جاسکتا ۔ اچھی اور سچی تجویزوں کو یوں بھی کون مانتا ہے ۔ ہمیں مراسلہ نگار کی اس تجویز سے بھی سخت اختلاف ہے جس میں اس نے سرے سے محکمہ موسمیات کو ہی برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ بھیّا! غصہ میں ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں ۔ خدا کے فضل سے اس ملک میں سرکار کا ایک ہی محکمہ تو ایسا ہے جہاں دیانتداری اور ایمانداری پر سچے دل سے عمل کیا جاتا ہے ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اگر اس محکمہ کو چھوڑ کر حکومت کے سارے محکموں کو برخاست کردیا جائے تو اس ملک میں دائمی امن و سکون قائم ہوسکتا ہے ۔ عوام کی ساری پریشانیوں کا اصل سبب ہی یہ ہے کہ اس ملک میں کئی محکمے قائم ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوں تو عوام کے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔ محکمہ پولیس کو ہی لیجئے ۔ یہ محکمہ ابتداء میں اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ اس سے ملک میں امن و امان قائم ہوگا ۔ لیکن اب اس محکمہ کی سرپرستی میں کئی غنڈے ، بدمعاش اور مجرم پروان چڑھ رہے ہیں اور روز افزوں ترقی کررہے ہیں ۔ عام آدمی حوالات میں بند رہتا ہے اور مجرم کھلے بندوں سماج میں دندناتے پھرتے رہتے ہیں ۔ آپ اس محکمہ کو برخاست کرنے کے بارے میں کیوں تجویز پیش نہیں کرتے ۔
ہمارے ہاں انسداد رشوت ستانی کا بھی ایک محکمہ قائم ہے جس میں سب سے زیادہ رشوت چلتی ہے ۔ یہ محکمہ رشوت ستانی کا انسداد نہیں کرتا بلکہ اسے ’’فروغ‘‘ دیتا ہے ۔ اس لئے ہم نے بہت عرصہ پہلے اس محکمہ کے بارے میں ایک جائز تجویز رکھی تھی کہ اس محکمہ کو برخاست کرکے اس کی جگہ ’’فروغ رشوت ستانی‘‘ کا ایک الگ محکمہ قائم کیا جائے جس کے ذمہ یہ کام ہو کہ مختلف محکموں میں مختلف کاموں کے سلسلہ میں لی جانے والی رشوت کی شرح مقرر کرے ۔ ٹیلی فون خراب ہوجائے تو لائن مین کو کتنی رشوت دی جائے ، راشن کی دکان ، گیس کی ایجنسی اور پٹرول پمپ کا پرمٹ حاصل کرنے کی رشوت کیا ہوگی ۔ اگر ایک بارمختلف کاموں کے لئے رشوت کے نرخ مقرر ہوجائیں تو اہل غرض کو بے پناہ سہولت حاصل ہوگی ۔ اکثر اوقات رشوت کے نرخ طئے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بڑی پریشانی ہوتی ہے ۔ ایک عہدیدار ایک کام کے دس ہزار روپئے لیتا ہے تو دوسرا عہدیدار اسی کام کے صرف دس روپئے لیتا ہے ۔ رشوت کے نرخ میں اتنا بھاری فرق تو نہیں ہونا چاہئے ۔ اس لئے اگر اس ملک میں ’’رشوت ستانی‘‘ کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور رشوت کے نرخ مقرر کردیئے جائیں تو عوام اطمینان اور چین کی زندگی جی سکیں گے ۔ اگر کوئی شخص غصہ کی حالت میں صرف محکمہ موسمیات کو برخاست کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف ہیں ۔
بھیّا! ہم تو پورے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حکومت کے سارے ہی محکموں کو برخاست کرنے کے حامی ہیں ۔ البتہ محکمہ موسمیات کو برقرار رکھنے کے اس لئے قائل ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی محکمہ تو ایسا باقی رہے جہاں رشوت کا چلن نہ ہو ۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ ہماری باتوں کو مذاق میں ٹال دیتے ہیں حالانکہ ہم پتے کی باتیں کہتے ہیں ، جن پر اگر حکومت سنجیدگی سے عمل کرے تو اس کا بھی بھلا ہوگا اور ہم جیسے عوام کا بھی بھلا ہوگا۔
(پہلا رائٹ اپ)
مجتبیٰ حسین ۔ ایک تعارف
مجتبیٰ حسین بلاشبہ اس وقت برصغیر کے ممتاز ترین طنز ومزاح نگار ہیں۔ آپ کے کالم جو روزنامہ سیاست حیدرآباد میں بلاناغہ ہر ہفتے شائع ہوتے ہیں صرف اخباری کالم نہیں بلکہ ادبی شہ پاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جتنے خاکے مجتبیٰ حسین نے لکھے ہیں اتنے کسی اور ادیب نے نہیں لکھے ۔ اپنی باغ و بہار شخصیت کی وجہ سے وہ ہر محفل کی جان بن جاتے ہیں۔ ان کا حلقۂ احباب اتنا وسیع ہے کہ وہ کسی ملک میں اجنبی نہیں ۔ آپ کی تاریخ پیدائش 15 جولائی 1936 ء ہے اور مقام پیدائش ضلع گلبرگہ کرناٹک (انڈیا) ہے ۔ آپ کی اب تک 24 کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں ۔ تکلف برطرف (1968) ، قطع کلام (1969) ، قصہ مختصر (1972) بہرحال (1974) آدمی نامہ (1981) بالآخر (1982) جاپان چلو جاپان چلو (1983) الغرض (1987) سو ہے وہ بھی آدمی (1987) چہرہ در چہرہ 1993 سفر لخت لخت (1995) آخرکار (1997) ہوئے ہم دوست جس کے (1999) میرا کالم (1999) مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں جلد اول مرتبہ حسن چشتی (2001) مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں جلد دوم (مرتبہ حسن چشتی 2002) ، مجتبیٰ حسین کے سفر نامے (2003) مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم (مرتبہ حسن چشتی 2004) آپ کی تعریف (مرتبہ سید امتیاز الدین 2005) کالم برداشتہ مرتبہ سید امتیاز الدین (2007) مہرباں کیسے کیسے مرتبہ سید امتیاز الدین (2009) امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے مرتبہ احسان اللہ احمد (2009) اردو کے شہر اردو کے لوگ مرتبہ رحیل صدیقی (2010) کالم میں انتخاب مرتبہ سید امتیاز الدین (2011) ۔
خود مجتبیٰ حسین نے بعض اہم کتابیں مرتب کی ہیں ۔ آپ کی آٹھ کتابیں ہندی میں شائع ہوئی ہیں ۔ آپ کی تخلیقات مختلف رسائل میں سیکڑوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کے علاوہ کئی مضامین اسکول اور کئی جامعات کی درسی کتابوں میں شامل کی گئی ہیں جن کی تعداد کا شمار کرنا مشکل ہے ۔ ہندوستان اورپاکستان کے تقریباً ہر اہم ادیب ، شاعر اور نقاد نے آپ کی شخصیت اور فن پر مضامین اور خاکے لکھے ہیں۔ ادارہ سیاست حیدرآباد آپ کی جملہ تصانیف اور آپ پر لکھے گئے بے شمار مضامین پر مشتمل ویب سائٹ عنقریب جاری کررہا ہے ۔ جس کی ضخامت تقریباً ساڑھے چھ ہزار صفحات سے زائد ہے اس کے علاوہ مجتبیٰ حسین کی بے شمار تصاویر اور ان کے مختلف ویڈیو پروگرام شامل رہیں گے۔ اس مبسوط ویب سائٹ کی رسم اجرا کی تاریخ اورمقام کا عنقریب اعلان کیا جائے گا تاکہ مجتبیٰ حسین کے مداحوں کو اس اہم تقریب میں شرکت کا موقع ملے ۔