محمد مصطفیٰ علی سروری

کبھی کبھار خود سے بھی کلام کرنا چاہیئے

سفیر کریم ایک آئی پی ایس افسر ہیں ‘ ان کا تعلق کیرالا سے ہے ۔ انہوں نے 2015ء میں یو پی پی ایس کا امتحان پاس کیا ۔ حیدرآباد میں واقع نیشنل پولیس اکیڈیمی سے باضابطہ تربیت حاصل کرنے کے بعد ان کو بطور آئی پی ایس افسر ٹاملناڈو میں تعینات کیا گیا ۔ سفیر کریم آئی پی ایس بننے کے بعد خوش نہیں تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ دوبارہ یو پی پی ایس سی کا امتحان لکھ کر اچھا رینک حاصل کرے اور IAS بنے ۔ 29 اکٹوبر کو جب UPPSC کا (Main) امتحان منعقد ہوا تو سفیر کریم نے بھی امتحان میں شرکت کی ۔ اتوار کے دن منعقد ہونے والے امتحان کو شروع ہوکر تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ انٹلی جنس کے اعلیٰ اہلکار امتحان ہال میں داخل ہوئے اور سیدھے کریم کے پاس پہنچ کر اس کی دوبارہ تلاشی لینے لگے جس کے دوران بلیو ٹوؤتھ آلہ کے برآمد ہوا جس سے کریم امتحان لکھنے کیلئے اپنی بیوی سے مدد لے رہا تھا کا پردہ فاش ہوا ۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق کریم نگر اپنے شرٹ کے بٹن میں موجود خفیہ کیمرے کے ذریعہ UPPSCکے پرچہ سوالات کی تصاویر اپنی بیوی کو بھیج رہا تھا ‘ کریم کی بیوی حیدرآباد میں ایک آئی اے ایس کوچنگ سنٹر کے ڈائرکٹر کے ساتھ بیٹھ کر سوالات کے جوابات واپس کریم کو بھیج رہی تھی ۔ امتحان کے دن ہی جہاں سفیر کریم کو گرفتار کرلیا گیا ‘ وہیں دو دن بعد کریم کی بیوی اور آئی اے ایس کوچنگ سنٹر کے اس ڈائرکٹر کو بھی پولیس نے گرفتار کرلیا ۔ کریم کو ایک سال کی ایک لڑکی بھی ہے ۔ ( بحوالہ اخبار ہندوستان ٹائمز 31اکٹوبر 2017)

سفیر کریم کو جب ملک کے باوقار امتحان یو پی پی ایس سی میں نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا تب سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں مختلف سوالات گشت کررہے ہیں ۔ کیا اس طرح کی نقل نویسی کا یہ پہلا واقعہ ہے ؟ یا منظرعام پر آنے والا پہلا واقعہ ؟
اگر کریم پر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو اس کو IPS کی نوکری سے بھی برخواست کردیا جائے گا ۔ آخر کیوں سفیر کریم نے اس طرح کی حرکت کی ہوگی؟ ۔ کریم سفیر کے متعلق لوگوں کا غصہ قابل دید ہے ۔ اب تو یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا کریم نے آئی پی ایس بننے کیلئے بھی امتحان میں ہائی ٹیک طریقے سے نقل کی تھی ؟
خیر سے کل تک جو لوگوں کا ہیرو تھا اور جس کو تقریباً ساڑھے تین ہزار لوگ فیس بک پر فالو کرتے تھے اب وہی لوگ کریم کو برا بھلا بول رہے ہیں ۔ صرف کریم کو ہی نہیں بلکہ کریم کے مذہب کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ صرف 27 برس کی عمر میں سفیر کریم کا کریئر جتنا شاندار نظر آرہا تھا ‘ اب اتنا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ تاریک ہوگیا ہے ۔
کریم کی ایک غلطی اب اس کیلئے ہمیشہ ہمیشہ کا ناسور بن گئی ہے ۔ سفیر کریم کی کہانی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟ سفیر کریم کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا جتنا مشکل تھا اس کو برقرار رکھنا اس سے بڑا امتحان تھا جس میں وہ ناکام ہوگیا ۔ کامیابی کے حصول کیلئے جو لوگ بہت محنت کرتے ہیں وہ اس کی برقراری کیلئے بھی اتنے ہی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے ۔
دلیپ ساہنی کی عمر 23 برس ہے ‘ اس کے گھر والے مزدوری کا کام کرتے ہیں اور بہار کے ایک گاؤں میں رہتے ہیں ‘ ان لوگوں کیلئے ہر دن امتحان ہوتا ہے کہ اس دن کے کھانے کا انتظام کرلینا ہی ان کی کامیابی سمجھی جاتی ہے ۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے 360 کلومیٹر دور یورنیہ ضلع کے اس خاندان کی مہینہ بھر کی کمائی 2سے تین ہزار روپئے ہے اور یہ رقم کمانے کیلئے بھی اس خاندان کو ہر سال 245کلومیٹر دور دربھنگہ کا رُخ کرنا پڑتا تھا ۔ اس خاندان کے لڑکے دلیپ ساہنی کو سال 2013ء میں بھوپال کے ایک انجنیئرنگ کالج میں پڑھنے کیلئے پیسے نہیں تھے لیکن دلیپ کے چھوٹے بھائی نے خود کام کرتے ہوئے اپے بڑے بھائی کی انجنیئرنگ کی فیس کیلئے پیسے جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔ کھیتوں میں جب جب کام نہیں ملا تو ستیش کے والد نے نیپال کا رُخ کیا اور وہاں پر ائسکریم فروخت کرتے ہوئے پیسے کمائے ‘ یوں ایک باپ بیٹے نے مل کر اپنے بیٹے اور بھائی کی فیس کے پیسے جمع کئے اور اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دلیپ ساہنی نے میکانیکل انجنیئرنگ کا کورس مکمل کیا ۔ دلیپ کا تعلق بہار کے ایک ایسے پسماندہ علاقے سے ہے جہاں پورے گاُؤں میں دسویں پاس کرنے والا وہ پہلا مرد تھا ۔ ایسے ہی اس نے 12ویں اور پھر انجنیئرنگ کا امتحان بھی پاس کیا ۔ ستمبر 2017ء میں دلیپ ساہنی کو انجنیئرنگ کی اہلیت پر سنگم گروپ نام کی اسٹیل کمپنی نے 8لاکھ سالانہ کی تنخواہ پر ملازمت فراہم کی ۔ دلیپ کو اپنے سنگاپور کے آفس میں کام کیلئے بھیجا ۔

قارئین آپ حضرات سوچ رہے ہیں کہ سفیر کریم آئی پی ایس کی نقل نویسی میں گرفتاری کا بہار کے اس غریب انجنیئرنگ کو نوکری ملنے کے واقعہ سے کیا تعلق ہوسکتا ہے تو 31اکٹوبر 2017ء کے ہندوستان ٹائمز اخبار کے مطابق جب دلیپ ساہنی سے پوچھا گیا کہ اس کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کیلئے کہاں سے ترغیب ملی تو اس نے ریاست بہار کے ایک آئی پی ایس آفیسر نشانت تیواری کو اپنا رول ماڈل قرار دیا ۔ بہار کا یہ پولیس آفیسر 2005ء میں آئی پی ایس کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد سے اپنی ڈیوٹی کے علاوہ غریب بچوں کی پڑھائی کیلئے ’’ میری پاٹ شالہ ‘‘ پروگرام چلا رہا ہے اور غریب کے بچوں کو فری میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہا ہے ۔ یورنیہ بہار کے نشانت تیواری کو پورے بہار ہی نہںے پورے ملک میں قابل تعریف نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ۔
سفیر کریم آئی پی ایس بننے کے بعد بھی خوش نہیں تھا اور ایک آئی اے ایس بننے کی چاہت میں اس نے نقل نویسی کی ‘ نہ تو آئی اے ایس بن سکا اور نہ ہی آئی پی ایس کی نوکری باقی رہی ۔ دوسروں کی خدمت تو دور اب اپنے ہی لئے سفیر کریم کو پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں ۔
مسلم کمیونٹی میں اس رجحان کا جس قدر جلد ہوسکے خاتمہ ضروری ہے کہ ہم لوگ اپنے Status اور حیثیت سے بڑھ کر دکھاوے کی چکر میں اپنا ہی بہت بڑا نقصان کرلیتے ہیں ۔ اپنی اور اپنے عزیزوں کی شادیوں میں مہنگی سے مہنگی گاڑیوں کا کرایہ پر لینا ہو یا پٹاخے پھوڑنا اور تو اور شادی کی بارات میں فائرنگ کے شوق نے کئی ایک لوگوں کی زندگی کو خوشحال تو نہیں مگر مسائل میں مبتلا کردیا ہے ۔
پورینجو ولایت ایک 55سالہ ملیالی سرمایہ کار ہے ‘ ان کا تعلق بھی کیرالا سے ہے اور وہ اسٹاک مارکٹ کی ایک ایسی بڑی کمپنی چلاتے ہیں جس کے کاروبار کی مالیت 1200 کروڑ روپئے ہے ۔ گذشتہ مہینہ اکٹوبر میں پورینجو نے اپنے بیٹے کی انتہائی سادگی سے شادی کی ۔ ایسا نہیں کہ پورنجیو کا لڑکا بھی کوئی معمولی حیثیت رکھتا ہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق پورینجو ولایت کا لڑکا سنی پورینجوامریکہ میں برسرکار ہے اور اس کا شادی کا خرچہ صرف چند کمپیوٹرس کی خریدی میں پورا ہوگیا ۔یہ کمپیوٹرس پورینجو ولایت نے اس رجسٹرار آفس کو عطیہ میں دے دیئے جہاں پر ان کے لڑکے کی شادی ہوئی گھی ۔
( بحوالہ www.betterindia.com)
ہماری ہاں تو باپ اپنی بیٹوں کی شادی کیلئے مالیہ اکھٹا کرتے کرتے بوڑھا ہوجاتا ہے اور مالیہ اکھٹا کرنے کیلئے اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی اپنا خون پسینہ کی شکل میں بہاتا رہتا ہے ۔ ہمارے سماج میں نوشہ 40ہزار بھی نہیں کماتا مگر شادی کے موقع پر 24لاکھ کی مالیتی گاڑی کرایہ پرلیکر اس میں بارات نکالنا چاہتا ہے ۔ ہم مسلمان کس قدر زمینی حقیقتوں سے کٹ چکے ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں ہے ۔ ایک زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور خود ہمارے اپنے شہر حیدرآبادمیں رہتے ہوئے نہ صرف اتنا کمایا جاسکتاہے کہ اپنی ضروریات پوری ہوں بلکہ بچت بھی کی جاسکتی ہے ۔
26اکٹوبر 2017ء کو حسینہ نام کی ایک 45سالہ بیوہ خاتون چادر گھاٹ پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر شکایت کرتی ہے کہ ان کے گھر کسی نے چوری کرلی ہے ۔ پولیس کا عملہ اس بیوہ خاتون کی شکایت پر فوری کارروائی کرتے ہوئے قریبی سی سی ٹی وی کے فوٹیج سے نہ صرف چور کی شناخت کرلیتا ہے بکہ اس کو پکڑ کر اس کے پاس سے چوری کا مال ہونے کے زیورات اور نقد رقم برآمد کرلیتا ہے ۔ حسینہ نام کی خاتون نے پولیس شکایت میں اپنی مصروفیات گھریلو خادمہ کی بتلائی ہیں اور ان کے ہاں سے جو سامان ‘ سونے کے زیورات کے چوری ہوئے ‘ اس میں تین سونے کی انگوٹھیاں ‘ 2 نیکلس ‘ 3 جوڑی کانوں کی بالیاں اور ایک لچھا شامل تھا ۔ اس کے علاوہ الماری سے ایک لاکھ 30ہزار روپئے نقد رقم بھی چوری ہوئی تھی جو کہ پولیس نے اندرون 3گھنٹے ایک خاتون چور کو پکڑ کر برآمد کرلی ۔

ہم تو دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس محنتی خاتون کو مزید برکت عطا فرمائے جو لوگوں کے گھروں میں خادمہ کا کام کرتی ہے اور محنت کر کے اس نے اتنا کچھ جمع بھی کیا ہے ‘ کتنے ایسے گھر ہیں جہاں پر ماہانہ آمدنی سے بڑھ کر اخراجات ہیں اور ان کو پورا کرنے کیلئے ہر مہینہ ایک نیا قرض لیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ قرض چکانے کیلئے بھی ایک نیا قرضہ لیا جاتا ہے ۔ قرضوں کے چکر میں پھنسے رہنے کے باوجود مسلمان بچت کی طرف دھیان نہیں دیتے ‘ اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کرتے ۔ رمضان المبارک میں ایک وقت کا کھانا کم کھاکر ہم مسلمان اتنا بھی اپنے آپ پر قابو نہیں پاسکے کہ ہر ہفتہ باہر کا کھانے سے اپنے آپ روک سکیں ۔
کسی سرکار کی کوئی اسکیم مسلمانوں کے حالات کو بہتر نہیں بناسکی ‘ جب تک کہ خود مسلمان اپنی حالت کا صحیح تجزیہ نہ کرلیں اور اس کو سدھارنے کا تہیہ نہ کرلیں ۔ اللہ رب العزت سے مدد تو ہم مانگیں گے ہی مگر ساتھ میں عمل کیلئے ہمیں خود میدان میں بھی اترنے کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا ہوگا ۔ بقول شاعر :
سکوت توڑنے کا اہتمام کرنا چاہیئے
کبھی کبھار خود سے بھی کلام کرنا چاہیئے
sarwari82a@yahoo.com