محمد معین الدین اختر
محفل کے معنی ہیں جلسہ، مجلس، سبھا اور انجمن جبکہ آداب کا اس عنوان کے تحت مطلب ہے، طور طریقے، قواعد اور اُصول، محافل عام طور پر مذہبی، ادبی اور تہذیبی عنوانات کے تحت منعقد ہوتی ہیں۔ جیسے محفل سیرت النبیؐ ، محفل نعت، محفل درود شریف، نعتیہ مشاعرہ اور محفل سماع وغیرہ (مذہبی محافل)۔ ادبی اجلاس، ادبی مذاکرہ، ادبی مشاعرہ، مزاحیہ مشاعرہ، محفل غزل گوئی اور محفل لطیفہ گوئی وغیرہ (ادبی و تہذیبی محافل)۔ چونکہ ہر محفل ایک مخصوص موضوع کے تحت منعقد ہوتی ہے، اس لئے اس کے آداب بھی اسی مناسبت سے ہوں گے۔ مذہبی موضوعات پر منعقد ہونے والی محافل میں تہذیب، اخلاق اور احترام کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ یہاں منتظمین اور شرکائے جلسہ ازخود پابند اخلاق و ڈسپلن رہتے ہیں۔ ان محافل میں تمام شرکاء لازما باطہارت اور ممکن ہو تو باوضو شرکت کرتے ہیں۔ مقررین کرام اور دیگر تمام اصحاب مناسب و سلیقہ کا لباس پہن کر ان جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان محافل کے جلسہ گاہ میں سگریٹ نوشی قطعی ممنوع ہوتی ہے اور بلند آواز میں گفتگو اور تبصروں سے احتراز کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے تحت جلسہ گاہ سے باہر جاکے یہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ان مقدس محافل میں واعظین، علماء کرام اور دیگر مقررین کی تقاریر اور شعراء کرام کے کلام پر جملے کسنا، تالیاں بجانا، ہوٹنگ کرنا اور غیرضروری مداخلت کرنا خلاف آداب محفل متصور ہوگا اور ایسی حرکات کی یہاں قطعی اجازت نہ ہوگی۔ مختصر یہ کہ مذہبی محافل کا سارا ماحول تہذیب و اخلاق اور ڈسپلن کا ایک بہترین نمونہ ہوتا ہے۔
ادبی و تہذیبی محافل میں صورتحال کسی قدر دوسری نوعیت کی ہوتی ہے۔ ادبی محافل میں چونکہ زیادہ تر تعلیم یافتہ اصحاب شرکت کرتے ہیں، اس لئے یہاں بے ادبی و بداخلاقی کے مظاہروں کا کم ہی امکان رہتا ہے۔ ادبی موضوعات پر منعقدہ محفلوں میں مضامین اور تقاریر نہایت سنجیدگی کے ساتھ پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ ان محفلوں کے مقررین اور مضمون نگاروں کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت میں اور موضوع پر ہی اظہار خیال فرمائیں۔ مقررہ وقت سے زیادہ وقت اور موضوع سے ہٹ جانا خلاف آداب محفل سمجھا جائے گا۔ ان محفلوں میں ناظم محفل اور صدر جلسہ اپنے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن ایک دفعہ ایک اجلاس میں ایک زیادہ پڑھے لکھے ناظم نے آداب محفل کو نظرانداز کرتے ہوئے محفل کا مزہ ہی کرکرا کردیا۔ اس نے ہر مضمون نگار کے مضمون اور مقرر کی تقریر کے بعد بلاضرورت اپنا تبصرہ کرنا شروع کردیا اور اس نے آخر میں غیرذمہ داری کی انتہا کردی، وہ یہ کہ صدر جلسہ کی صدارتی تقریر پر بھی اپنا نامناسب و غیرضروری تبصرہ کردیا۔ ناظم محفل کی یہ حرکات آداب محفل کے خلاف تھیں اور اس محفل کے کئی شرکاء نے ناظم محفل کی ان حرکات کو ناپسند کیا۔ بڑے پیمانے پر منعقد کئے گئے ادبی و مزاحیہ مشاعروں کا ماحول کسی قدر جدا ہوتا ہے۔ ان بڑے مشاعروں میں بعض شعراء کرام اپنی نجی عادتوں سے مجبور ہوکر ایک خاص حالت میں اپنا کلام سنانے کیلئے مائیک پر تشریف لاتے ہیں اور کلام پیش کرتے وقت ان کی حرکتوں سے سامعین محظوظ ہوتے اور بیزار بھی ہوتے ہیں ، لیکن اپنے چند شعراء کرام پر بغیر پٹے مشاعرہ میں شرکت کی پابندی بھی تو عائد نہیں کی جاسکتی جبکہ کئی دوسرے شعراء کرام ان عادتوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بڑے مشاعروں میں شعراء پر (ان کے کلام یا ان کے پڑھنے کا انداز پسند نہ آنے پر) جملے کسنا، تالیاں بجانا، ہوٹنگ کرنا اور بسااوقات نامناسب نعرہ بازی کرنا آج کل سامعین کے ایک محدود حلقہ کی عادت بن گئی ہے۔ اس زمرہ میں پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے اور جاہل افراد سب شامل ہیں۔ ایک اچھے ادبی ماحول میں ایسی قابل اعتراض حرکات کی ہمت افزائی نہیں کی جاسکتی۔ آج کل یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض لطیفہ گوئی کی محفلوں میں غیرشائستہ و غیرمہذب لطیفے بھی سنائے جارہے ہیں۔ یہ لطیفہ گو اصحاب محفل میں موجود معزز خواتین اور بزرگوں کا بھی خیال نہیں کرتے۔ یہ آداب محفل اور اخلاق کے خلاف ہے اور اس رجحان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان محافل میں چائے نوشی وغیرہ گوارا ہے لیکن سگریٹ نوشی ہرگز مناسب نہیں ہے۔
محافل کے آداب میں وقت کی پابندی بھی شامل ہے۔ مذہبی، ادبی، ثقافتی اور نکاح کی محافل میں شرکت کیلئے دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں۔ بسااوقات اخبارات کے ذریعہ بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے، اگر کسی تقریب کے آغاز کا وقت 8 بجے شب مقرر ہے تو عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ تقریب کا آغاز ایک گھنٹہ یا کچھ اور زیادہ ہی تاخیر سے ہوتا ہے۔ بعض تقاریب وقت مقررہ پر بھی منعقد ہوتی ہیں۔ اگر کسی تقریب کے آغاز میں زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ تاخیر ہو تو اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے کی تاخیر ہوجائے تو یہ تکلیف دہ اور اخلاق و آداب کے خلاف ہے۔ ہم اپنے تجربہ کی روشنی میں اس حقیقت کے اظہار کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے شہر حیدرآباد میں منعقدہ ایک محفل نکاح میں تقریباً ڈھائی گھنٹے کی تاخیر ہوگئی۔ فنکشن ہال میں موجود ایک صاحب نے کہا کہ ممکن ہے کہ دلہن صاحبہ اور نوشہ صاحب کو بیوٹی پارلر جانے کے باعث یہاں آنے میں تاخیر ہوگئی ہوگی ،جبکہ ایک دوسرے صاحب نے کہا کہ ممکن ہے کہ میزبان مرد و خواتین کے تیار ہونے میں تاخیر ہوگئی ہوگی۔ اس تاخیر کی کوئی اور بھی وجہ ہوسکتی ہے، مگر یہاں اس پہلو پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے کہ اس طرح کی تاخیر کی وجہ سے دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کو نکاح کی محفل اور تناول طعام میں شرکت کے بعد ان کی واپسی کے سلسلے میں کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مہمانوں میں ضعیف مرد و خواتین اور بچے بھی شامل رہتے ہیں۔ شہر حیدرآباد ہی میں ایک ہفتہ قبل ہمیں ایک ایسی محفل نکاح میں شرکت کا موقع ملا جس میں وقت مقررہ پر یعنی ٹھیک ساڑھے 8 بجے شب نکاح کی کارروائی کا آغاز ہوا لیکن مہمانوں کی مناسب تعداد میں عدم موجودگی کے باعث تناول طعام کا آغاز تقریباً 10:30 بجے شب ہوسکا۔ یہاں تناول طعام میں تاخیر کی ذمہ داری معزز مہمانوں پر عائد ہوتی ہے ،جو ان دنوں تاخیر سے تشریف لانے کے عادی ہوگئے ہیں۔ خطبہ نکاح کے دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شرکاء محفل آپس میں گفتگو میں مصروف رہتے ہیں جو آداب محفل نکاح کے خلاف ہے ،کیونکہ خطبۂ نکاح میں قرآن و حدیث کے احکامات بیان کئے جاتے ہیں جس کو ادب و احترام کے ساتھ سماعت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ ہم دن تمام خامیوں کو دور کرنے کی کوششیں کریں۔ آخر میں یہ عرض کرنا بے محل نہ ہوگا کہ جب ہم اپنی مساجد میں پانچ وقت کی نمازیں باجماعت کسی کا انتظار کئے بغیر وقت مقررہ وقت پر ادا کرتے ہیں جو ہمارے ڈسپلن اور وقت کی پابندی کا ایک بہترین عملی نمونہ ہے ،تو پھر ہم اپنی تمام تقاریب کے انعقاد میں وقت کی پابندی کی کوششیں کیوں نہیں کرتے؟ اگر ہم سب چاہیں تو یہ ممکن ہے۔