ڈاکٹر محمد فیض احمد
گنگا جمنی اور مخلوط تہذیب کا شہر حیدرآباد اپنے قدیم تہذیبی و ثقافتی روابط ، تاریخی معنویت ، حکمرانوں کی علم پروری اور مقامی رنگ کی بابت نیشنل جیوگرافک نامی سفری میگزین نے اپنے سالانہ سفری گائیڈ بابتہ دسمبر 2014 تا جنوری 2015 کے دوران دنیا کے بیس پسندیدہ مقامات میں حیدرآباد کو دوسرے مقام پر رکھا ہے ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حیدرآباد کا ثقافتی و تہذیبی سحر چار سو برسوں بعد بھی موجود ہے جو اس خطہ کے مسلم حکمرانوں کی ثقافتی وحدت پر گہری گرفت کو ظاہر کرتا ہے ۔
زیر نظر مضمون میں ہم محمد قلی قطب شاہ کی حالات زندگی ، حکمرانی ، سخن وری سے متعلق گفتگو کریں گے ۔ سرزمین گولکنڈہ دراصل مسلمانوں کی وہ عظمت رفتہ اور وجاہت حکمرانی کی یاد دلاتی ہے جو کبھی اس خطۂ ارض کو ساری دنیا میں اپنی طرز حکمرانی ، رعایا پروری، علم کی قدردانی سے متحیر کررکھا تھا ۔ جو آج کھنڈرات کی صورت میں گریہ وزاری اور ماتم کناں ہے ۔
محمد قلی قطب شاہ 14 اپریل 1565 ء بروز جمعہ تولد ہوئے ۔ آپ کی دو بہنیں تھیں ۔ ایک بہن دکن کے مشہور پیر طریقت حضرت حسین شاہ ولیؒ سے بیاہی گئیں تو دوسری بہن حضرت شاہ مظہر الدین کی زوجہ تھیں ۔ وہ بھی اپنے زمانے کے مشہور صوفی گزرے ہیں ۔ محمد قلی قطب شاہ کے دور حکمرانی کے حالات پروفیسر سیدہ جعفر کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے :
’’محمد قلی قطب شاہ کے عہد حکومت میں امن و امان کا دور دورہ تھا ۔ چند بغاوتوں سے قطع نظر فیصلہ کن جنگوں سے سابقہ نہیں پڑا ۔ سیاسی اعتبار سے محمد قلی قطب شاہ کا عہد حکومت پیشرو قطب شاہی سلاطین کے مقابلے میں پرامن رہا ۔ ‘‘ ۔
(کلیات محمد قلی قطب شاہ مرتبہ ڈاکٹر سیدہ جعفر ، ترقی اردو بیورو نئی دہلی 1985 ص 260)
جب ریاست میں امن و امان کاماحول ہو تب رعایا پروری کے ساتھ ساتھ علم وفضل کے کارنامے انجام دینے کا بھرپور موقع میسر آتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح محمد قلی قطب شاہ نے بھی ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور علم و فضل کے جو کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ کا انمٹ حصہ بن گئے ۔ محمد قلی قطب شاہ کا بسایا شہر حیدرآباد جو آج آزاد ہندوستان کا پانچواں بڑا شہر ہے وہ کبھی اپنی خوبصورتی اور تمدن کے علاوہ باغوں کا شہرکہلاتا تھا ۔ اس شہر کو مشہور سیاح ابوالقاسم فرشتہ کے الفاظ میں دیکھئے :
’’گولکنڈہ کی آب و ہوا متعفن اور خراب ہوگئی تھی اس لئے بادشاہ نے آٹھ میل کے فاصلہ پر ایک نہایت شاندار شہر بسایا ، شہر کا دور دس میل کے قریب اور بازار اور راستے ہندوستان کے اور شہروں کے برخلاف کشادہ اور صاف ہیں ۔ آب وہوا لطیف اور پاک ہے ۔ اور بہتی ہوئی ندیاں بڑے بڑے بازاروں کے پاس سے گذرتی ہیں ۔ سڑکوں کے دونوں جانب سایہ دار درخت ہیں جو نظر کو نہایت بھلے معلوم ہوتے ہیں ۔ دکانیں پختہ ، بادشاہی محلات ہندوستان کے اور شاہی محلوں سے بہت زیادہ شاندار اور خوشنما بیان کئے جاتے ہیں‘‘
(سلطان محمد قلی قطب شاہ مرتبہ اسلم پرویز ، انجمن ترقی اردو نئی دہلی 2005 ص 22)
محمد قلی پیدائشی فنکار تھا ۔نہ صرف اس نے علم و ادب کی سرپرستی کی بلکہ اس کے ذوق جمال نے کچے چونے میں بھی فنکارانہ مہارت اور نزاکت کے نمونے چھوڑے ۔ محققین کے مطابق وہ بیک وقت تین زبانوں کا شاعر تھا ۔ اس کے فارسی کلام میں بھی وہی رنگ ہے جو اردو کلام میں ہے ۔ کل اردو کلام تقریباً پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ اپنے وقت کے تمام دکنی شاعروں میں محمد قلی قطب شاہ نے مروجہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ اور اردو زبان و ادب میں پہلے صاحب دیوان شاعر قرار پائے ۔ تقریباً تین صدیوں بعد دکن کے نامور ادیب اور محقق ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نے 1200 صفحات پر مشتمل کلیات مرتب کی ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ کو بادشاہت سے زیادہ شاعری پر ناز تھا ۔
نزاکت شعر کے فن میں خدا بخشا ہی یو تجکو
معانیؔ شعر تیرا ہے یا ہے شعرِ خاقانی
آپ نے قطب شاہؔ اور معانیؔ کو بھی بطور تخلص استعمال کیا ہے یہاں اپنی خیال آرائی کو معروف فارسی شاعر خاقانی کا مماثل بتارہے ہیں ۔ اس پر گو ، بلند پایہ شاعر اور بادشاہ کے ضخیم کلام میں قصیدے ، غزلیں ، مرثیے ، رباعیات اور قطعات ملتے ہیں ۔ جن میں سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ہر پہلو پر اظہار خیال کیا ہے جو اس عہد کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے ۔ اس وقت کی زبان میں شیرینی ، سلاست ، روانی اور شگفتگی بھی ملتی ہے ۔ محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں عاشقانہ شاعری اور عیش و عشرت کی زندگی جینے کے علاوہ مختلف نظموں میں تہذیب و معاشرت کے مرقع بھی ملتے ہیں ۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ کے مطابق:
’’عام طور پر اردو شاعری میں غزل کو جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اور کسی صنف شاعری کو حاصل نہ ہوسکی ۔ لیکن محمد قلی کی قادر الکلامی یہ ہے کہ وہ غزل کا سب سے کامیاب شاعر ہونے کے علاوہ تمام مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کرتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کو اس عہد کے حرم ، بسنت ، نوروز ، شاہی سالگرہ ، عید میلاد ، ہولی ، دیوالی ، غرض ہر تقریب کی تفصیلات بھی ملتی ہیں ۔ موضوعات کا یہ تنوع اس کی مشق سخن پر دلالت کرتا ہے‘‘ ۔
محمد قلی قطب شاہ کی شاعری زینت ساجدہ۔ ماہنامہ سب رس ،قطب شاہ نمبرحیدرآباد، جنوری 1961 ص 11)
جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے محمد قلی عاشقانہ مزاج اور شاعرانہ ذہن اور فطرت پائی تھی ۔ اس کی رومان پسندی ذیل کے اشعار میں دیکھئے :
سودھن جا عیش کوں پوچھی کہ توں آیا ہے کس خاطر
کہیا ہنس عیش ازل تھے میں قطب شہؔ خاطر آیا ہوں
میری سانولی من کی پیاری دسے
کہ پھولاں میں جو پھول بھاری دسے
کہتے ہیں تخیل کی اڑان کے لئے فراق ، تشنگی ، ہجر اور محرومی اثر دکھاتے ہیں ۔ لیکن محمد قلی قطب شاہ بحیثیت شاعر اس نظریہ سے ماورا ہیں ۔ ایک وصالی فکر و خیال ملاحظہ کیجئے :
شراب ہور عشق بازی باج منج تھے نالیاجائے
کہ یو دو کام کرنا کر میں نے سوگند کھایا ہوں
محمد قلی کی شاعری عشق کا ابلتا چشمہ محسوس ہوتا ہے ۔ حسن کی جولانی اکثر اپنا رنگ دکھلاتی ہے ۔ یعنی تمام شاعری میں مقامی رنگ کے عناصر نمایاں ہیں جس پر حقیقت نگاری اور راست بازی کا لحاف چڑھا نظر آتا ہے :
معانیؔ کے باتاں تھے جھرتا نمک
جسے چاکھے کہے نمک سو شکر
جہاں محمد قلی قطب شاہ نے عشق کی سرمستیاں لٹائیں وہیں رواداری ، رعایا پروری ، اخلاقی پہلوؤں پر بھی طبع آزمائی کی ۔
تلنگانہ کی سرزمین پر ایک پاکیزہ تہذیب ومعاشرت کی بنا ڈالی گئی جو ہندو مسلمان کی باہمی ملنساری اور اپنائیت سے مملو ہے بنیادی طور پر دکنی تہذیب دو تہذیبوں کا سنگم ہے ۔ جس کے تحت قطب شاہی حکمرانوں نے اس علاقہ میں صدیوں کامیاب حکمرانی کی اور وہ یہیں کے ہورہے ۔ اسی تہذیبی معاشرت کو محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ محمد قلی کی زندگی نے اپنی نعمتوں سے نوازا تھا جس کی سب کو تلاش ہوتی ہے ۔ اس لئے محمد قلی کی شاعری میں خوبصورتی ، سرور ونشاط انگیزی ہے اس لئے آپ کی شاعری نغمہ بہار ہے خزاں کا گیت نہیں :
خوشا وہ جام و شراب و خوشا وہ ذوق وصال
کہ زندگی میں انہیں دو کی آرزو بس ہے