محمد قلی قطب شاہ کی شاعری میں تہذیبی و سماجی عناصر

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
سلطان محمد قلی قطب شاہ والی گولکنڈہ سلطان قطب شاہ کا بیٹا تھا ۔ قلی قطب شاہ کی 1565 م 973 ھ گولکنڈہ میں ولادت ہوئی ۔ گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان 1805 میں ایک خود مختار ریاست قائم کی اس خاندان کے 8 بادشاہوں میں سے آخری چار بادشاہ اردو زبان کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ خود اردو کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ قلی قطب شاہ اس خاندان کا پانچواں بادشاہ تھا جو 1580 میں تخت نشین ہوا ۔ قلی قطب شاہ ایک قابل اور انصاف پسند بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کا ایک عظیم صاحب دیوان شاعر بھی تھا ۔ اس نے تقریباً 50 ہزار سے بھی زیادہ اشعار دکنی اردو زبان میں کہے ہیں ۔ جن میں سے بیشتر اشعار کی زبان دکنی ہونے کی وجہ سے قدرے مشکل ہے ۔ اردو زبان کے علاوہ قلی قطب شاہ نے تلگو زبان میں بھی بہت سارے اشعار کہے ہیں اور اپنا تخلص ترکمان رکھا تھا ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تلگو زبان میں لکھے گئے قلی قطب شاہ کے اشعار محفوظ نہ رہ سکے ۔ قلی قطب شاہ کا زمانہ وہ ہی ہے جو شمالی ہند میں اکبر بادشاہ کا تھا ۔ قلی قطب شاہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں موسموں ، تہواروں ، پھولوں اور پھلوں پر طویل نظمیں لکھی ہیں ۔ قلی کو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب سے عشق تھا اور اپنے وطن ہندوستان سے بے پناہ محبت تھی ۔ قلی قطب شاہ کی کلیات میں غزلوں ، نظموں کے علاوہ مثنویاں ، قصائد ، میراثی اور رباعیات جیسی تمام اصناف موجود ہیں ۔ قلی قطب شاہ کی ایک غزل ’’بارہ پیاریاں‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔ جن میں اس نے اپنے گوپیوں سے اپنے عشق کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے ۔

پیاری نے کرتوں سجن سوں منم
جو جاگی جوانی تو پھر ہوگئی خم
یقین جان جگ میں ایہہ بات ہے
کہ گوہر پھوٹے پر ہوتا مول کم
جوانی و جوبن ہے سب پاؤنا
کہ تج تھے ہودے عیش سائیں کوں جم
میا آپ سائیں کا رکھ اپنے دل
کہ تج تھے ہوئے عیش سائیں کوں جم
چھنداں سیتی سنگار کر آئی دھن
سہے مکھ پر خوئی کہ جوں پھول پہ نم
نہو آتے ہیں سکیا میں آپ حسن کون
اوچائے ہیں خوباں میں اپنا علم
قلی قطب شاہ کی مشہور نظموں میں عید رمضان ، مکھ اور مکا ،بسنت ، تھنڈکالا ، پریم کہانی ، حیدر محل ، مشتری ، لالن اور چھبیلی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ ان نظموں میں قلی نے اپنے فن کا جادو جگاتے ہوئے اپنے شعری صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ قلی قطب شاہ کی ایک مشہور نظم عید رمضان سے چند اشعار ملاحظہ کریں جن میں اس سے رمضان کی رونقوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات اور احساسات کو لفظوں کا پیرہن دیا ہے ۔
نس عید جلواگر دن صیام ساقی
نوچند تھے ساغراں میں بھر مے میں مدام ساقی
زاہد دیا تھا بھون دن بدنام ہوریا ہوں
پیالے پلا پرم کے کر نیک نام ساقی
مستی تھے آپ صراحی کرتھی سرکشی نت
کرتی ہے جام کوں اب ہر دم سلام ساقی
تیس دن کی خماری توڑن کے باتیں مج کون
کم کم نہ کرتوں دم دم بھر بھر دے جام ساقی
صدقے نبی قطب کون انپڑیا ہے مے طہورا
کوثر تھے ساغر انپڑیا صدقے امام ساقی

ایک بادشاہ اپنے دور حکومت میں اس قدر سلیقے کی شاعری اتنے سکون کے ساتھ اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کے دور حکومت میں امن و امان کا بولا بالا ہو ، سیاسی بدامنی اور جنگیں نہ ہونے کے برابر رہی ہوں گی ۔ تبھی وہ سیاسی حصار سے نکل کر شعر و سخن کے دامن کو تھام سکتا ہے اور اپنے ادبی جوہر کی جلوہ گری کا بھرپور مظاہرہ بھی کرسکتا ہے ۔ سلطان قلی قطب شاہ کے زمانے کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دور حکومت میں لوگوں کی زندگی بڑی پرسکون تھی ۔ ہر طرف امن و امان قائم تھا ۔ بدامنی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا ۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ محمد قلی قطب شاہ بہت زیادہ عیش پرست بادشاہ تھا ، رقص و سرور کی محفلوں کا دلدادہ تھا ۔ زیادہ تر وقت اپنی محبوباؤں کی رفاقت میں گذارتا تھا ۔ حسن و شباب اور دلکشی قلی قطب شاہ کی کمزوری تھی ، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برتتا تھا یا امور سلطنت میں دلچسپی نہیں لیتا تھا وہ سپہ گری کا ماہر تھا ۔ اس کی بہادری اور دلیری کے چرچے دور دور تک مشہور تھے ۔ میدان جنگ میں باقاعدہ حصہ لیا کرتا تھا اور اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتا تھا ۔ اس کو اپنی رعایات اور سلطنت سے بے پناہ لگاؤ تھا فنون لطیفہ کا بھی قدردان تھا ۔ فن خوشنویسی کے لئے ایران اور عراق سے کاتب و خوشنویس بلائے تھے اور باضابطہ وہ مہمانوں کی سرپرستی کیا کرتا تھا ۔ قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا ۔ اس نے ہندوستانی مزاج کو اپنی شاعری میں سمودیا تھا ۔ ایرانی اثرات سے بھی متاثر تھا ۔ شیعہ عقیدہ کا حامل تھا ۔ عاشورہ کا خاص اہتمام کیا کرتا تھا ۔ دس ماہ دنیاداری ، عیش وعشرت ، مئے نوشی میں گذرتے تھے لیکن بچے ہوئے دو ماہ حضرت امام حسین اور دوسرے شہدائے کربلا کے ماتم میں گذرتے ۔ اس کے عہد میں محرم کی تقریبات کا اہتمام اس قدر اہم ہوگیا تھا بلاتفریق مذہب و ملت ہر گھر میں محرم کا احترام کیا جاتا اور عوام نے تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔ قلی قطب شاہ کو علوم نجوم سے بھی گہری دلچسپی تھی ۔ اپنی شاعری میں اس نے نادر تشبیہات اور استعارات کا جگہ جگہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ منظر نگاری اور کردار نگاری میں اسے مہارت حاصل تھی ۔اس کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں جن میں منظر نگاری اور کردار نگاری کو خاص اہمیت دی گئی ہے ۔

یاد مج اس رات دیوانہ کتیا
وہ تھا مج ،خواب میں افسانہ کرتا
رات میرے نین مج سونے نہ دیویں
اوہمن گھر میں نپٹ ویرانہ کیتا
شمع مہماں جیوں کرے پروانہ کون رب
مرغ بسمل بھون کر پروانہ کیتا
اب پچھے کا قطب معاشی حال کیوں
قبلہ کون اس کام میں مے خانہ کیتا
قلی قطب شاہ جو نئی نئی عالیشان عمارتیں تعمیر کروانے کا بہت شوق تھا جس کی سب سے بڑی مثال حیدرآباد کا چارمینار ہے ۔قلی قطب شاہ نے چارمینار کو قریب 400 سال پہلے تعمیر کروایا تھا ۔ اس نے اپنے نئے دارالخلافہ حیدرآباد میں بہت سی خوبصورت عالیشان عمارتیں تعمیر کروائی تھیں ۔ جن میں سے ایک کا نام حیدر محل ہے جن میں موتیوں کا فرش بچھا ہوا تھا ۔ حیدر محل پر اس نے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی اس کے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔
حیدر محل میں دایم حیدر کا جلوا گاؤ
عرش ،آسمان ، دھرت پر ، نصرت طبل بجاؤ
لیا سیم ساق ساقی منج بزم میں
پیالے کی جوت میانے سنائیں صورت دکھاؤ
سورج طبق تھے گالاں میں مے نقل دھروتم
پیاری پرت کے ہاراں پیاری کے گل میں باؤ
یہ منیاں چتیاں ملی شہ روپ پر بھلیاں ملیں
ان ہات قول بیڑادے کرسکتیاں اچاؤ
قلی قطب شاہ نے نظموں ، غزلوں کے علاوہ رباعیات اور قصیدے بھی موجود ہیں جو اس کی ادبی صلاحیتوں کے مظہر ہیں ۔قلی کی ایک رباعی کے چند اشعار ملاحظہ کریں جن میں مستی خمار اور شراب کا ذکر ملتا ہے ۔

مستی کے ملک میں ہے جہاں بانی منجے
خوباں کو دیکھیں میں ہے مسلمانی منجے
خمار کا خمخانہ آہے ٹھاون میرا
ہر قد کا سو بند نگیں سلیمانی منجے
ایک اور رباعی کے چنداشعار ملاحظہ کریں جن میں قلی قطب شاہ نے حسن و جمال اور مستی کا ذکر کیا ہے ۔
تج حسن تھے تازا ہے سدا حسن و جمال
تج یاد کی مستی آ ہے عشق کوں حال
توں ایک ہے تج سائیں ڈوجا کہیں
کیوں یاوے جگت صفحے میں کوئی تیرا مثال
قلی قطب شاہ کو اپنی شاعری پر بڑا ناز تھا اور اس نے اپنے اس احساس کا اظہار اکثر اپنے شعروں میں اس طرح سے کیا ہے ۔
قصیدہ ہوا غزل لائیا تمہارے پیش کش تائیں
بھرو منج دور میانے موتیاں سہم عید و نوروز
قلی قطب شاہ اپنے آپ کو فارسی کے مشہور شاعر خاقانیؔ کے ہم پلہ سمجھتا تھا اور اپنے اس جذبہ کا اظہار اس نے اپنے شعروں میں کچھ اس طرح سے کیا ہے ۔
الوں کے دشمنان اوپر ازل تھے لعن واجب ہے

اگر ہوئے سمر قندری بخارائی و ملتانی
قلی قطب شاہ ایک اور شعر میں اپنے فن کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتا ہے ۔
نزاکت شعر کے فن میں خدا بخشا ہے توں تج کوں
معافی شعر تیرا ہے کہ یا ہے شعر خاقانیؔ
قلی قطب شاہ ایک قابل حکمران تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی تھا اس نے تقریباً ہر صنف شاعری میں طبع آزمائی کی ہے ۔ اس کی شاعری کے موضوعات میں ہندوستانی رسم و رواج رہن سہن معاشرت کی ہر چھوٹی بڑی شئے کے عناصر موجود ہیں ایک طرف تو وہ نوروز ، نیت پر شاعری کرتا ہے تو دوسری طرف اس نے عید رمضان ، شب برات ، جشن میلاد النبیؐ وغیرہ پر بڑے ہی مرصع اشعار لکھے ہیں ۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو قلی قطب شاہ کی شاعری کو ایک مکمل اور جامع شاعری کہا جاسکتا ہے جس میں زندگی کے سارے رنگ موجود ہیں کہیں بھی ادھورے پن اور کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس کے مکمل دیوان میں تہذیبی و سماجی عناصر کے مختلف پہلو موجود ہیں ۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ قلی قطب شاہ ایک کامیاب و قابل حکمران تھا یا ایک مکمل اور بے مثال شاعر تھا جس نے زندگی گذاری نہیں بلکہ زندگی کو جیا ہے ۔