مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں مضمون خاص ہوں

ڈاکٹر مجید خان
سب سے پہلے میں قارئین کو ایک زندہ زبان کی حرکیاتی خصوصیات کے بارے میں چند اہم عصری معلومات پہنچانا چاہوں گا تاکہ اردو کے اساتذہ اس پر غور کریں ۔
یہ زبان ظاہر ہے انگریزی کے سوا اورکوئی دوسری ہو نہیں سکتی۔ انگریزی زبان کی قدیم لغت جو آکسفورڈ ڈکشنری کے نام سے مشہور ہے مسلسل اس کی تنقیح ہوا کرتی ہے ۔ ابھی ابھی اطلاع آئی ہیکہ یہ لغت اپنے سہ ماہی ترمیم میں یعنی مارچ 2014 کے ایڈیشن میں 900 نئے الفاظ اصطلاحات ، محاورے وغیرہ شامل کئے ہیں یعنی اضافہ کئے ہیں ۔ انکا بہت بڑا عملہ ہے جو مسلسل ترمیم اور اصلاح کے کام میں ہمہ وقتی طور پر جڑا ہوا رہتا ہے اور سال میں چار مرتبہ اس میں ترمیم ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے اس زبان کی مقبولیت اور جامع ہونے کا یہ ثبوت ہے ۔ صحیح معنوں میں یہ زندہ زبان ہے ۔

دوسری زبانوں کی ترقی میں کیا قدم اٹھائے جارہے ہیں اس کا مجھے علم نہیں ہے مگر افسوس کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اتنی کثیر تعداد میں اردو ادیبوں اور شاعروں کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہیکہ فیروز اللغات جیسی تھی ویسی ہی ہے ۔

اس ضمن میں اہل فکر حضرات پہل کرنا زبان کی بقا کیلئے ضروری ہے ۔ خیالات کے ارتقاء پر ہی غور کریں تو پتہ چلتا ہیکہ ہماری غور وفکر منجمد ہو کر رہ گئی ہے ۔ کیا ہم صرف اردو میں سوچتے ہیں ۔ میں جب تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کی منجمد غور و فکر کو دیکھتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ وہ کتنے مطمئن ہیں ۔ ڈاکٹری کی یا کوئی اور فنی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور ممکن ہے ہندوستان میں یا بیرون ملک میں بہترین ملازمت حاصل کرچکے ہیں اور مست خوشحال زندگی گذار رہے ہیں ۔ زندگی کے دوسرے معاملات میں غور و فکر یا تو محدود رہتی ہے یا پھر انتہائی قدامت پسند یا دقیانوسی ہوسکتی ہے۔ کھلے ذہن کی خوبیوں سے نابلد ہیں ۔ غور و فکر اگر زمانے کی غور وفکر کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو تو پھر دنیاوی معاملات کو نہ تو ہم صحیح طریقے سے سمجھ پائیں گے نہ انکا مقابلہ کرسکیں گے ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم دنیا سے الگ تھلگ ہوتے جائیں گے ۔ اس کی بہترین روزمرہ کی مثال تلگو زبان سے ناواقفیت ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ دفاتر وغیرہ میں یہی زبان چل رہی ہے مگر اپنے نوجوان اس کو پڑھنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اضلاع کے بچوں میں زبان کے تعلق سے اتنا تعصب نہیں ہے جتنا کہ شہر کے انگریزی میڈیم کے مدارس کے مسلمان طلبا میں ہے ۔ میری حجت کو اور واضح کرنے کے لئے ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔

ہماری پرانی تہذیب میں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ خودستائی اور اپنی ہی تعریف کرتے رہنا معیوب بات ہے ۔ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بنو ۔ پرانے لوگ اپنا تعارف کچھ اس طرح سے کرواتے تھے ۔ ناچیز کو فلاں فلاں کہتے ہیں ۔ آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لایئے ، منکسر المزاجی ایک وصف سمجھا جاتا ہے اور اچھی تہذیب کی ایک علامت تھی ۔کتنے اچھے الفاظ کا استعمال ہوا کرتا تھا مثلاً آپ کا خاکسار وغیرہ وغیرہ ۔

ان اخلاقی خوبیوں اور صفات کو آجکل شخصیت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں پر کسر شان کا مسئلہ آجاتا ہے ۔عزت نفس اور اپنی توقیر کو عملی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ ضروری ہے۔
آپ قابلیت کے ساتھ ساتھ دبدبہ نہ پیش کریں گے اور ہاتھ ملتے ہوئے جی حضوری کرتے رہیں گے یا پھر انکسار کا مجسمہ بن جائیں گے تو اپنا صحیح مقام اس گلا کاٹنے والے سماج میں حاصل نہ کرسکیں گے ۔ آپ کو اپنا حق گھس پیٹھ کرکے حاصل کرنا پڑے گا ۔

یہ زمانہ خاص طور سے تعلیم یافتہ اور قابل نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کیلئے مسابقتی دور اور مسابقتی دوڑ کا ہوگیا ہے جہاں پر عام زبان میں کانٹے کی ٹکر ہے ۔ جیتنے والے اور ہارنے والے کے درمیان بال برابر کا فاصلہ بھی زیادہ نظر آرہا ہے ۔
ایسے زمانے میں اگر آپ شرافت دکھاتے ہوئے پہلے آپ پہلے کہتے رہیں گے تو ضرور خسارے میں رہ جائیں گے ۔ ساتھی آگے بڑھ جائیں گے ۔ آجکل نوکری کیلئے ماہرانہ اور ایک فنی طریقے سے تعلیمی کوائف بھی سوانحی خاکہ (Bio-data) تیار کرنا پڑتا ہے جس میں خود آرائی ، خود ستائی کے ساتھ اس کو فراخدلانہ انداز میں تیار کرنا پڑتا ہے ۔ اپنی کمزوریوں کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اپنے کارناموں اور خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا پڑتا ہے جو پرانے اخلاقی معیار سے معیوب سمجھا جاتا تھا۔
اپنے آپ کو کمتر پیش کرنے کا زمانہ گیا اوربہتر اور برتر پیش کرنا ہی زمانہ میں کامیابی کا راز ہے ۔

اس تبدیلی کو بزرگ حضرات برائی نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اسکا تعلق خود اعتمادی ہی سے ہے ۔ گو کہ اس میں غرور و تکبر نظر آتا ہے مگر غرور اور تکبر اور مضبوط خود اعتمادی میں بہت کم فرق ہے ۔ اس لئے میں نوجوانوں کی توجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ شخصیت کی کارکردگی کی طرف دلواتا رہتا ہوں ۔
شخصیت کا کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے خودشناسی بہت ضروری ہے ۔آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچانئے اور سمجھئے بے شمار لڑکے اور لڑکیاں انجینئرنگ یا MCA کی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں مگر جب انٹرویوز میں جاتے ہیں تو نامراد واپس ہوتے ہیں ۔ پھر مایوس ہوجاتے ہیں ۔ والدین کا دباؤ نوکری ڈھونڈنے پر رہتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتے ۔ جان پہچان والے بھی ملازمت کے تعلق سے پوچھتے رہتے ہیں تو شرمندگی ہونے لگتی ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ مشرق وسطی چلے جائیں تو ممکن ہے وہاں پر ملازمت مل جائے گی مگر موجودہ عرب جوان لوگ قابلیت کو اچھی طرح سے جانچنے لگے ہیں ۔ 20 سال پہلے انکے والدین ہندوستانیوں کی تعلیم اور کارکردگی کے قائل تھے اور چونکہ خود انگریزی داں نہ تھے اس لئے ہمارے لوگوں کی کمزوریوں کا بھانڈا نہیں پھوٹتا تھا ۔ مگر حالات بدل گئے ہیں اور عرب نوجوان تعلیم یافتہ ہیں اور ان کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی ۔ ہمارے بیچارے نوجوان وہاں سے بھی بے نیل مرام واپس ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں ۔
انجینئرنگ کالج سے کسی نہ کسی طرح ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں کامیاب ہونہیں پاتے ۔ والدین اس کمزوری کو سمجھنا چاہئے ۔

زبردستی ان کو اعلی تعلیم دلوانے کی جو خواہش والدین میں ہوا کرتی ہے اس پر یہ نیم رضامند لڑکے پورے نہیں اترتے اور ناقابل ملازمت بن جاتے ہیں ۔
سونے پر سہاگہ جب ان کی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ان کی انجانے گھرانے میں شادی رچادی جائے تو دوسرا معصوم خاندان بھی چکر میں گھر جاتا ہے ۔ اس لئے جہاں پر تعلیم یافتہ لڑکیوں کے رشتوں کا تعلق ہے تو لڑکے کی ڈگریوں پر ہی اپنے فیصلے مت کیجئے بلکہ ان کے ملازمت کے ریکارڈ پر توجہ دیجئے ۔
ناکارہ انسان سے شادی کرنے کے بجائے عمر بھر غیر شادی شدہ رہنا میرے اپنے خیال میں بہتر ہے ۔ کیونکہ بے روزگار شوہر اگر روزگار کے قابل ہی نہیں تو اولاد بھی مسلسل نالاں رہے گی اور ساری عمر مصائب ہی میں گذرے گی ۔
لہذا تعلیم ہو یا نہ ہو اپنی غور و فکر کو وسعت دیتے رہئے ۔
مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں مضمون خاص ہوں
مانا ترے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں