محنت کی روٹی

محمد انیس فاروقی
’’بھائیو اور بہنو! میں نے اک خواب دیکھا ہے کہ اس گاؤں کو جس میں میں پیدا ہوا ، یہیں پر میرا بچپن گزرا ، اسی گاؤں کی پگڈنڈیوں پرہم دوڑا کرتے تھے ۔ اس گاؤںسے گزرتی ندی میں ہم تیراکی کرتے تھے ۔ اس گاؤں کی مٹی کی سوندھی خوشبو ابھی تک میری جسم کی رگوں میں رچی بسی ہے ۔ یہ گاؤں جو کہ ہمارے انتخاب کے حلقے میں سب سے بڑا ہے یہاں عوام بڑی تعداد میں بستے ہیں لیکن اس گاؤں کو ترقی کے اعتبار سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اس گاؤں میں آج بھی ہماری کئی ایکڑ زمین موجود ہے ۔ جس پر ہمارے ہی گاؤں کے کسان محنت کرکے اناج اگاتے ہیں ۔ آزادی کے کئی برس بعد بھی اس گاؤں میں نہ ہی کوئی بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا اور نہ ہی کوئی ہسپتال حالانکہ یہ گاؤں شہر سے بس چند کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ میں جذباتی تقاریر پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی جھوٹے وعدے آپ سے کروں گا ۔ لیکن آپ کو یہ ضرور یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے منتخب کیا گیا تو اس گاؤں کی اعلی پیمانے پر ضرور ترقی ہوگی ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے گاؤں میں کالج قائم ہو جس میں معیاری تعلیم دی جاسکے تاکہ ہمارے گاؤں کے بچے کا رخ نہ کریں ۔ ایک معیاری ہسپتال بھی یہاں قائم کیا جائے گا جس میں ہر طرح کی طبی سہولت موجود ہوگی ۔ ہمارے گاؤں کی سڑکیں ابھی تک کچی ہیں انھیں پکی سڑکوں میں تبدیل کیا جائے گا اور گھر گھر بجلی ہوگی اور ہر گلی میں بجلی کے کھمبے لگوائے جائیں گے ۔ تو بھائیو اور بہنو! آپ اپنا قیمتی ووٹ مجھے دیں اور کامیاب بنائیں ۔ آپ کا ووٹ گاؤں کی ترقی کے لئے ہوگا ۔ بس مجھے اور کچھ نہیں کہنا ہے ۔ جئے ہند‘‘ ۔ دیپک نے اپنی تقریر ختم کی اور ڈائس سے نیچے اتر کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھنے لگا ۔ گاؤں کے عوام کی بھاری تعداد آج کے جلسے میں موجود تھی اور وہ مطمئن تھا کہ آج کا جلسہ کامیاب تھا اور اس نے گاؤں کے عوام کے ذہنوں میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ جگہ ضرور بنالی تھی ۔ اس کے ساتھی اور پارٹی رفقاء اسکے ساتھ تھے اور ہر ممکن مدد کرنے تیار تھے ۔

دیپک کا بچپن اسکی گاؤں میں گزرا تھا ۔ اس کے پتا لکشمی نارائن اور ان کے پُرکھ اسی گاؤں میں پلے بڑھے اور یہیں کی مٹی ان کا مقدر بنی تھی ۔ لکشمی نارائن نے چند ایکڑ اراضی یہاں پر رکھ چھوڑی تھی جس پر اسی گاؤں کے کسان کھیتی کرتے تھے اور جو بھی فصل آتی ، اسکا آدھا ان کے حصے میں دے دیا کرتے ۔لکشمی نارائن کے دیہانت کے بعد دیپک کی ماں انورادھا نے شہر کا رخ کیا اور ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے کر یہاں منتقل ہوگئیں ۔ چونکہ دیپک اب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا اور یہاں اعلی تعلیم کے مواقع تھے ۔ دیپک سے چھوٹی ایک بہن تھی شرمیلا جو ابھی ہائی اسکول کی طالب علم تھی ۔
دیپک نے جب انٹرمیڈیٹ اچھے نشانات سے کامیاب کیا تو انورادھا نے اسے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کامشورہ دیا پھر اس نے عثمانیہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔ یہاں اسٹوڈنٹ یونین کے انتخابات میں اس نے حصہ لیا اور صدر یونین منتخب ہوا ۔ یہیں سے اس کے خون میں سیاسی جراثیم داخل ہوئے جو وقتاً فوقتاً اسے سیاست میں داخلہ لینے کے لئے اکسایاکرتے ۔ اس کے دوستوں کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا جن میں چند سیاسی جماعتوں سے بھی وابستہ تھے اور اسے آنے والے 2014ء کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اکسایا کرتے ۔ آہستہ آہستہ وہ بھی اس رخ پر سوچنے لگا ۔
اب جبکہ ریاست آندھرا پردیش بھی تقسیم ہوکر دو ریاستوں میں بٹ رہی تھی اور بھارت کے انتیسویں 29 ریاست تلنگانہ وجود میں آرہی تھی تو دیپک کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ یار جبکہ تیرا تعلق تلنگانہ سے ہے تو کیوں نہ تو بھی اس بار الیکشن لڑ کر تلنگانہ کی ترقی میں اپنا حصہ ادا کرے ۔ دوستوں کے مشورے پر وہ راضی تو ہوگیا لیکن الیکشن لڑنا کوئی معمولی بات تو نہ تھی اس کے لئے بے شمار دولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ روپیہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے ۔ صرف ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے ہی لاکھوں خرچ کرنا ہوتا ہے ۔ بہت غور و خوص کے بعد اس نے یہ طے کرلیا کہ اس بار الیکشن ضرور لڑے گا ۔ اس کے لئے اس نے ماں سے بات کی ۔ ’’ماں میں اور میرے دوست چاہتے ہیں کہ اس بار میں الیکشن لڑوں اور ایسے اسمبلی حلقہ سے لڑوں جسمیں ہمارا گاؤں بھی شامل ہو ۔ اگر میں الیکشن جیت لیتا ہوں تو پھر ہمارے گاؤں کو ایک مثالی گاؤں میں بدل دوں گا‘‘ ۔
دیپک کی ساری بات سن کر ماں نے کہا ’’لیکن بیٹا ۔ الیکشن لڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔اس میں روپیہ پانی کی طرح بہانا پڑتا ہے ۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ ہماری ضرورتیں کس طرح پوری ہوتی ہیں ۔ اگر تمہارے پتاجی گاؤں میں چند ایکڑ اراضی نہ رکھ چھوڑے ہوتے تو ہمارے لئے جینا بھی محال ہوتا ۔ وہی اراضی ہے جو ہمیں دو وقت کی روٹی مہیا کرتا ہے ۔ اور تمہاری اور تمہاری بہن کی تعلیمی ضرورتیں بھی پورا کرتی ہے اور پھر تم نے ابھی ابھی اپنی تعلیم مکمل کی ہے ۔ یہ سیاست ہمارے لئے نہیں ہے بیٹا ۔ یہ کام دولت مند لوگوں کا ہے ۔ میں کہتی ہوں کہ یہ خیال تم دل سے نکال دو ۔ انورادھا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔ ’’لیکن ماں ۔ ہمارے پاس دس ایکڑ زمین ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ صرف دو ایکڑ زمین بیچ کر یہ الیکشن لڑوں ۔ تم دیکھنا اگر میں جیت جاؤں گا تو سمجھو ہمارے بُرے دنوں کا خاتمہ ہوگیا اور اچھے دن ہمارے منتظر ہوں گے اور دولت ہمارے پیروں میں ہوگی‘‘ ۔ یہ سن کر ماں نے کہا ’’بیٹا ہمیں اپنی محنت کی روٹی پر بھروسہ کرنا چاہئے‘‘ ۔

دیپک کی ضد کے آگے ماں نے ہتھیار ڈال دئے ۔ اور دیپک دو ایکڑ زمین بیچ کر الیکشن میں حصہ لینے کی تیاری کرنے لگا ۔ دوستوں کی کوششوں سے اسے تلنگانہ ہی کی ایک سیاسی جماعت کا ٹکٹ مل گیا اور وہ بھی اسی انتخابی حلقہ کا جس میں اس کا آبائی گاؤں شامل تھا ۔ اور آج وہ اپنے ہی گاؤں میں الیکشن کا جلسہ مخاطب کرکے لوٹ رہا تھا ۔

سارے ہندوستان میں الیکشن کی گہما گہمی تھی ۔ ساری ریاست آندھرا پردیش ، جس میں تلنگانہ اور سیما آندھرا کے علاقوں میں انتخابی جلسے منعقد ہورہے تھے ۔ ہر پارٹی اپنی مخالف پارٹی پر الزامات کی بوچھار کررہی تھی ۔ کوئی فرقہ پرستی کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا تو کوئی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سیکولرازم کے نام پر ۔ مذہبی رہنما بھی اپنی اپنی دکانیں چمکارہے تھے اور اقلیتی ووٹ کی قیمت جتارہے تھے ، اقلیتیں پریشان تھیں کہ آخر بھروسہ کریں تو کس پر کیونکہ گذشتہ پچاس ساٹھ سالوں میں انھوں نے جس پارٹی پر بھروسہ کیا تھا اس نے انھیں سوائے دھوکے کے کچھ نہیں دیا تھا ۔ان کی معاشی پسماندگی ساٹھ سال پہلے جہاں تھی آج بھی وہیں کھڑی تھی ۔ پھر الیکشن کا وہ دن بھی آگیا جس دن نیتاؤں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ پولنگ ہوئی ۔ عوام نے بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور بھاری تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔جس دن نتائج کا اعلان ووٹوں کی گنتی کے بعد ہونے والا تھا ۔ دیپک اپنے دوستوں کے ہمراہ گنتی کے مرکز پر پہنچ گیا ۔ تقریباً دن کے تین بجے گنتی ختم ہوئی اور جب نتیجہ کا اعلان ہوا تو اس کا کٹر حریف اس سے تیس ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت گیا تھا !

دیپک ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح جب لوٹ رہا تھا تو راستہ میں اس کی نگاہ شاہراہ سے دور ایک نیم کے درخت پر پڑی جس کے سائے میں ایک کسان چادر بچھائے اپنے لڑکے کے ساتھ نیند کی گہری وادیوں میں پہنچ گیا تھا ۔ وہ اپنی کار روک کر اس کے پاس پہنچ گیا جس کے قریب توشہ دان رکھا تھا ۔ اس نے اسے جگایا اور پوچھا ’’کاکا بہت میٹھی نیند سورہے ہو ؟‘‘ یہ سن کر کسان نے جواب دیا ’’ہاں بیٹا دھوپ میں کام کرنے کے بعد محنت کی دو روٹی کھانے اور ندی کا میٹھا پانی پینے کے بعد میٹھی نیند آ ہی جاتی ہے ۔ یہ بات تم نہیں سمجھ سکوگے !! اور وہ سوچنے لگا ’’کاکا ن