مجھ کو یارو معاف کرنا، میں نشہ میں ہوں

سوشل میڈیا سے خاندان غیر سوشل
تیز رفتار ڈرائیونگ موت کو دعوت

محمد نعیم وجاہت
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ جوانی میں کی جانے والی حرکتیں پہلی درسگاہ سے حاصل تربیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیاں جس رفتار سے بڑھتی جارہی ہیں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پہلی درسگاہ کی تربیت کا نتیجہ ہے کیوں کہ فی زمانہ جو بُرائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں وہ پہلی درسگاہ کی عدم تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سماج میں جو اخلاقی آلودگی پیدا ہورہی ہے اُسے ثابت کرتی ہے۔ انسان ماحولیاتی آلودگی، فضائی آلودگی، موسمی آلودگی کے متعلق متفکر ہے لیکن نوجوان نسل میں جو اخلاقی آلودگی پیدا ہورہی ہے اُسے روکنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینے سے قاصر نظر آرہا ہے۔ جس طرح سے مثل مشہور ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اس طرح یہ بھی زمانے دراز سے کہا جارہا ہے کہ ’’اولاد کو سونے کا نوالہ کھلائے مگر دشمن کی نظر سے دیکھیں‘‘ گود کی غفلت ہویا نا ہو مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ماں باپ کے لارڈ پیار اور بیجا محبت نے نوجوان نسل سے دشمن کی نگاہیں ہٹادی ہے جس کے نتیجہ میں سماجی بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ اخلاقی کردار اور اقدار تیزی سے گھٹتا جارہا ہے۔ نئی نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ نوجوان نسل اس کا بہ آسانی شکار ہورہی ہیں۔ ذاتی مفادات، خود غرضی اور لالچ اتنی بڑھ گئی ہے کہ بسا اوقات پاک اور قابل احترام رشتوں کو بھی تار تار کررہی ہیں۔ ان واقعات کیلئے دوسروں کو قصوروار قرار دینے سے قبل ہم سب کو اپنا محاسبہ کرلینا چاہئے۔
فی الوقت ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں اولیائے طلبہ میں اس بات کو لے کر تشویش پائی جارہی ہے کہ منشیات مافیا دونوں شہروں میں کافی سرگرم ہے اور کئی تعلیمی اداروں اسکولس و کالجس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس سماجی لعنت میں کمسن طلباء و طالبات بھی شامل ہیں جن کا متوسط اور دولتمند خاندانوں سے تعلق ہیں۔ اکسائز انفورسمنٹ کے ڈائرکٹر اکون سبھروال نے منشیات معاملت میں کئی چونکا دینے والے انکشاف کئے ہیں۔ منشیات مافیا اس لعنت کا شکار طلبہ کا ہر لحاظ سے استحصال کررہا ہے۔ افسوس کے ساتھ تشویش کی بات یہ ہے کہ منشیات کے عادی بن جانے والے طلبہ منشیات حاصل کرنے کے لئے اپنے ہی گھروں میں چوری کرنے اور قیمتی اشیاء فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہاں تک سنا گیا کہ کمسن و نوجوان لڑکیوں نے منشیات مافیا سے منشیات حاصل کرنے کے لئے اپنی عریاں تصاویر بھی واٹس اپ وغیرہ پر اپ لوڈ کرچکی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منشیات نوجوان نسل کو دیمک کے مماثل کھوکھلا کررہا ہے۔ اکون سبھروال کی شخصی دلچسپی سے منشیات کے اس ناجائز و شیطانی کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے شروع کردہ مہم کے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ تاحال 40 سے زائد افراد کی اس ضمن میں گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں اور (ٹالی ووڈ) تلگو فلم انڈسٹری کے 12 مشہور شخصیتوں کو نوٹس دیتے ہوئے ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ ان شخضیتوں میں پُرکشش اداکارہ چارمی، ایکشن ہیرو روی تیجا کے علاوہ دوسرے اداکاروں میں نودیپ ترون، مشہور ڈائرکٹر پوری جگناتھ کے ساتھ ایٹم گرل ممیت خان بھی شامل ہیں جن کے پرستاروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں ان کے چاہنے والوں میں شامل ہیں۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ نوجوان نسل اپنے پسندیدہ اداکار و اداکارہ کی اصل زندگی میں نقل کرتے ہیں اگر اپنے پسندیدہ اداکاروں کی جانب سے ڈرگس لینے کا ان کی زندگیوں پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہہ رہے ہیں کہ جن فلمی شخصیتوں کو ایس آئی ٹی کی جانب سے پوچھ تاچھ کیلئے آبکاری بھون طلب کیا گیا ہے، وہ سب منشیات کے عادی ہیں مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ٹالی ووڈ بہت بڑی انڈسٹری ہے مگر صرف ایس آئی ٹی کی جانب سے 12 شخصیتوں کو ہی نوٹس کیوں دی گئی۔
یقینا ان شخصیتوں کے خلاف کوئی ثبوت ہوگا جس کی بنیاد پر انھیں پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا گیا ہے۔ یہ تو رہی منشیات کی بات لیکن ہماری نوجوان نسل ایک اور لعنت میں بھی مبتلا ہے۔ وہ ہیں گاڑیوں کا تیز رفتار چلانا حالانکہ یومیہ اوسطاً 3 تا 5 افراد بشمول طلباء حادثات کا شکار ہوکر موت کی نیند سوجاتے ہیں۔ نوجوانوں کی اس طرح اموات کا جو اثر ان کے والدین پر ہوتا ہے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے کئی ایسے واقعات کو دیکھا اور سنا ہے حادثات میں جان گنوادینے والے نوجوانوں کے ماں باپ صدمے سے ذہنی توازن کھو دیتے ہیں اور ہر پل اپنے بیٹوں کو آنسو بہاتے ہوئے یاد کرتے ہیں۔ ان کی المناک داستان سننے والے بھی روئے بنا نہیں رہ سکتے۔ انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے ہر نقصان کو بھلا سکتا ہے لیکن اولاد کا غم اُسے کھوکھلا کرکے رکھ دیتا ہے۔ کسی بھی ماں کے لئے اپنے بیٹی کی نعش کو دیکھنا اور کسی بھی باپ کے لئے اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینا سب سے زیادہ درناک ہوتا ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے بڑی تیزی سے خطرناک طریقے سے موٹر سیکل چلارہے ہیں جس سے ان کی زندگیاں تباہ ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے۔ ان کی زد میں آنے کے باعث دوسروں کی زندگیاں بھی تباہ ہوسکتی ہیں۔
ذرا سوچئے اگر کسی گھر کے ایک ذمہ دار شخص کی حادثہ میں موت ہوجائے تو اس کے گھر کا کیا حال ہوگا؟ اس کے بیوی بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ بے شک اپنے بچوں کو گاڑیاں دلایئے لیکن ایک مخصوص عمر کے بعد اور اُن میں احساس ذمہ داری پیدا کریں۔ والدین اور سرپرستوں کو یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ پیسوں سے اولاد کیلئے گاڑیاں، بنگلے خریدے جاسکتے ہیں ان کی خوشیوں کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن زندگیاں ہرگز خریدی نہیں جاسکتی۔ حادثات کی اہم وجوہات میں تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ موبائیل فونس کا بھی اہم رول رہا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ نوجوانوں کے ساتھ بڑے بھی گاڑی چلانے کے دوران موبائیل فون کا استعمال کررہے ہیں۔ نتیجہ میں پھر ایک حادثہ واقع ہوجاتا ہے۔ موبائیل فون کے فائدوں کے ساتھ نقصانات بھی بہت ہیں۔ موبائیل فونس نے بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ ایک طرح سے تعلیم سے بچوں کی دلچسپی ختم کردی ہے۔ موبائیل فون نے بچے ہو کہ بڑے سب کو یرغمال بنالیا ہے۔ زمانے قدیم یا موبائیل فون کے عام ہونے سے پہلے تک گھروں سے بڑے آپس میں گفتگو کیا کرتے تھے اور بچے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے مگر ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ وہی افراد خاندان میں دوریاں بڑھادی ہیں۔ بدلتے زمانے کے ساتھ بڑے خاندان ٹوٹ کر چھوٹے خاندان تیزی سے وجود میں آرہے ہیں۔ جب بھی کسی تقریب یا فنکشن وغیرہ کے موقع پر گھر کے مرد و خواتین ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ آپس میں تھوڑی دیر بات کرتے ہیں اور اپنا زیادہ وقت ٹیلیفون پر گزارتے ہیں۔ سوشیل میڈیا نے خاندانوں کو غیر سوشل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس لعنت میں بچے اور نوجوان بُری طرح بہہ گئے ہیں۔ بچے موبائیل گیمس کے ساتھ ساتھ ’’فیس بُک‘‘ ، ’’واٹس اپ‘‘ اور ’’انسٹرا گرام‘‘ وغیرہ میں اتنا مصروف ہوگئے ہیں کہ گھنٹوں وقت ضائع کررہے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موبائیل فون کا بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا ہے۔ بچے اور نوجوانوں کے ساتھ بڑے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہورہے ہیں برابر نیند نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ان کی صحت خراب ہورہی ہے۔ وہی ان میں ضد بھی بڑھتی جارہی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہورہے ہیں۔ دین و اسلام نے جلد سونے اور جلد بیدار ہونے کی ہدایت دی ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اسلام کے اس زرین اصول سے واقف کراتے ہوئے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں تو یقین ہے کہ ہمارے بچے ایک صحتمند اور خوشحال زندگی کی طرف رواں دواں ہوں گے۔
سوشیل میڈیا کے استعمال نے بھی کمسن اور نوجوان نسل کو ذہنی و جسمانی طور پر بھی ناکارہ بنانے کا عمل شروع کردیا ہے۔ سوشیل میڈیا پر فحش فلمیں، مکالمے اور عریاں تصاویر پر مبنی مواد عام ہوگیا ہے جس سے بھی نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ کے ساتھ تباہی و بربادی دیکھی جارہی ہے۔ سماج میں بے چینی، غیر یقینی، بُرائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فرضی کہانیاں فساد برباد کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہورہا ہے۔ ’’بچہ اغواء‘‘ اور گائے کے گوشت کے نام پر ملک کے کئی ریاستوں میں سوشیل میڈیا بالخصوص واٹس اپ پر افواہ پھیلاتے ہوئے کئی افراد پر حملے کرتے ہوئے غیر انسانی سلوک کیا گیا ہے۔
اخلاقی گراوٹ رشتوں کا احترام نہ کرنے کے کئی واقعات ہمارے علم میں ہیں مگر ہم تمام داستان بیان کرتے ہوئے رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے مگر چند واقعات کو قلمبند کرنا صروری سمجھتے ہیں تاکہ رشتوں کے پامالی پر افسوس کا اظہار کیا جاسکے۔ باپ بیٹے کا مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ ایک باپ اپنے بچوں کی تعلیم اور پرورش پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ دن رات محنت کرتے ہوئے بچوں کی مستقبل کیلئے اثاثہ جات اکٹھا کرتا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ایک ایسا دردناک واقعہ منظر عام پر آیا کہ ایک بیٹے نے جائیداد کی خاطر اپنے ہی باپ کا قتل کردیا۔ ایک اور واقعہ اپنے والد کی سرکاری ملازمت حاصل کرنے کیلئے ایک بیٹے نے کرائے کے غنڈوں کے ذریعہ اپنے ہی والد کا قتل کرادیا۔ استاد اور شاگرد کا روحانی رشتہ ہوتا ہے۔ ضلع کھمم کے مدرس نے دسویں جماعت میں زیرتعلیم طالبہ کو اپنے دام محبت میں گرفتار کرکے اس کی زندگی تباہ کردی۔ وہی ایک خاتون لکچرار نے اپنے ہی طالب علم کو گھر سے بھگا کر شادی کرلی۔ زندگی میں توازن برقرار نہ رکھنے اور نفس کو قابو میں نہ رکھنے سے برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ گھریلو جھگڑے، سماج کی تنگ نظری اور بے قابو حالت اور شارٹ کٹ کامیابی کا جنون سماج میں بگاڑ کا سبب بن رہا ہے اور نوجوان نسل اس میں بے ساختہ بہہ جارہی ہے۔ ترقی کیلئے پلاننگ، کوآرڈی نیشن اور ایمپلنٹیشن کی ضرورت ہے۔ بغیر کوئی نشانہ مختص کریں کامیابی کی اُمید رکھنا بے فیض ہے۔ جب نشانہ مختص ہوجائے تو اس کو عبور کرنے کے لئے تال میل اور رابطہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیابی کیلئے صرف نشانہ ، تال میل کافی نہیں ہے۔ عمل آوری بھی ضروری ہے۔ جب جاکر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔