ڈاکٹر امیر علی
محسنِ علم و ادب حضرت امیرؔ مینائی کی شخصیت کسی تعریف کی محتاج نہیں ہے۔ منشی امیر احمد امیرؔ مینائی ہماری زبان کے منفرد ترجمان دبستان لکھنؤ کے عظیم المرتبت شاعر گزرے ہیں۔ اُنھوں نے اُردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کی ہے۔ اُنھوں نے زبان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے۔ اُنھیں زبان پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے منفرد شاعر ہیں۔ مگر اُنھوں نے دوسری اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ اُن کی شاعرانہ عظمت کو اس دور کے سبھی نامور شعراء اور ادیبوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ آپ کی پیدائش لکھنؤ میں ہوئی اور عمر کا طویل حصہ اُنھوں نے لکھنؤ میں بسر کیا اور جب لکھنؤ اُجڑ گیا تو اُنھوں نے رام پور، بھوپال اور حیدرآباد کا بھی سفر کیا۔ اُنھوں نے تمام عمر شعر و ادب اور تہذیب کو فروغ دینے میں صرف کردی۔ اُن کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا وسیلہ نہ تھی۔ اُن کے کلام میں بڑی گہرائی اور گیرائی ہے جو صرف جذبات ہی کو متاثر نہیں کرتی بلکہ ذہن پر بھی اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ اُن کے علم و فضل، اعلیٰ اخلاق و زہد، سادگی اور خودداری، مروت و ہمدردی، ملنساری، خدمت خلق اور کثیرالتصانیف نے اُن کی عزت اور شہرت اور بڑھادی تھی۔ اودھ کے آخری حکمراں نواب واجد علی شاہ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے اور آپ کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔ حضرت امیرؔ مینائی کا آبائی وطن لکھنؤ ہے اور یہیں پر آپ کی نشوونما ہوئی۔ سرزمین لکھنؤ سے آپ کو گہرا لگاؤ تھا جو آخری دم تک قائم رہا۔ چنانچہ ایک جگہ اس طرح فرماتے ہیں :
ہوا پیوند میں زمیں کا تو دل ہُوا شاد مجھ حزیں کا
بس اب ارادہ نہیں کہیں کا کہ رہنے والا ہوں میں یہاں کا
حضرت امیرؔ مینائی کا اصل نام امیر احمد ہے اور شاعری میں امیرؔ تخلص فرماتے تھے۔ آپ کی ولادت 16 شعبان المعظم 1244 ھ کو دوشنبہ کے دن ساڑھے دس بجے لکھنؤ میں ہوئی۔ آپ کی ولادت کے وقت لکھنؤ میں شاہ نصیرالدین حیدر کا عہد تھا اور لکھنؤ علم و ادب و امن کا گہوارہ تھا اور بڑے بڑے نامی گرامی شعراء اور اہل کمال لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور اُن کی شاعری کی ہر طرف دھوم تھی اور اُن کے فکر و فن کا طوطی بول رہا تھا اور دربار لکھنؤ شعراء اور اہل ہنر کا ملجا اور ماوا تھا۔ حضرت امیرؔ مینائی کے مورث اعلیٰ حضرت شیخ عثمان ملکِ عرب سے ہجرت کرکے ہندوستان تشریف لائے، وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے اور یہاں پر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ یہاں ان کی اولاد خوب پھلی پھولی اور خوب نام کمایا۔ حضرت امیرؔ مینائی مولوی شاہ کرم محمد مینائی (مرید و یار مجاز حضرت مولانا شاہ عبدالرحمن لکھنوی) کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ فوج شاہی دلی میں شاہی عہدے پر مامور تھے مگر چند سال کے بعد جونپور چلے گئے اور وہیں پر سکونت اختیار کرلی۔
حضرت امیرؔ مینائی کا گھرانہ خالص مذہبی تھا۔ علم و فضل، اعلیٰ اخلاق، زہد و تقویٰ اور خدمت خلق خاص جوہر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ درویشانہ طریقۂ زندگی ہونے کی وجہ سے یہ خاندان سارے علاقے میں معزز و محترم تھا۔ عیان دولت و ارکان مملکت بھی اس خاندان کی بڑی عزت کرتے تھے اور اس خاندان کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے۔ جاگیر وغیرہ نے حصول معاش کی فکر سے مستغنی رکھا تھا اس لئے تحصیل علوم ظاہر یا مجاہدہ و مشاہدہ اور خدمت خلق خاندانی مشاغل تھے۔ خودداری اور خود اعتمادی بھی اس خاندان کے اوصاف تھے۔ مولوی شاہ کرم محمد مینائی بھی اُردو کے پُرگو شاعر تھے اور ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اُن کے ہونہار فرزند بھی حصول علم کے بعد شاعری کے میدان میں قدم رکھے اور اس میدان میں نام کمائے۔ مگر حضرت امیرؔ مینائی کی عمر ابھی 11 برس کی ہی تھی کہ آپ کے والد بزرگوار کا سایہ سر سے اُٹھ گیا مگر آپ کے بڑے بھائی مفتی طالب حسن جو اُس وقت نظامت میر منشی پر برسر خدمت تھے، سہارا دیا اور آپ کی پرورش کی اور اپنے بیٹے کی طرح تربیت کی اور والد کی کمی کو کبھی محسوس ہونے نہ دیا۔ حضرت امیرؔ مینائی نے بھی اپنے بڑے بھائی مفتی طالب حسن کی نوازشوں اور اُن کی خدمات کا ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے۔ حضرت امیرؔ مینائی ابتداء میں قرآن مجید کی تعلیم مولوی مظفر علی سے حاصل کی اور آگے چل کر علم و ادب مفتی محمد سعداللہ مرادآبادی سے حاصل کی۔ مفتی محمد یوسف اور مولوی عبدالحکیم فرنگی محلی سے فقہ، حدیث اور اُصول پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے اور اُن کے سر پر فضیلت کی دستار باندھی گئی۔ اس کے علاوہ حضرت امیرؔ مینائی نے پیشۂ طب کی بھی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس پیشہ سے وابستہ رہے مگر بہت جلد اس پیشے سے کنارہ کش ہوگئے۔ طالب علمی کے دور سے ہی علم و ادب میں آپ کی شہرت پورے لکھنؤ میں ہوچکی تھی اور اساتذۂ ادب بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ اب امیر احمد ادیبِ کامل بن گئے ہیں۔ حضرت امیرؔ مینائی عنفوانِ شباب سے ہی فقر کی طرف رجوع ہوئے اور آپ کی طبیعت میں درویشی، زہد و تقویٰ، خدمتِ خلق اور تصوف و سلوک بدرجہ اتم موجود تھا جو آخری دم تک رہا۔ 9 سال کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کیا۔ اُنھوں نے ایک مشہور غزل کہی تھی جس پر اُن کو بہت داد ملی اور اُن کی طباعی کو بھی سراہا گیا تھا۔ اس غزل کا شعر کچھ اس طرح ہے :
ابر آتا ہے ہر بار برستا نہیں پانی
اس غم سے مرے آنسوؤں کی ہے یہ روانی
حضرت امیرؔ مینائی نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو سارے لکھنؤ میں ان شعراء کی شاعری کی دھوم تھی اور ان شعراء کے فکر و فن کا طوطی بول رہا تھا جن میں برقؔ، قلقؔ، رندؔ، وزیرؔ، صباؔ، بحرؔ، ناسخؔ، آتشؔ ، جلالؔ، خلیلؔ وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت امیر مینائی نے بھی اپنی ذاتی محنت اور خداداد صلاحیتوں سے اُردو زبان و ادب اور شاعری میں منفرد مقام حاصل کیا۔ آپ اُس دور کے ادبی مشاعروں میں شرکت کرتے اور اپنا کلام پیش کرتے ، اُن کے کلام کی ہر طرف دھوم تھی۔
حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری میں نازک خیالی، معنی آفرینی، فصاحت و بلاغت، تصوف اور اُس کے مسائل موجود ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ اُن کے کلام میں شاعری کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ آج بھی لوگ اُن کے اشعار بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ دنیا ناپائیدار اور فانی ہے اور یہاں اکڑنا نادانی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے حکمراں جن کو اپنی طاقت، دولت، ثروت پر ناز تھا سب مٹی میں مل چکے ہیں اور قبروں میں کسمپرسی کے عالم میں سورہے ہیں اور ان کا نام و نشان دنیا سے مٹ چکا ہے۔ دنیا ایک دن فنا ہونے والی ہے اسی لئے انسان کو مرنے سے پہلے نیک اعمال کا ذخیرہ کرلینا چاہئے کیوں کہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس خیال کو اُردو کے سبھی شعراء نے اپنی شاعری سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے اور اس ضمن میں حضرت امیرؔ مینائی نے بھی نصیحت آموز مشہور غزل کہی تھی جس کا پوری اُردو شاعری میں جواب نہیں :
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ بُوٹے نہ غنچے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
ستاروں کو دیکھو بہار آنکھ اُٹھاکر
کھلاتا ہے پھول آسماں کیسے کیسے
خزاں لُوٹ ہی لے گی ، باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
رہِ عشق میں پھرتے ہیں مارے مارے
تباہی زدہ کارواں کیسے کیسے
جگر میں تڑپ ، دل میں درد، آنکھ ہیں نم
ملے ہیں ہمیں مہماں کیسے کیسے
امیرؔ اب مدینے کو تو بھی رواں ہو
چلے جاتے ہیں کارواں کیسے کیسے
ایک بار رام پور کے قیام کے دوران بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہوگئے تھے اور عوام سخت پریشان تھے والیٔ رام پور نواب یوسف علی خان نے حضرت امیرؔ مینائی سے فرمائش کی کہ وہ بارش کے لئے بارگاہِ الٰہی میں التجا کریں اور بارش کے لئے دعا کریں۔ آپ نے بارش کے لئے دعا کی اور اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور خوب بارش ہوئی اور عوام نے راحت کی سانس لی۔ حضرت امیرؔ مینائی نے اپنی مشہور غزل کے ذریعے دعا کی تھی وہ غزل کچھ اس طرح ہے :
یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہوجائے
ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہوجائے
بجلیاں چمکیں فلک پر ہو گھٹاؤں کا ہجوم
بوند جو آئے وہ قسمت کا ستارا ہوجائے
جوش میں ابر کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہوجائے
باغ شاداب ہو کھیتی ہو ہری دل ہوں نہال
عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہوجائے
اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہوجائے
اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
ڈوبتے کے لئے تنکے کا سہارا ہوجائے
التجا کرتے ہیں تجھ سے ترے عاجز بندے
رحم کو بندہ نوازی کا اشارہ ہوجائے
ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہوجائے
یا نبیؐ تجھ پہ تصدق ترا مداح امیرؔ
اک نظرِ لطف کی اُمت پہ خدارا ہوجائے
اُردو شاعری یوں ہی پروان نہیں چڑھی، اس کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے میں اُردو زبان و ادب کے سبھی شعراء اور اہل کمالوں نے اپنی قربانی سے شاعری کے اس باغ کو سینچا اور اپنے خون جگر سے اس باغ کی آبیاری کی ہے جو ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اس کے باغباں ہیں۔ ان شاعروں نے جس چیز کو شاعری سمجھا تھا اس کو فروغ دینے اور پروان چڑھانے کے لئے بڑی بڑی تکالیف کو برداشت کرکے ایک ایک قافیے کو خوب صورتی کے ساتھ نظم کرنے میں اور ایک ایک مناسب و موزوں لفظ کی تلاش میں بہت غور و فکر اور احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اُن کی شاعری جیسی بھی تھی اپنے ماحول سے اتنی مطابقت رکھتی تھی کہ اُس دور کے خوش مزاج اصحاب اُن کے کلام سے محظوظ ہوتے تھے اور ان شعراء کو بزم ادب میں بلند سے بلند مقام کا مستحق سمجھتے تھے۔ اُن شاعروں کا اُردو زبان و ادب، تہذیب اور شاعری پر بڑا احسان ہے کہ اُنھوں نے اپنے زمانے کے مذاق کے مطابق شعر کہہ کر اُردو کے باغ کو رونق بخشی اور اپنے اور آنے والے عہد کو بڑا متاثر کیا۔ اب حالات و خیالات کی تبدیلی اور زمانے کی رنگا رنگی کے بعد ہم ان کے کلام کو پسند کریں یا نہ کریں مگر اُردو زبان و ادب کا مورخ ان کے گراں قدر کارناموں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ایسے ہی نامور شعراء میں حضرت امیرؔ مینائی کا شمار ہوتا ہے۔ جن کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اُن کے ہی اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
بالائے آسماں تھے ہم عرش آشیاں تھے
کوئی نہ تھا وہاں تھے اب کیا کہیں کہاں تھے
خاموش ہیں لحد میں جو لوگ خوش بیاں تھے
غنچوں کے وہ دہن ہیں بلبل کی جو زباں تھے
دیکھا خزاں میں ہم نے بلبل کے آشیاں کو
دو چار پر شکستہ دو چار استخواں تھے
کمزور پاکے ہم کو کیا بل کی لے رہے ہو
ہم بھی تو نوجوانو آخر کبھی جواں تھے
پہنچے جو ہم عدم کو اہلِ عدم یہ بولے
مدت کے بعد آئے اتنے دنوں کہاں تھے
جب تک لکھنؤ آباد رہا حضرت امیرؔ مینائی لکھنؤ میں رہے۔ غدر 1857 ء کے ہنگاموں سے دلی اور لکھنؤ اُجڑ گئے اور لکھنؤ کی بہاروں کا خاتمہ ہوگیا۔ عظیم مغلیہ سلطنت روبہ زوال ہوگئی۔ بادشاہ پنشن خوار ہوگئے اور عوام عیش و نشاط میں مگن تھے۔ جو نظام معاشرت صدیوں سے ملک میں چلا آرہا تھا اب اس کے ستون جواب دے چکے تھے۔ علم و دانش کی مشعلیں حوادثِ روزگار سے بجھنے لگی تھیں۔ والیٔ رام پور فردوس مکاں نواب یوسف علی خان جو اُردو کے پُرگو شاعر اور ایک نیک دل حکمران تھے، بڑی خواہش سے حضرت امیرؔ مینائی کو طلب فرمایا اور قدردانی کا حق ادا کیا۔ فردوس مکاں کے انتقال کے بعد اُن کے ہونہار فرزند خلد آشیاں نواب کلب علی خاں سربراہاہِ رام پور مقرر ہوئے وہ بھی اپنے پدر بزرگوار کی طرح شعر و شاعری اور ادب کا اعلیٰ مذاق رکھتے تھے اور شاعری میں نواب تخلص فرماتے تھے۔ اُنھوں نے بھی حضرت امیرؔ مینائی کی قدر دانی میں کوئی کمی نہیں کی اور حضرت امیرؔ مینائی رام پور میں بڑے آرام سے رہے اور خلد آشیاں کی رحلت کے بعد ریاست میں انگریزی طرز پر نئے اصلاحات عمل میں آئے اور حضرت امیر مینائی نے رام پور کو خیرباد کہا اور چین و سکون کی تلاش میں حیدرآباد (دکن) کا قصد کیا :
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آہی جاتی ہے
حضرت امیرؔ مینائی 5 ستمبر 1900 ء کو حیدرآباد (دکن) تشریف لائے اور آکر اپنے دیرینہ رفیق داغؔ دہلوی کے مہمان ہوئے جن کاایک مکان محلہ افضل گنج میں تھا۔ یہاں آتے ہی اُن کی صحت بگڑ گئی اور دوا اور دعا نے اپنا اثر نہیں دکھایا اور شاہی علاج کے باوجود وہ روبہ صحت نہیں ہوئے اور قضاء و قدر نے آپ کو یہاں زیادہ قیام کی مہلت نہ دی اور آخرکار ’’غربت میں‘‘ ’’مینائے امیرؔ‘‘ توڑ ڈالی اور قلیل عرصہ علالت کے بعد اُنھوں نے 13 اکٹوبر 1900 ء کو آخری سانس لی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کے انتقال کی خبر عام ہوئی تو ہر طرف کہرام مچ گیا اور آپ کے وصال پر امیر، امراء اور اُن کے مداحوں نے آنسو بہائے اور آپ کی وفات پر گُل ہائے عقیدت پیش کئے اور آپ کی مغفرت کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی۔ آپ کے جسد خاکی کو ہزاروں سوگواروں کے بیچ احاطہ درگاہ حضرات یوسفینؒ نامپلی حیدرآباد میں سپرد لحد کردیا گیا۔ اس طرح اُردو زبان و ادب اور شاعری کی یہ شمع لکھنؤ میں روشن ہوکر حیدرآباد (دکن) میں خاموش ہوگئی۔ کہاں کی مٹی کہاں لے گئی اور کہاں سپرد خاک ہوئے۔ حضرت امیرؔ مینائی نے طویل عمر پائی اور آپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر 73 برس تھی۔ آپ کے شاگردوں، دوست احباب اور چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ لکھنؤ شہر سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ آپ نے اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ کا عہد عیش و عشرت بھی دیکھا اور قیصر باغ کے میلے بھی دیکھے۔ فردوس مکاں اور خلد آشیاں کے عہد کی رونقیں اور دلچسپیاں بھی دیکھیں مگر اللہ رے پرہیزگاری کبھی دامن اتقاء ہاتھ سے نہ چھوٹا اور وہ مشغلۂ شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ پابندی سے فرض نمازیں، تہجد اور ذکر الٰہی میں اس طرح کھوجاتے کہ آپ پر بقا و فنا کی سی کیفیت طاری ہوجاتی۔ ’’نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بُودم، بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بُودم‘‘ والا معاملہ ہوتا تھا۔ آپ مجسمۂ اخلاق تھے اور آپ کی صورت اور سیرت و مزاج و متانت لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ داغؔ اور جلالؔ نے اپنے دیرینہ رفیق کی جدائی پر منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا اور بڑے ہی پُرسوز اشعار کہے ہیں :
وائے ویلا چل بسا دنیا سے وہ
جو مرا ہم فن تھا میرا ہم صغیر
ہے دُعا بھی داغ کی تاریخ بھی
قصرِ عالی پائے جنت میں امیرؔ
کُجا امیرؔ کُجا سرزمین ملک دکن
کہاں قیام تھا مدفن کہاں ہوا ہے نصیب
جلالؔ لکھ دو یہ تاریخ اُن کی رحلت کی
امیرؔ ہوگئے صدوائے ایک مرد غریب