محمد اخلاق کا قتل درندگی کی بدترین علامت

محمد رؤف الدین
اترپردیش کے ایک دیہات میں (دادری) محمد اخلاق کو جس بیدردی اور بے رحمی کے ساتھ زد و کوب کرکے ہندوؤں کے ایک ہجوم نے قتل کرڈالا ، ایک ایسا شرمناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ محمد اخلاق کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ۔ ایک ایسا جھوٹا الزام لگا کر انھیں قتل کیا گیا ہے جس سے اس ہجوم اور مندر کے پجاری کی عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔ ایک گائے کے ذبح کئے جانے کی جھوٹی اطلاع پر ایک انسان کو قتل کردینا ، کیا ایک انسان کا شیوہ ہوسکتا ہے ؟اس سے بڑھ کر درندگی ، ظلم اور بربریت کیا ہوسکتی ہے ؟
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے جانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے ہزاروں دلسوز واقعات رونما ہوچکے ہیں ،جن میں ان گنت مسلمان شہید ہوئے ، زخمی ہو کر لاچار ہوگئے ۔ ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیا گیا ۔ بچوں اور عورتوں کو تک نشانہ بنایا گیا ۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی ، بوڑھوں کے ہاتھ پیر کاٹ دئے گئے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال گجرات کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری تھے ، جن کی بیوہ ذکیہ جعفری آج تک ظالموں کے خلاف عدالتی جنگ میں مصروف ہیں تاکہ قاتلوں کو سزا مل سکے ۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ایسے سرغنوں کو کلین چٹ دے دی گئی ۔ ایسے ایسے سماجی غنڈے جنھوں نے ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب کیا نہ صرف سکون کی زندگی گذار رہے ہیں بلکہ ان کو ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک میں وزارت کی کرسیوں پر فائز کیا گیا ۔ ایک فرد کو تو ہندوستان کا نائب وزیراعظم اور ملک کا وزیر داخلہ تک بنادیا گیا ۔ کیا ایسے ملک میں مسلمان محفوظ رہ سکتے ہیں ؟
کیا ایک ایسا شخض ملک کا وزیراعظم بننے کے قابل ہوسکتا ہے جس کی فرقہ پرستی ساری دنیا میں طشت از بام ہوچکی تھی ۔جسے امریکہ اور برطانیہ نے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ ایسے شخص کو عدالت العالیہ کی تقرر کردہ انوسٹی گیشن ٹیم نے کلین چٹ دے دی اور احسان جعفری کی بیوہ کو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے جسے اب انصاف ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ چاہے ان ریاستوں میں کانگریس کی حکومت رہی ہو یا کسی اور جماعت کی ۔ فسادات کی نوعیت ، طریقہ کار ایک ہی قسم کا ہوتا ہے ۔ جس میں پولیس کا رول کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ملتی اور وہ بالکل محفوظ رہتے ہیں ۔
گذشتہ سال ہوئے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے اترپردیش پر خصوصی توجہ دی تھی ،جہاں پر پارلیمنٹ کی 80 نشستیں ہیں ۔ ان میں سے بی جے پی نے تقریباً 70سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ۔ انتخابی جلسوں اور ریالیوں سے نریندر مودی نے اپنے خطابات میں سماج وادی پارٹی کو زبردست نشانہ بنایا ۔ چونکہ اس ریاست میں اسی پارٹی کی حکومت قائم ہے ۔ نریندر مودی نے اپنی ایک انتخابی تقریر میں کہا تھا کہ اترپردیش میں صرف ایک سال کے عرصہ میں 150 فسادات ہوئے ہیں جبکہ گجرات میں گذشتہ دس سال کے دوران ایک بھی فساد نہیں ہوا ۔ (انھوں نے اپنی تقریر میں 2002 ء کے گجرات فسادات کا ذکر نہیں کیا)
نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ ملک کی دوسری ریاستوں میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر نہیں کیا جاتا جو نہایت ہی بھیانک نوعیت کے تھے ۔ صرف گجرات کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
وکی پیڈیا کے مطابق اترپردیش کے علاقے مظفرنگر میں مسلمانوں کے خلاف جو فسادات ہوئے وہ 27 اگست 2013 سے 17 ستمبر 2013 تک جاری رہے ۔ جس میں جملہ 62 لوگ مارے گئے ۔ 93 زخمی ہوئے اور 1000 لوگوں کے خلاف کیس بک کئے گئے ۔ ہلاک ہونے والوں میں 42 مسلمان تھے اور 20 ہندو ۔ جملہ 10,000 لوگوں کو detained کیا گیا ۔ 50,000 لوگ بے گھر ہوگئے ۔ اترپردیش کی تاریخ میں مظفرنگر کے فسادات کو بدترین فساد قرار دیا گیا ہے ۔ کانگریس کی زیر قیادت ریاست آسام کے فرقہ وارانہ فسادات میں 100مسلمان شہید ہوئے ۔ سینکڑوں زخمی ہوئے اور تقریباً پانچ لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے جنھیں پناہ گزین کیمپوں میں رکھا گیا تھا ۔
مہاراشٹرا میں بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات ہوئے ۔ ممبئی کے فسادات ناقابل بیان ہیں جن میں مسلمانوں کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا ۔ متحدہ آندھرا پردیش کے دور حکومت میں وٹولی گاؤں میں مسلمانوں کے ایک گھر میں موجود چھ افراد کو زندہ جلادیا گیا جس میں دو معصوم بچے بھی شامل تھے لیکن آج تک ان درندہ صفت مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ممبئی ٹرین دھماکوں 2006ء کے 5 مجرمین کو سزائے موت اور دیگر سات کو عمرقید سنائی گئی ۔ اس سے قبل ممبئی دھماکوں کے ایک ملزم یعقوب میمن کو سزائے موت دیدی گئی ۔ مسلمان ملزمین کا تعاقب تاقیامت بھی ممکن ہے لیکن ہندو فرقہ کے مجرمین اور انتہا پسند تنظیموں کے سرغنوں کے ساتھ حد درجہ نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو جاگنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا  پرسان حال کوئی نہ ہوگا ۔