محمد پہلوان، منور اقبال اور دیگر 8 باعزت بری ، 4 کو 10 سال کی سزا

اکبرالدین اویسی حملہ کیس ، استغاثہ کے ثبوت جھوٹے اور گمراہ کن ، گواہوں کے بیانات مضحکہ خیز ، جج کا تاثر

فیصلہ کے وقت نامپلی کریمنل کورٹ کا کمرۂ عدالت کھچاکھچ بھرا ہوا تھا، 6 سال بعد محمد پہلوان اور دیگر چرلہ پلی جیل سے رہا

اکبر الدین اویسی حملہ کیس کی خامیاں …جج کی نظر میں
ملزمین کے خلاف استغاثہ کے فراہم کردہ شواہد بچکانہ
ملزمین کو تعزیراتِ ہند کی دفعہ 120(B) (مجرمانہ سازش)کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی۔
شادی خانہ محمد پہلوان کی ملکیت ہے، حریف پارٹی کا شخص کیونکر بُک کراسکتا ہے؟
حملہ کی سازش کیلئے بات چیت کوئی زور و شور سے نہیں کرتا، جیسا کہ گواہ نے سازش رچانے کے پہلو پر زور دیا۔
محمد پہلوان کے مقام واردات پر واقعہ کے بعد پہونچنے اور کال ڈیٹا کو سازش قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سرگرم مجلسی کارکن رحمت اللہ کا شادی خانہ بک کرانے کیلئے پہونچنے کی بات مضحکہ خیز۔
عینی گواہ، پارٹی صدر کے بھائی کو ہلاک کرنے کی سازش کے بارے میں سن کر پانچ دن تک چپ کیوں رہا؟

 

حیدرآباد۔/29جون، ( سیاست نیوز) چندرائن گٹہ حملہ کیس میں آج عدالت نے اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اس کیس میں ماخوذ محمد بن عمر یافعی المعروف محمد پہلوان اور دیگر9 ملزمین کو باعزت بری کردیا جبکہ 4 افراد کو قصور وار پائے جانے پر انہیں 10سال کی سزا سنائی۔ واضح رہے کہ محمد پہلوان اور اُن کے ساتھی گزشتہ 6 سال 2 ماہ سے جیل میں قید تھے۔استغاثہ محمد پہلوان کے خلاف مجرمانہ سازش اور دیگر الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہونے کے نتیجہ میں ان کی برأت ہوئی ہے۔ ساتویں ایڈیشنل میٹرو پولیٹن سیشن جج ڈاکٹر ٹی سرینواس راؤ نے آج دوپہر 12-30 بجے 98 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ کھچاکھچ بھرے کورٹ ہال میں سنایا جس میں محمد پہلوان، یونس بن عمر یافعی، عیسیٰ بن یونس یافعی، یحییٰ بن یونس یافعی، فیصل بن احمد یافعی، فضل بن احمد یافعی، محمد بہادر علی خان عرف منور اقبال، عفیف بن یونس یافعی، سیف بن مقبول یافعی اور محمد عامرالدین کو ان پر عائد الزامات سے بری کردیا ۔ اسی طرح جج نے حسین بن عمر یافعی المعروف حسن پہلوان، عبداللہ بن یونس یافعی، عود بن یونس یافعی اور محمد سالم بن وھلان کو اس کیس میں قصور وار پائے جانے پر انہیں تعزیرات ہند کے دفعات 307 اور 326 (اقدام قتل) کے تحت 10سال کی قید بامشقت سزا سنائی جبکہ دفعہ 147 (فساد) میں 2 سال 148 (مہلک ہتھیار کے ذریعہ فسادبرپا کرنا) میں 3 سال ۔ دفعہ 324 (شدید زدوکوب کرنا) میں 3 سال۔ دفعہ 341 (جبراً روکنا) میں 1 ماہ ۔ دفعہ 353 (سرکاری ملازم کو زدوکوب کرنا) میں 2 سال ۔ انڈین آرمس ایکٹ میں 2 سال کی سزاء سنائی ہے ۔ عدالت نے مذکورہ دفعات کے تحت چاروں ملزمین کو 1000 اور 500 روپئے فی کس جرمانہ بھی عائد کیا ہے ۔ عدالت نے سزا یافتہ ملزمین کی 6 سال سے زائد کی عدالتی تحویل کے تحت جو چیرلہ پلی جیل میں محروس ہیں کی مدت کو آج سنائی گئی سزاء کی مدت میں شامل کیا ہے ۔ جج ڈاکٹر ٹی سرینواس راؤ نے استغاثہ کی جانب سے ملزمین کو مجرمانہ سازش کے تحت سزاء دیئے جانے کے بارے میں پیش کردہ دلائل کو مختلف وجوہات کی بناء تسلیم نہیں کیا اور انہوں نے ان وجوہات کی بطور خاص نشاندہی بھی کی۔ جج نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ محمد پہلوان اور دیگر ملزمین کو تعزیرات ہند کے دفعہ 120(B) (مجرمانہ سازش) کے تحت اس لئے سزاء نہیں دی جاسکتی چونکہ استغاثہ نے اس سلسلے میں واضح طور پر شواہد پیش نہیں کئے ۔

استغاثہ نے محض تین پہلوؤں پر سزاء دینے کیلئے زور دیا ہے جس میں پہلا پہلو یہ ہے کہ اس کیس کے اہم گواہ نمبر (14) کا بیان ‘ موبائیل فونس کے کال ڈاٹا اور کلیدی ملزم محمد پہلوان کا مقام واردات پر واقعہ کے بعد پہونچنا شامل ہے ۔ جج نے استغاثہ کی جانب سے ملزمین کے خلاف فراہم کئے گئے شواہد کو بچکانہ قرار دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس بات کا تذکرہ کیا کہ 14 اپریل 2011ء کو گواہ نمبر 14 عمر فنکشن ہال ، چندرائن گٹہ پہونچا تاکہ شادی کی سالگرہ کے سلسلے میں فنکشن ہال بک کرایا جاسکے اور وہاں اس نے چند افراد بشمول محمد پہلوان کی زوردار آواز سنی جس میں وہ اکبر اویسی کو ختم کرنے کی سازش کررہے تھے۔ جج نے اس دعویٰ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ فنکشن ہال ملزم کی ملکیت ہے ، دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ایسے فنکشن ہال کی بکنگ نہیں کراسکتا جو اس کی پارٹی کے دشمن کا ہو۔ تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ قتل کی سازش اس طرح زور وشور سے تیار نہیں کی جاتی جس میں تیسرا فریق تمام باتیں سن سکے۔ ان تمام کے علاوہ ایک اور پہلو یہ ہے کہ عینی گواہ نے حملے کے بعد پانچ دن تک اس بارے میں کوئی تذکرہ تک نہیں کیا۔ یہ بھی قابل غور پہلو ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی پارٹی کے صدر کے بھائی کو ہلاک کرنے کے بارے میں بات کررہا ہو تو وہ خاموش نہیں رہ سکتا،

لہذا گواہ نمبر 14 کی گواہی پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ عینی گواہ کا ایم آئی ایم پارٹی سے تعلق ہے اور وکلائے دفاع نے جو تصاویر فراہم کی ہیں ، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایم آئی ایم کا کٹر حامی ہے جو اکبر الدین اویسی اور ان کے بھائی اسد الدین اویسی کی جماعت ہے۔ جج نے محمد پہلوان کے اکبر اویسی کو ہاسپٹل لے جانے کے بعد مقام واردات پہونچنے کے بارے میں جو استدلال پیش کیا ہے ، اسے بھی کسی صورت میں سازش نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ خاندان کا سربراہ اس وقت یقینا حالات سے واقفیت کیلئے وہاں پہنچے گا جب ایک شخص ہلاک اور دیگر دو زخمی ہوگئے ہوں۔ واضح رہے کہ محمد پہلوان کے بھتیجے ابراہیم بن یونس یافعی کی اس جھڑپ میں گولی لگنے سے موت ہوگئی۔ جبکہ دیگر دو بھتیجے عبداللہ یافعی اور عود یافعی بھی گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئے تھے۔موبائیل ڈیٹا کی بنیاد پرملزمین کو سزا سنانے کے پہلو پر جج نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بحیثیت سربراہ خاندان یہ فطری امر ہے کہ وہ فون پر کسی سے بھی ربط قائم کریں لیکن اس بارے میں یہ شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے سازش کو پورا کرنے کے بارے میں ہی بات کی ہو۔

عدالت کی یہ رائے تھی کہ بالفرض کال ڈیٹا کو بطور ثبوت قبول کرلیا جائے تب بھی ملزم کا جرم کی سازش سے ربط ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ واقعہ یا جھڑپ کے بعد کوئی بھی شخص فون اٹھاکر بات کرسکتا ہے اور عدالت یہ تصور نہیں کرے گی کہ محمد پہلوان نے دیگر ملزمین کے ساتھ صرف سازش کے بارے میں ہی بات کی ہے۔ چندرائن گٹہ حملہ کیس کے فیصلہ کے پیش نظر آج نامپلی کریمنل کورٹ پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا اور سینئر پولیس اعلیٰ عہدیدار خود بندوبست میں موجود تھے اور غیر متعلقہ افراد کو عدالت میں جانے سے روک دیا گیا۔ واضح رہے کہ 30 اپریل سال 2011 کو علاقہ چندرائن گٹہ بارکس میں ایم آئی ایم دفتر کے قریب اکبر الدین اویسی پر حملہ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نتیجہ میں پولیس نے محمد پہلوان اور ان کے خاندان کے 12 ارکان اور منور اقبال کو گرفتار کرتے ہوئے اُنہیں جیل بھیج دیا تھا۔ حملہ کے دوران گن مین جانی میاں کی فائرنگ میں محمد پہلوان کے بھتیجے ابراہیم بن یونس یافعی کی موت واقع ہوگئی تھی۔گرفتاری کے چند ماہ بعد محمد پہلوان اور دیگر ملزمین کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا لیکن پولیس نے سپریم کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی ضمانت منسوخ کروائی تھی اور اس ضمن میں سپریم کورٹ نے اندرون چھ ماہ کیس کی سماعت مکمل کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ حملہ کیس کی سماعت کا آغاز 9 فبروری سال 2016 کو ہوا تھا جس میں 83 گواہوں کے بیانات بشمول اکبر الدین اویسی اور رکن اسمبلی احمد بلعلہ اور دیگر مجلسی کارپوریٹرس اور کارکنوں کے بیانات قلمبند کئے گئے تھے۔ حکومت نے اس کیس میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے سینئر ایڈوکیٹ اوما مہیشورراؤ کا تقرر عمل میں لایا تھا جبکہ وکلائے دفاع کی ایک ٹیم جس میں ایڈوکیٹ جی گرو مورتی، راج وردھن ریڈی، اچھوتا ریڈی اور دیگر نے پیروی کی تھی۔ محمد مظفر اللہ خاں ایڈوکیٹ نے بھی ابتداء میں کیس کی پیروی کی تھی۔ استغاثہ نے محمد پہلوان پر چارج شیٹ میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کی ایماء پر اکبر الدین اویسی پر یہ حملہ کیا گیا تھا اور حملہ کی سازش عمر گلشن شادی خانہ میں رچی گئی تھی۔ استغاثہ محمد پہلوان کے خلاف عائد کئے گئے مجرمانہ سازش کی دفعہ 120(B) کو ثابت کرنے میں ناکام رہی چونکہ سازش کے ایک عینی شاہد رحمت اللہ طیب کو وکیل دفاع نے اسوقت جھوٹا قراردیا تھا جب اسے جرح کے دوران یہ ثابت ہوگیا کہ وہ مجلس پارٹی کا سرگرم کارکن ہے، اتنا ہی نہیں پولیس کی جانب سے محمد پہلوان کے قبضہ سے ضبط کئے گئے فون کی بنیاد پر بھی استغاثہ سازش کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔گزشتہ ساڑھے چھ سال سے محمد پہلوان، حسن پہلوان، عبداللہ یافعی، یونس یافعی، منور اقبال، سیف یافعی، عیسیٰ یافعی اور عود یافعی چرلہ پلی جیل میں محروس تھے۔ محمد سالم بن وھلان جو ابتداء سے ضمانت پر ہیں انہیں دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ جج نے قصور وار پائے جانے والے ملزمین کو تعزیرات ہند کی دفعہ 324 میں 2سال، 326 میں 3 سال، 341 میں 2 سال، انڈین آرمس ایکٹ میں 7سال اور 307 اقدام قتل میں 10 سال کی سزا سنائی ہے۔ جج نے گزشتہ ساڑھے چھ سال سے جیل میں محروس رہنے کی مدت کو بھی اس سزا میں شامل کیا ہے۔عدالت کے اس فیصلہ کے بعد محمد پہلوان کے افراد خاندان میں جو عدالت میں موجود تھے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

10 سال کی سزا کیخلاف ہائیکورٹ سے رجوع ہونے وکیل دفاع کا فیصلہ
حیدرآباد ۔ /29 جون (سیاست نیوز) چندرائن گٹہ حملہ کیس کے فیصلے میں چار افراد کو 10 سال کی سزاء سنائے جانے کے خلاف ہائیکورٹ سے اپیل کیلئے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ وکیل دفاع ایڈوکیٹ جی گرومورتی نے بتایا کہ عدالت نے آج حسن بن عمر یافعی ، عبداللہ بن یونس یافعی ، عود بن یونس یافعی اور محمد بن صالح واہلان کو قصور وار پائے جانے پر انہیں 10 سال کی سزاء سنائی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف عنقریب حیدرآباد ہائیکورٹ میں اپیل داخل کی جائے گی اور انہیں امید ہے کہ یہاں ان کے موکلین کو مزید راحت ملے گی ۔ استغاثہ کی جانب سے اپیل کرنے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر پولیس ڈیٹکٹیو ڈپارٹمنٹ مسٹر اویناش موہنتی نے بتایا کہ عدالت کے فیصلے کا مکمل طور پر جائزہ لیا جائے گا اور ماہر قانون کی رائے حاصل کرنے کے بعد ہی عدالت سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ 4 ملزمین کو سزاء سنائی گئی ہے جبکہ 10 کو بری کردیا گیا ہے ۔ اس فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد ہی اس سلسلے میں مزید بتایا جاسکتا ہے ۔