مجھے یقیں ہے کہ کچھ جل رہا ہے چاروں طرف

رشیدالدین
عراق میں داخلی انتشار اور تشدد کی صورتحال خانہ جنگی کا رخ اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف مشرق وسطی بلکہ عالمی امن کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ مخالف حکومت گروپس نے جس طرح اچانک بغاوت کا پرچم بلند کرتے ہوئے عراق کے 5 شہروں پر کنٹرول حاصل کرلیا، ان کی پیشقدمی نے نہ صرف امریکہ بلکہ ان تمام ممالک کی نیند اڑادی ہے جو صدام حسین کا تختہ الٹنے اور تختہ دار پر پہنچادینے کے بعد قیام امن کا دعویٰ کر رہے تھے ۔ عراق کی تازہ ترین صورتحال کے منفی اثرات یقینی طور پر عالمی معیشت پر مرتب ہوں گے ۔ چونکہ عراق کا شمار تیل کے ذخائر سے مالا مال دنیا کے دوسرے بڑے ملک میں ہوتا ہے لہذا صورتحال کے بگاڑ کے ساتھ ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان عالمی منڈی میں دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کو بھی دوہرے چیلنجس کا سامنا ہے ۔ عراق میں پھنسے ہوئے ہزاروں ہندوستانی شہریوں کا تحفظ مرکز کی نریندر مودی حکومت کا پہلا خارجی چیلنج ہے۔ یوں تو مودی حکومت کیلئے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا چیلنج برقرار ہے لیکن عراق کی صورتحال نے بیرونی سطح پر حکومت کو پہلی آزمائش سے روبرو کردیا ہے۔

متاثرہ شہروں میں مقیم ہندوستانیوں کے جان و مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کے علاوہ تمام کی بحفاظت وطن واپسی کو یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے ۔ یہ ایسی آزمائش ہے کہ کسی بھی حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے عوام سے ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ کے وعدے کے ساتھ اقتدار سنبھالنے والے نریندر مودی کو اندرون ایک ماہ داخلی اور خارجی سطح پر کئی آزمائشوں نے گھیرلیا ہے ۔ عام آدمی کو امید تھی کہ شائد قیمتوں میں کمی ہوگی اور مہنگائی پر قابو پانے اقدامات کئے جائیں گے لیکن کمی کے بجائے مہنگائی میں اضافہ کا رجحان برقرار ہے اور عراق کی تازہ صورتحال مہنگائی میں مزید اضافہ کی دستک دے رہی ہے۔ عراق میں ملازمت کیلئے جانے والے ہزاروں افراد اور مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے سفر کرنے والے زائرین کی کثیر تعداد خانہ جنگی کے درمیان پھنس چکی ہے۔ مرکزی حکومت نے عراق میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کی حقیقی تعداد کے بارے میں ابھی تک انکشاف نہیں کیا کیونکہ ملازمت کی غرض سے جانے والوں کی اکثریت متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک سے عراق پہنچی ہے ۔ مخالف حکومت فورسس کی جانب سے 40 ہندوستانیوں کے اغواء کی بھی اطلاع ہے لیکن وزارت خارجہ ان کی سلامتی کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے۔

اطلاعات کے مطابق بعض علاقوں میں ہندوستانی محفوظ ہیں تو بعض علاقوں سے وہ تخلیہ کے خواہاں تو ہیں لیکن اس کیلئے ماحول سازگار نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی حکومت اپنے پہلے بیرون ملک امتحان کا سامنا کس طرح کرے گی ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی نے حکومت کی مکمل تائید کا اعلان کیا۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں ساری قوم کو سیاست سے بالاتر ہوکر اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد کے عراق میں پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ وقت مرکزی حکومت کیلئے صرف بیان بازی اور زبانی دلاسہ کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ وزارت خارجہ میں ہیلپ لائین یا خصوصی سیل کے قیام اور عراق میں مقیم ہندوستانی سفارت کاروں کو ہدایت جاری کرنا کافی نہیں بلکہ اقوام متحدہ، ریڈ کراس اور دیگر عالمی اداروں کے اشتراک سے ہندوستانیوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانا ہوگا۔ امریکہ کی جانب سے حکومت عراق کی مدد اور مخالف حکومت گروپس کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں صورتحال دھماکو شکل اختیار کرنے کا اندیشہ ہے ۔ اس سے ہندوستانیوں کی بحفاظت واپسی کے امکانات بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان عالمی طاقتوں پر دباؤ بنائے کہ وہ عراق میں فوجی مداخلت کے بجائے تنازعہ کی پرامن یکسوئی کا راستہ تلاش کریں۔ عراق کی صورتحال کا اثر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں پر پڑنے لگا ہے ۔ فی بیارل تیل کی قیمت 114 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اگر یہ قیمت 120 ڈالر تک پہنچ جائے تو عالمی معیشت پھر ایک بار بحران کا شکار ہوجائے گی

اور ہندوستان بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں پائے گا ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ گوا کے موقع پر ملک کی معیشت کی سدھار کیلئے بعض سخت فیصلوں کو ناگزیر قرار دیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ یو پی اے حکومت نے خالی خزانہ حوالہ کیا ہے۔ مودی نے معیشت میں سدھار کیلئے ’’کڑوی دوائی‘‘ کی مثال پیش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یو پی اے دور حکومت میں بیرونی زر مبادلہ میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور یہی رجحان آج تک برقرار ہے۔ کسی بھی ملک کا بیرونی زر مبادلہ اس ملک کے معاشی استحکام کی علامت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ ، پی چدمبرم ، ڈاکٹر سی رنگا راجن ، مونٹیک سنگھ اہلوالیہ اور آر بی آئی کے سابق گورنر سبا راؤ جیسے ماہرین معاشیات کی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان 2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران کے اثر سے محفوظ رہا۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہونے سے قبل ملک کی معیشت کے استحکام اور اسے انحطاط سے بچانے میں پرنب مکرجی کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر حکومت کی باگ ڈور سیاستدانوں کے ہاتھ ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔ دراصل معیشت میں سدھار کیلئے سخت گیر فیصلوں کی آڑ میں مودی حکومت آئندہ بجٹ میں عوام پر ٹیکس کا بوجھ عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس طرح مودی کو ان صنعتی گھرانوں کو ریٹرنس ادا کرنا ہے جنہوں نے انتحابی مہم کے دوران ان کے حق میں بھاری سرمایہ کاری کی تھی ۔ بجٹ سے قبل ہی ریلوے کرایوں میں اضافہ کردیا گیا اور اب پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کے اشارے ملنے لگے ہیں۔

وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد کسی بھی وزیراعظم کا پہلا بیرونی دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مضبوط بھارت کی تعمیر کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی نے بھوٹان سے اپنے بیرونی سفر کا آغاز کیا۔ نریندر مودی کے ڈھنڈورا میڈیا نے بھوٹان کے دورہ کو مودی کے ایک کارنامہ کے طور پر پیش کیا۔ حالانکہ ہندوستان جیسی ابھرتی طاقت کیلئے کسی کمزور ملک کے پاس جانا کوئی کارنامہ نہیں ہوسکتا۔ سابق وزیراعظم چندر شیکھر اور آئی کے گجرال نے وزیراعظم کی حیثیت سے پہلا بیرونی دورہ نیپال کا کیا تھا۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاید مودی نے بھوٹان کا انتخاب کیا۔ راجیو گاندھی نے (مئی 1985 ء ) سوویت یونین کا پہلا سفر کیا تھا جبکہ وی پی سنگھ ( جون 1990ء) میں ملایشیا ، پی وی نرسمہا راؤ (ستمبر 1991 ء ) جرمنی ، ایچ ڈی دیوے گوڑا (نومبر 1996 ء) زمبابوے ، اٹل بہاری واجپائی (اگست 1998 ء) مسقط (عمان) اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے (جولائی 2004 ء) میں وزیراعظم کی حیثیت سے تھائی لینڈ کا پہلا بیرونی دورہ کیا تھا ۔ نریندر مودی کا دورہ بھوٹان محض اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مودی کی بھوٹان روانگی کے ساتھ ہی چین نے اس دورہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک سے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔

عام طور پر ایک ملک کا سربراہ دوسرے ملک کا دورہ کرنا کوئی خاص بات نہیں لیکن چین نے جس انداز میں خیرمقدم کیا ، اس سے سیاسی مبصرین کئی اندازے اخذ کررہے ہیں۔ چین کی طرف ہندوستان کے بڑھتے جھکاؤ کے پس منظر میں اس دورہ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ چین کے مفادات کی تکمیل کیلئے دورہ کیا گیا۔ سرحدی اور دیگر تنازعات کے سبب چین اور بھوٹان کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ لہذا چین نے مودی کو مشاطہ وقت کے طور استعمال کیا ہے۔ چین کے تجارتی مفادات کے تحفظ کیلئے مودی رابطہ کار کے طور پر روانہ ہوئے تاکہ چین اور بھوٹان کے درمیان خلیج کو پاٹ سکیں۔ چین کے مفادات کی تکمیل کی کوششوں میں نریندر مودی بھول گئے کہ اروناچل پردیش کے ایک حصہ پر چین قابض ہے اور اروناچل پردیش چینی افواج کے لئے چہل قدمی کا علاقہ بن چکا ہے۔ نریندر مودی چین کی دوستی میں یہ بات بھی بھول گئے کہ چین اور پاکستان کا گٹھ جوڑ کبھی بھی ہندوستان کی تائید نہیں کرسکتا اور مخالفین کی سرگرمیوں کو ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ چین پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور وہ کسی بھی صورت میں پاکستان کو چھوڑ نہیں سکتا۔ نریندر مودی 1962 ء میں ہندوستان کے خلاف چینی جارحیت کو بھی بھول گئے جبکہ ہندوستان میں ہندی۔چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جارہا تھا۔ چین کی طرف ہندوستان کا جھکاؤ درحقیقت ہندوستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی امریکہ کی جانب سے ویزا دیئے جانے سے انکار کے مسئلہ پر ابھی بھی نفسیاتی احساس کمتری کا شکار ہیں۔ گجرات فسادات اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر امریکہ نے ویزا دینے سے انکار کیا تھا۔ اب جبکہ نریندر مودی وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوچکے ہیں، امریکہ نے خود انہیں دورہ کی دعوت دی۔ اس کے باوجود مودی نفسیاتی اثر سے ابھر نہیں پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جھکاؤ چین کی طرف کچھ زیادہ ہی ہے۔ وہ چین کی مدد سے ہندوستانی تجارت کو فروغ دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں چین سے تعاون کی امید کرنا دفاعی ماہرین کے مطابق فضول ہوگا۔ نریندر مودی نے جو جاپان کا دورہ کرنے والے تھے اس پروگرام کو پارلیمنٹ سیشن کے بہانے منسوخ کردیا ۔ دراصل چین اور جاپان کے درمیان سمندی سرحدوں کے مسئلہ پر کشیدگی پائی جاتی ہے، ہوسکتا ہے کہ جاپان کے دورہ کو منسوخ کرتے ہوئے مودی نے چین کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین سے بہتر تعلقات ہوں یا پھر مودی حکومت کی معیشت کے استحکام کے نام پر عوام پر بوجھ عائد کرنے کی شروعات ، یہ تمام سرگرمیاں مخصوص صنعت کاروں کے مفادات کی تکمیل کا حصہ ہیں۔ عراق کی صورتحال پر والی آسی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎

یہ جگنوؤں کی قطاریں نہیں فضاؤں میں
مجھے یقیں ہے کہ کچھ جل رہا ہے چاروں طرف