مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے – یورپ سے نہیں ہے!

محمد مبشرالدین خرم

انسان کی ہلاکت خواہ کسی بھی خطہ میں ہو اس پر ہر ذی شعور کو تکلیف ہونا اس کے ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت ہے لیکن جب انسانی ہلاکتوں پر بے حسی کے مظاہرے ہونے لگ جائیں اور قاتل کے طرفداروں اور مقتول کی حیثیت کے اعتبار سے تائید یا مخالفت کی جانے لگے تو اس سے بڑا المیہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ خون مظلوم رائیگاں نہیں جاتا لیکن اس پر آہ و فغاں کرنے والے بھی نہ رہیں اور ان مقتولوں کی نعشوں کی بے حرمتی پر بھی چشم نم نہ ہو تو امت کے لئے اس سے زیادہ بڑی تباہی اور کچھ نہیں ہوگی بلکہ وہ اسی طرح ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتی نظر آئے گی۔فلسطین‘ مصر‘ عراق‘ کویت‘ لیبیاء ‘ سوڈان ‘ یمن کے بعد اب جو حالات سرزمین شام کے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان مستحکم مملکتوں کی تباہی کے بعد فسطائی قوتوں کی نظریں ترکی پر مرکوز ہو چکی ہیں اور معرکۂ شام جو کہ حلب تک محدود ہو چکا ہے اب ختم ہونے جا رہا ہے اس جنگ کے خاتمہ تک خدشہ ہے کہ ہلاکتیں 7لاکھ تک پہنچ جائیں گی اور اب تک سرزمین شام سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد 50لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔عرب خطہ کو ہمیشہ حالت جنگ میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی مثال بتدریج شام میں جنگ کے خاتمہ میں تیزی اور ترکی میں ہونے والے بم دھماکے ہیں۔ عرب ممالک بالخصوص ان ممالک کو فوری چوکنا ہونے کی ضرورت ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حرم کی پاسبانی کا فریضہ ادا کرنے کے متحمل ہیں اگر وہ خواب غفلت میں رہتے ہیں تو ان حالات کے بھیانک انجام منظر عام پر ٓائیں گے جو امت کو تباہ کردیں گے۔
عالم اسلام ‘ امت واحدہ اور کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کی بات کرنے والے وہ لوگ جو داعش کی شدت پسندی کے خلاف ببانگ دہل اعلان جنگ اپنا فرض تصور کررہے تھے وہ لوگ اب کیوں خاموش ہیں جبکہ حلب سے ایسے پیغام موصول ہو رہے ہیں جو دلوں کو چیر کر رکھ دیں۔ مملکت شام کے شہر حلب میں جاری شامی‘ ترکی‘ ایرانی اور روسی افواج کی بمباری میں ہونے والی تباہی کا شکار کوئی النصرہ فرنٹ یا داعش کے کارکن نہیں ہیں بلکہ وہ عام شہری ہیں جو شام کے مطلق العنان حکمراں سے نجات کے حامی ہیں ۔ 2011میں شروع ہوئی شام میں مخالف حکومت تحریک کے دوران جو شورش پھوٹ پڑی ہے اس صورتحال کا اب خاتمہ ہونے جا رہا ہے اور حلب پر شامی افواج کے مکمل کنٹرول کی صورت میں بشار الاسد فاتح کہلا سکتا ہے لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ جب پڑوسی کے گھر میں آگ لگتی ہے تو اس کی گرمی کا احساس پڑوسی کو بھی ہوتا ہے شام میں جو آگ بجھنے جا رہی ہے وہ آگ شام میں تو بجھ سکتی ہے لیکن اس کی چنگاریاں جو ترکی اور لبنان تک پہنچ چکی ہیں ان چنگاریوں کو اب بھی بجھایا جا سکتا ہے اور وہ صرف امت بن کر کیا جا سکتا ہے کیونکہ جن لوگوں نے یہ آگ لگائی ہے وہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو امت بننے سے روکے رکھنے میں جو کامیابی انہیں حاصل ہوگی وہ کامیابی انہیں جنگ کے ذریعہ حاصل نہیں ہو پائے گی۔مملکت شام میں جو حالات پیدا کئے گئے اس میں یہ کہا گیا کہ نصیری و علوی حکمراں طبقہ کے خلاف سنی اکثریت نے بغاوت کردی ہے ۔
سعودی اور یمن کو ان کے اپنے سرحدی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے تاکہ سعودی عرب کو اس جانب توجہ کرنے کا موقع نہ ملے اور دنیا کے دیگر ممالک کو یہ پیغام دیا گیا کہ عراق میں شیعہ طبقہ پر مظالم ڈھانے اور انہیں قتل کرنے والے داعش کے پیروکار شام میں تباہی مچا رہے ہیں جس کے سبب سرزمین انبیاء پر 5سال سے خون کی ہولی جاری ہے ۔ مصر میںاخوان کو کامیابی کے حصول نے مغربی دنیا کو جو پیغام دیا اس کے فوری بعد مغرب نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے 20سال بعد جو کاروائی کرنا چاہتا تھا وہ اب کرنے لگا ہے جس کے سبب حالات گنجلگ ہوتے جا رہے ہیں اور کوئی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں ہو کیا رہا ہے؟ شام میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد یہ ٹولہ جو مسلم ممالک کو کمزور کرنا چاہتا ہے وہ ترکی اور قطر کا رخ کرے گا تاکہ ان ممالک میں شورش پیدا کرتے ہوئے انہیں عدم استحکام کا شکار بنایا جا سکے۔ ترکی میں ہو رہے بم دھماکوں کو داعش اور اس کے حامیوں سے جوڑتے ہوئے حلب میں ترکی کی بھرپور مدد حاصل کی گئی لیکن ترکی شائد اس بات کوتسلیم نہ کرے کہ جاریہ سال کے دوران ترکی میں جو بغاوت کا ماحول تیار کیا گیا تھا اس کے پس پردہ بھی یہی قوتیں ہیں جو نہیں چاہتی کہ مسلم ممالک میں تیز رفتار ترقی ہو اور اس ترقی کے ذریعہ وہ عالم اسلام کو امت واحدہ کا درس دینے کے متحمل بن سکیںکیونکہ جب مستحکم حکمرانی ہوگی اور جہاں حکمراں میں اسلام پسندی کے آثار نظر آئیں گے وہی ان مغربی طاقتوں کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں جو اسلام کے نظام عدل و انصاف سے خوفزدہ ہیں۔
سال گذشتہ پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے علاوہ جاریہ سال ہوئے حملو ںمیں آئرلینڈو‘ فرانس کے شہر نائس میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ پر جیسے دنیا نے آنسو بہائے ہیں ان آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان حملوں میں ہلاک ہونے والی زندگیوں کی اہمیت ہے اور اس کے علاوہ جن ممالک میں حملے ہو رہے ہیں ان ممالک میں انسانی جانو ں کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہی۔ حتی کہ ترکی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر دنیا کو افسوس نہیں ہو رہا ہے اور اسے بھی بتدریج لبنان ‘ پاکستان اور افغانستان و صومالیہ کی طرح دہشت گردی سے متاثرہ کہا جانے لگا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ترکی میں دہشت گردانہ کاروائیاں اسی طرح عام بات ہوتی جا رہی ہیں جس طرح عراق و شام میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو عام قرار دیتے ہوئے ان ممالک کو تباہ کردیا گیا۔ عرب قومیت کی بات کرنے والے عرب باشندے جو تہذیب و ثقافت کی بنیاد پر متحد رہنا چاہتے تھے اور 1943سے اس جدوجہد میں رہے انہیں ایسے دو راہے پر لا کھڑا کردیا گیاہے جہاں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں تباہ کیا جا رہا ہے یا ان کی مدد کی جا رہی ہے! فلسطین مسئلہ پر عرب دنیا نے امت کو متحد کرنے کے بجائے عرب قومیت کا نعرہ دیتے ہوئے عربوں کو متحد کرنے اور ان کی تہذیب و تمدن کی بقاء کی فکر کا اظہار کیا تھا۔اگر عرب ممالک اب بھی اتحاد امت کے فروغ کے لئے سرگرم ہوتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن اگر مسلکی اختلافات اور برتری کی برقراری کی جنگ میں اگر اس بات کو فراموش کیا جانے لگے کہ ہمیں امت واحدہ قرار دیا گیا ہے تو ایسی حالت میں ہم صرف رنگ و نسل کے اعتبار سے عرب یا مسلمان باقی رہ جائیں گے جبکہ تحقیق کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہونے والے عملی اعتبار سے مسلمان بن جائیں گے۔
اب جبکہ عالم عرب کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو خود کے محفوظ و مستحکم ہونے کا ادعا کرسکے کیونکہ سعودی عرب یمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ بحرین داخلی خلفشار کا شکار ہے۔ عراق میں حالات معمول پر آنے کے تاحال کوئی امکان نظر نہیں آرہے ہیں ۔ شام کے بحران سے سب واقف ہیں فلسطین و اسرائیل کا تنازعہ لا متناہی بن چکا ہے۔ لبنان و ایران قطر کواپنادشمن تصور کررہے ہیں۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ شیعہ سنی تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے اور اس احساس کو ختم کیا جا رہا ہے کہ روئے زمین پرفساد کرنے والوں کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اتحاد امت میں رخنہ پیدا کرنے والوں کو دشمنان اسلام کہا گیا ہے اور انہی دشمنان کی سازشوں کا شکار ہوتے ہوئے اختلاف کا شکار بنتے ہیں تو غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے کو خارجی گروہ قرار دینے لگے ہیں اور جب اجتماعی ہلاکتیں ہونے لگتی ہے تو اس بات کا احساس نہیں رہتا کہ یہ حوصلہ ہماری مخالفت کے سبب ہی تو پیدا ہواتھا اور جب یہ احساس ہو جائے گا تو ہم خود کو حلب کے ان معصوموں کے قاتل سمجھنے لگیں گے جنہیں باغی قرار دیتے ہوئے قتل کیا جا رہا ہے ۔اگر یہ احساس پیدا ہوجائے تو ضرور ایک مرتبہ ہمیں صدق دل سے توبہ کرتے ہوئے امت بننے کا عہد کرنا چاہئے کیونکہ دشمن ہمیں منقسم کرتے ہوئے تباہ کرنا چاہتا ہے ۔شام کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دشمن اپنے بم کی برسات کے ذریعہ حلب سے تخلیہ یا ہجرت کرنے والوں کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتا کیونکہ کہ جب وہ ایک آزاد دنیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو اپنی داستان غم سناتے ہوئے امت کو جھنجھوڑ سکتے ہیں۔
دوہفتوں سے سوشل میڈیا کے ذریعہ جو اطلاعات حلب سے دنیا کے دیگر ممالک کو پہنچ رہی ہیں ان اطلاعات نے دل میں تڑپ رکھنے والے انسانوں کے رونگٹے کھڑے کردیئے ہیں اور او آئی سی و عرب لیگ نے ایک ہنگامی اجلاس پر اکتفاء کیا جبکہ اقوام متحدہ کی ناکامیوں کا طویل ریکارڈ موجود ہے۔ حلب سے پہنچنے والے پیغام دنیا سے استفسار کررہے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے ؟ کیوں انہیں آزادی کی جدوجہد کی سزاء دی جا رہی ہے؟ پیغام روانہ کرنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ شائد اس کے بعد کوئی پیغام نہ بھیج سکیں بلکہ پیغام بھیجنے کیلئے وہ ہی نہ رہیں کیونکہ ان کی ان ویڈیوز میں بم دھماکوں اور جنگی طیاروں کی گڑگڑاہٹ واضح سنائی دے رہی ہے۔ مگر یہ مطمئن قلوب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی یہ قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔حلب میں شامی افواج کی درندگیوں کے درمیان پھنسی ایک 17سالہ بیٹی نے باپ سے موت کی بھیک مانگتے ہوئے جو پیغام دیا ہے اس پیغام سے دل دہل جائے گا۔شیخ محمد الیعقوبی نے اپنے ٹوئیٹر پیام میں یہ بات کہی کہ انہیں ایسے کئی استفساء وصول ہو رہے ہیں جن میں حلب کے شہری یہ پوچھ رہے ہیں کیا وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو شامی افواج کی درندگی کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے قتل کرسکتے ہیں؟ اس پیغام سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حلب کس کرب کے عالم میں ہے اور امت اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر احتجاج درج کروانے میں مصروف ہے۔عرب ممالک کی دینی حمیت کو جگانے اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا کیلئے کوئی ایک ایسا جرأت مند اٹھ کھڑا ہو جائے جو حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر گفتگو کرسکے تو عرب دنیا کے ضمیر کوجگایا جا سکتا ہے ۔