محترمہ فاطمہ تاج صاحبہ حیدرآباد دکن کی مایہ ناز شاعرہ، ادیبہ اپنی شاعری کی کتابوں کے حوالے سے!

خیرالنساء علیم
ادبی دنیا میں محترمہ فاطمہ تاج صاحبہ محتاج تعارف نہیں۔ ان کی نثری و شعری تخلیقات اردو دنیا کے تقریباً تمام اخبارات و جرائد میں شائع ہوچکی ہیں، شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی شخصیت پر نسیم سلطانہ نے ایم فل بھی کیا ہے۔ فاطمہ تاج صاحبہ کو کل ہند سطح پر بھی ایوارڈ عطا کئے گئے ۔ آپ کے استاد مکرم ڈاکٹر محمد عبدالغفار خاں کے بموجب ’’فاطمہ تاج‘‘ بچپن سے ہی شاعرہ ہیں ۔ میں نے انہیں چھ برس کی عمر سے شعر موزوں کرتے ہوئے بار ہاسنا ہے۔ اشعار کی آمد اس طرح ہے کہ جھرنوں اور ابشاروں سے جس طرح پانی خوبصورتی کے ساتھ ڈھلتا ہے عین اسی طرح فاطمہ تاج کے قلم سے شعر ڈھلتے ہیں۔ واہ واہ !!
فاطمہ تاج کی شاعری میں روایت کی پاسداری زیادہ ملتی ہے ، انہوں نے اردو کے کلاسیکی غزل گو شعراء کا مطالعہ کیا ہے ۔ استازہ کی زمینوں میں غزلیں کہہ کر مشق کی منزلیں طئے کی ہیں۔ ان کی شاعری میں نسائی احساسات ، جذبات کی جھلک جا بجا نظر آتی ہے ۔ فاطمہ تاج کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک منفرد لہجے اور اسلوب کی مالک ہیں۔ ان کے اشعار میں فکر و احساس کی تازگی کے ساتھ اظہار کی ندرت اور برجستگی جگہ جگہ محسوس کی جاسکتی ہے۔ فاطمہ تاج بلا کی زود نویس ہیں اور پھرتی سے اپنے خیالات قلمبند کرتی ہیں۔ ان کا اپنا مشاہدہ اور کچھ نجی تجربے ان کی شوخی تحریر میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ فاطمہ تاج کو شاعرانہ مزاج ودیعت ہوا ہے ۔ یہ قدرت کی عطا ہے ۔ غزلوں کی طرف فطرتاً مسال ہیں۔ اشعار نہایت تیزی سے کہتی ہیں ۔ یہ شعر ملاحظہ کریں !
کیسے ہیں دوست یہاں فرصت مسیحائی
جہاں کے زخم تو اپنے جگر میں رہتے ہیں
فاطمہ تاج کی شاعری میں تغزل کا رنگ غالب ہے ، ایک خاص شاعرانہ کیفیت ہے جو ہر شعر میں سموئی ہوئی ہے ۔ اشعار میں آمد کا رجحان ہے ، الفاظ کے برتاؤ میں ایک بہاؤ ہے جو قافیہ ردیف کے ساتھ رکاوٹ نہیں بنتے۔
زندگی دیدۂ پرنم کے سوا کچھ بھی نہیں
پاس اب میرے تیرے غم کے سوا کچھ بھی نہیں
ٹوٹ جائے گا ذرا اس کی حفاظت کیجئے
دل تو اک جنبش پیہم کے سوا کچھ بھی نہیں
شاعرہ کے کلام میں شگفتگی جھلکتی ہے ، شادابی محسوس ہوتی ہے ، کسی جھیل سے ابھرنے والی ننھی منی لہروں کی خوبصورتی نظر آتی ہے ، یا کسی دریچے کے اچانک کھل جانے سے تازہ ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے رک رک کر چلے آ ئیں اور فرحت بخشیں۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ یہ احساس پایا جاتا ہے ۔ اکثر اشعار اک ڈھکے چھپے دکھ کے پس منظر کا احساس دلاتا ہے ۔ ایک ایسی محرومی کی ترجمانی بھی جسے پوشیدہ رکھنے کے باوجود شعور کے کسی گوشے سے جھانکنے لگتی ہے ۔ شاعری کی طبعی زندہ دلی اور خوش مزاجی اشعار پر حاوی محسوس ہوتی ہے ، شاعرہ کا مزاج خالص غزل کا مزاج ہے ۔ انہوں نے مختلف چھو ٹی بڑی بحروں میں غزلیں لکھی ہیں ۔ زبان سلیس ، سادہ اور دلکش ہے۔
فاطمہ تاج محفل خواتین کی ہردلعزیز ادیبہ و شاعرہ ہیں۔ ہندوستان و بیرون ہند بھی آپ کے قلم کی ستائش کی جاتی ہے۔ اب تک فاطمہ تاج کی 15 کتابیں نثر و شاعری کی منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں 10 کتابوں پر مختلف اکیڈمیوں کی طرف سے انعامات حاصل ہوچکے ہیں ۔ کچھ تصانیف زیر طبع بھی ہیں ۔ فاطمہ تاج کے لہجہ کی بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ ان کی شعر گوئی میں دردمندانہ جذبات صاف محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اظہار محبت ، خلوص ، دوست کی بے وفائی و بے اعتنائی کا شکوہ اور ایسے کئی جذبات ہیں جس کے اظہار کیلئے پیچدار گفتگو کے بجائے سادگی اور سچائی کی علمبردار محسوس ہوتی ہیں۔ فاطمہ تاج اپنی انا اور افتاد طبع سے مجبور ہیں۔ غم دل ، شاعرہ کی زندگی کا اثاثہ ہے ۔ زندگی بھر کی پونجی ہے ، جسے وہ سینے سے لگائے رکھنا چاہتی ہیں۔ اظہار غم مقصود نہیں لیکن معصوم چہرہ سب کچھ کہہ دیتا ہے ۔ فاطمہ تاج کی شاعری میں سلاست ، سادگی ، برموقع تنبیہات ، فکر و نظر کے عناصر ، حسن شناسی اور شعریت نے ان کے کلام کو خوب سے خوب تر بنادیا ہے ۔ ایک اور بات جو واضح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ بیشتر اشعار زندگی سے ما یوسی ، غم دل ، غم حیات سے معمور ہیں ۔ در حقیقت اسی سوز ، درد مندی اور غم پسندی نے فاطمہ تاج کے کلام کو جلا بخشی ہے۔ تصنع سے پاک ان کا کلام قاری کو دعوت فکر دیتا ہے ۔ فاطمہ تاج اپنی ساتھیوں میں بے حد مقبول رہی ہیں۔ بہترین شاعرہ ایک کامیاب ادیبہ کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ یہ ایک اچھی دوست اور بامروت شخصیت کی حامل ہیں ۔ شہر کی بیشتر خو اتین سے فاطمہ تاج کی رسم و راہ ہے ۔ سبھی فاطمہ تاج کو پسند کرتی ہیں۔ ان کی سنجیدگی سے زیادہ بذلہ سنجی سے محظوظ ہوتی ہیں ۔ وہ ایک خوش مزاج ، حوصلہ مند خاتون ہیں۔ محفل خواتین کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ محفل خواتین میں بہترین اضافہ کیلئے سرگرداں رہتی ہیں ۔ انہیں محفل خواتین کی سرگرمیوں سے بے حد دلچسپی ہے۔ فاطمہ تاج کی شخصی دلچسپی کی وجہ سے بھی محفل خواتین میں کئی اراکین کا اضافہ ہوا ۔ مطمئن زندگی نے فاطمہ تاج کو ادبی خدمات کا موقع فراہم کیا ۔ علم فن سے وابستگی میں سرگرم عمل رکھا۔
فاطمہ تاج کی شائع شدہ تصانیف:
(1) اب کے برس شعری مجموعہ (2) آس پاس افسانے (3) امانت ادبی مضامین (4) دلاسہ مزاحیہ مضامین (5) وہ ناولٹ (6) خوشبوئے غزل شعری مجموعہ (7) حوصلہ نظمیں (8) پھول غزل کے شعری مجموعہ (9) چھاؤں کی چادر ، دھوپ کی کلیاں افسانے (10) ایک چراغ اور شعری مجموعہ (11) من مانی طنز و مزاح (12) ہیرے بھی پتھر ہیں شعری مجموعہ (13) چاندنی کا آئینہ شعری مجموعہ (14) بات ابھی باقی ہے شعری مجموعہ (15) موسم کی طرح رشتے افسانے اس کے علاوہ کچھ تصانیف زیر طبع ہیں۔
اعزازات
(1) اترپردیش اردو اکیڈیمی نے ’’آس پاس‘‘ افسانوں کے مجموعہ پر اعزاز سے نوازا۔
(2) اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایوارڈ دہلی مجموعی خدمات پر عطا کیا گیا ۔
(3) آل انڈیا میرؔ اکیڈیمی شعری و ادبی خدمات پر ’’امتیاز میر‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔
(4) اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے مجموعی خدمات پر ایوارڈ عطا کیا ۔
(5) ساہتہ ادب دہلی نے ’’مدر ٹریسا‘‘ ایوارڈ عطا کیا۔
(6) اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے چھاؤ کی چادر ، دھوپ کی کلیاں ، افسانوں کے مجموعے پر ایوارڈ عطا کیا ۔
(7) آندھراپردیش لینگویج کمیشن نے ’’باوقار ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔
(8) اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ’’من مانی ‘‘ طنز و مزاح پر مبنی مضامین کے مجموعہ پر ایوارڈ عطا کیا ۔
(9) اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ’’ہیرے بھی پتھر ہیں‘‘ شعری مجموعہ پر ایوارڈ عطا کیا۔
(10) اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ’’چاندنی کا آئینہ‘‘ شعری مجموعی پر ایوارڈ عطا کیا ۔
’’ امانت‘‘ نثر (مضامین ، خاکے ، انشایئے ، رپورتاژ ، نثرکے بارے میں اور متفرق تحریریں) اس کتاب میں فاطمہ تاج رقمطراز ہیں۔ ’’میرے والد خالص حجازی تھے ، لیکن وہ میری شعر گوئی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بے وزنی کا شکار رہتیں۔ میرے والد نے اس سلسلے میں سید احسان علی عرشی (مرحوم) کو بہ حیثیت استاد مقرر کیا تھا۔
’’پیش لفظ‘‘ میں سید ہاشم علی اختر یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ ’’مختصر سی مدت میں ایک شاعری کا مجموعہ ’’ اب کے برس‘‘ 1992 ء اور ایک افسانوں کا مجموعہ’’ آس پاس‘‘ 1993 ء اور بہت سے مضامین ، خاکے اور انشایئے شائع ہوتے رہے اور اب ان کا یہ مجموعہ یعنی ’’امانت‘‘ شائع ہورہا ہے ۔ یعنی ہلال ادب … بدر کامل بننے کی مسلسل کوشش میں ہے ۔ فاطمہ تاج نہ صرف افسانہ نگار و شاعرہ ہیں بلکہ زندگی کے مسائل کو وہ خوا تین کی آنکھوں سے دیکھ سکتی ہیں۔ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے سماجی و معاشی دائروں کے اندر خواتین کی موجودہ حیثیت کا تعین کیا جائے ۔ اگر آزادی کے بعد کے دور میں بھی باپ ، بیٹا ، بھائی اور شوہر بن کر مرد فائدے میں رہتا ہے اور ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی بن کر عورت نقصان میں رہتی ہے تو اس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں ؟ اس قسم کے تجزیات سے صدہا قسم کے سوالات ابھر سکتے ہیں، جن کے جوابات ہم یں تلاش کرنا ہے ۔ فاطمہ تاج کے ہاتھ میں قلم ہے ۔ اپنی تحریروں کے ذریعہ انہوں نے پیام دیا ہے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے مشاعرے کی امانت سمجھتی ہیں۔ سمماج کے جابرانہ رویوں نے فاطمہ تاج کے دل و دماغ میں تلاطلم جیسی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ یہ تلاطم اور ولولے ان کی طاقت ہیں ۔ ایسی صورت میں کوئی ادبی کارنامہ ان کے ہاتھوں انجام پانے کیلئے بے چین نظر آتا ہے جس کو وہ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں اور کرتی رہی ہیں۔
میں نے فاطمہ تاج کے کلام و تحریروں و تخلیقات کو شوق اور دلچسپی سے پڑھا ہے اور خوشی محسوس کی ہے ۔ مصنفہ کو احساس ہے کہ تخلیق چاہے ادبی ہو یا دوسرے فن کی شکل میں ہو دراصل تخلیق کار کے جذبات کے اظہار کا وسیلہ ہے اور اظہار کا تعلق تخلیقی فکر سے ہوتا ہے اور فاطمہ تاج اپنی فکر کو خوبصورت موڑ دینے کے لئے بے قرار رہتی ہیں۔
وہ حیدرآباد کی سینئر ادیب اور شاعرات میں شامل ہیں ۔ انہوں نے نہایت ہی کم عرصہ میں ہردلعزیزی حاصل کرلی ہے ، وہ ایک ذہین و حساس شخصیت کی مالک ہیں ان کے خیالوں میں جو افسانے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ، وہ شعروں ، افسانوں اور مضامین کی شکل میں صفحہ قرطاس پر بکھرتے رہے ہیں ، ان کے شعری ، نثری مجموعوں پر بہت سی ادبی شخصیتوں نے تبصرے اور تعریف و توصیف بھی کی ہے ۔
حیدرآباد دکن میں کیسے کیسے فنکار بستے ہیں ایسے لوگ جن کی معاشرے اور ادبی دنیا میں بہت پذیرائی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ اگر وہ باصلاحیت دانشوروں ، فنکاروں ، ہنرمندوں اور قلمکاروں کی مناسب انداز میں سرپرستی و حوصلہ افزائی کرتے رہیں تو ہمارے شہر کے با صلاحیت لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا منفرد مقام بنالیں گے۔ یہ بات میں اس لئے بھی کہہ رہی ہوں کہ حیدرآباد کے بے شمار صاحبان فکر و فن مناسب تعلیم ، تربیت اور مناسب سرپرستی و حوصلہ افزائی کی وجہ سے بلند سے بلند مقام پر پہنچ کر اپنی تشنگیوں کو سیراب کر رہے ہیں۔ حیدرآباد کی ادبی و ثقافتی تاریخ گواہ ہے کہ ہما رے شہر کے باشعور لوگوں نے ہر دور میں اپنی صلاحیتوں کو منوا لیا ہے اور آج ہم ان بلند مرتبت ہستیوں کا نام لیتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں ۔ میری دلی آرزو ہے کہ فاطمہ تاج اپنے ادبی سفر کو اسی طرح جاری رکھیں۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاطمہ تاج کو ،سلامت ، بصحت خیر و خوبی کے ساتھ رکھے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے … آمین