محمد عاصم نشاط
وزیر اعظم نریندر مودی ویسے تو ہر وقت بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں جو حقائق سے بعید ہوتے ہیں لیکن اس ہفتے انہوں نے دو ایسے کام کئے ہیں جو ان کی نظرمیں بھلے ہی ایسے کام ہوں جو شاید دنیا میں آج تک کسی نے نہ کیا ہولیکن حقیقت میں ان کے اکثر کام جگ ہنسائی کا موضوع بن جاتے ہیں اس طرح اس ہفتے کے دوکام جس میں ایک گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا مجسمہ ہے جو دنیا کا سب بڑا مجسمہ ہے جبکہ دوسرا کام کوریا کے صدر کو نہرو جیکٹ تحفتاً روانہ کرتے ہوئے اس پر مودی جیکٹ کا نام لگانا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے جنوبی کوریا کے صدر کو بطور تحفہ ’نہرو جیکٹ‘ کے نام سے مشہور جیکٹ روانہ کی ہے لیکن اس پر ’مودی جیکٹ‘ کا ٹیگ لگایا گیا ہے جس کا لوگ کافی مذاق بنا رہے ہیں۔ کانگریس سے اتنی نفرت کہ ملک کو کانگریس مکت (پاک) بنانے کا اعلان اور کوشش کی لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ ہر محاذ پر ناکام مودی حکومت نے اپنے اقتدار کے روز اول سے کانگریس کی برائی کرنا اپنی حکومت کا مقصد بنایا اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر کونے میں جہاں جہاں وزیر اعظم گئے وہاں انہوں نے یہ ضرور کہا کہ گزشتہ 70 برسوں میں ہندوستان میں کوئی کام نہیں ہوا اور اب ان کی حکومت ایک عزم کے ساتھ ملک کو بدل کر ترقی کی راہ پر لا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے ان دعوؤں کا نتیجہ یہ ہو اکہ عوام اب ان کی رپورٹ کارڈ کا جائزہ لے رہی ہے اور یہ محسوس کر رہی ہے کہ حکومت نے گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں کچھ کیا ہی نہیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستانی حکومت کے یوم جمہوریہ کے دعوت نامہ کو آخری وقت میں ٹھکرا دیا ہے جس کے بعد حکومت کو یوم جمہوریہ کے لئے نیا مہمان خصوصی طے کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔ ایسے وقت میں ہندوستانی حکومت نے جنوبی کوریا کے صدر کو’ نہرو جیکٹ‘ نام سے مشہور جیکٹ پر’ مودی جیکٹ‘ کا ٹیگ لگاکر تحفہ کے طور پر بھیج دیا۔ جس کے بعد طنز مزاح کا ملک میں ماحول گرم ہونے لگا ۔ جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے اس پر ٹوئٹ کر کے کہا ہے بہت اچھا ہے کہ وزیر اعظم نے جنوبی کوریا کے صدر کو یہ جیکٹ بھیجا ہے لیکن اس کو بغیر نام بدلے بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ اپنی پوری زندگی میں اس جیکٹ کو نہرو جیکٹ کے نام سے جانا ہے اب اس پر ’مودی جیکٹ‘ کے نام کا ٹیگ لگا دیا ہے۔ واقعی سال 2014 سے پہلے کچھ بھی وجود میں نہیں آیا تھا ۔ جیکٹ پر مودی جیکٹ کا ٹیگ لگانے سے حکومت کی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ کئی لوگوں نے اس پر ٹوئٹ ری ٹوئٹ کر کے تنقید کی ہے۔ ویسے بھی وزیر اعظم مودی کے نام کے لگے ٹیگ کی جیکٹ اگر دوسرے ملک کا سربراہ پہنے تو یہ اس کے ملک یا وزیر اعظم کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ خود اسکی اور اسکے ملک کے اپنے وقار پر ضرور انگلیاں اٹھیں گی۔مودی حکومت نے انتخابات سے قبل کئے گئے اپنے کسی بھی وعدے کو پورا نہیں کیا ہے ، گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں ملک کے آئینی ادارے بری طرح تباہ ہو گئے ہیں۔ انتخابات کے وقت سب سے بڑا وعدہ وکاس اور کالے دھن کا تھا ۔ کالے دھن کو ہندوستان واپس لانے کیلئے انہوں نے 100 دن کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’متروکالا دھن لانے کیلئے مجھے 100 دن دیں‘‘ لیکن لگتا ہے کہ ٹسٹ کرکٹ میں سنچری کا خواہش مند بیٹسمین 99 رنز پر کئی گیندیں جس طرح ضائع کرتا ہے ویسے ہی مودی شاید اپنے وعدوں کے 99 پر اٹک گئے ہیں۔ من کی بات کرنے والے وزیر اعظم مودی دوسرا کام 31 اکٹوبر2018 کو اپنے آبائی صوبہ گجرات کے نرمدا ضلع میں کیوڈیا میں واقع سردار سروور ڈیم سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر سادھو جزیرے پر تیار سردار ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمہ ’’اسٹیچو آف یونٹی ‘‘کی نقاب کشائی ۔ اس کے ساتھ ہی یہ چین کے اسپرنگ فیلڈ بدھ کی 153 میٹر بلند مجسمہ کو باضابطہ طور پر پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا بلند ترین مجسمہ بن گیا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف اس کے چہرے کی اونچائی ہی سات منزلہ عمارت کے برابر ہے۔ اس کے ہاتھ 70 فٹ طویل ہیں جبکہ پاؤں کے نچلے حصے کی اونچائی 85 فٹ ہے۔ تقریبا تین ہزار کروڑ روپے کے اخراجات سے قریب ساڑھے تین سال میں بن کر تیار ہونے والے اس مجسمہ کی اونچائی نیویارک میں واقع اسٹیچو آف لبرٹی سے بھی تقریباً دوگنی ہے۔ اسے بنانے کا اعلان گجرات کے سابق چیف منسٹرکے طور پر مودی نے سال 2010 میں کیا تھا۔ اس کام کیلئے ایل اینڈ ٹی کمپنی کو اکتوبر 2014 میں مقرر کیا گیا تھا۔ کام کا آغاز اپریل 2015 میں ہوا تھا۔ اس میں 70 ہزار ٹن سیمنٹ، تقریبا 24000 ٹن اسٹیل، 1700 ٹن تانبہ اور اتنا ہی کانسہ لگا ہے۔ مجسمہ کی بنیاد پر ایک میوزیم اور اس کے اندر 153 میٹر کی اونچائی پر جہاں اس کا قلب کا حصہ ہے، اس پہاڑی علاقے، دریائے نرمدا اور قریبی سردار سروور ڈیم کا نظارہ دیکھنے کے لئے ایک اسپیکٹیٹر زون بھی بنایا گیا ہے۔ اس میں دو لفٹ بھی لگائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے قریب ہی دریائے نرمدا کے کنارے پھولوں کے باغیچے ویلی آف فلاوز، ملک کے ایک لاکھ 69 ہزار دیہات سے لائی گئی مٹی سے بنی اتحاد کی دیوار (وال آف یونٹی) اور سیاحوں کے لئے تیار ٹینٹ سٹی کا بھی افتتاح کیا۔ مودی کی جانب سے سردار پٹیل کی جینتی پر اس مجسمہ کو ملک کو معنون کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس پر پھول بھی برسائے گئے۔ فضائیہ کے طیاروں نے اس موقع پر آسمان میں ترنگا بنایا۔ گجرات حکومت کی جانب سے مودی کو اس موقع پر ایک توصیفی سند اور اس مجسمہ کی تیاری کے لئے کسانوں سے سامان جمع کرنے کی مہم کے دوران ملا پہلا کھیت اورجھارکھنڈ کے ایک کسان کا ہتھوڑا بھی سونپا گیا۔ اس موقع پر منعقد اہم تقریب میں سردار پٹیل کے لواحقین بھی موجود تھے۔ کرناٹک کے گورنر وجوبھائی والا، مدھیہ پردیش کی گورنر مسز آنندی بین پٹیل، گجرات کے گورنر او پی کوہلی، چیف منسٹر وجے روپانی، نائب وزیر اعلی نتن پٹیل اور بی جے پی صدر امیت شاہ بھی وہاں موجود رہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج جو یہ سفر ایک منزل تک پہنچا ہے ، اس کا سفر آٹھ سال پہلے آج کے ہی دن شروع ہوا تھا۔ 31 اکتوبر 2010 کو احمدآباد میں یہ تجویز میں نے سب کے سامنے رکھی تھی۔ کروڑوں ہندوستانیوں کی طرح تب میرے ذہن میں ایک ہی احساس تھا کہ جس شخص نے ملک کو متحد کرنے کے لئے اتنی بڑی جدوجہد کی ہو ، اس کو وہ احترام ضرور ملنا چاہئے جس کا وہ حقدار ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک کے لئے سوچنے والے نوجوانوں کی طاقت ہمارے پاس ہے۔ ملک کی ترقی کے لئے یہی ایک راستہ ہے جس کو لے کر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ملک کی یکجہتی و ہم آہنگی کو بنائے رکھنا ایک ایسا فریضہ ہے جو سردار صاحب ہم کو دے کر گئے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کو تقسیم کرنے کی ہر طرح کی کوشش کا پرزور جواب دیں۔ اس لئے ہمیں ہر طرح سے محتاط رہنا ہے۔ سماج کی حیثیت سے متحد رہنا ہے۔ جس اتحاد کے نام پر مودی نے سردار صاحب کا مجسمہ کی نقاب کشائی کی ان کے ہی حامی ملک کو ہندو۔مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑرہے ہیں۔مودی نے اس مجسمہ کو ترقی کیلئے واحد راستہ قراردیا ہے لیکن اس کے درپردہ حقائق اور اعداد شمار ہر ذی شعور ہندوستانی کو سوچنے پر مجبور کردیں گے۔گجرات کے نرمدا ضلع میں پولس نے مودی کی جانب سے سردارصاحب کے مجسمہ کی نقاب کشی سے عین ایک دن قبل متعدد آدیواسی کارکنان کو اس وقت گرفتار کیا جب اگلے دن وزیر اعظم نریندر مودی سردار ولبھ بھائی پٹیل کے دنیا کے سب سے بڑے مجسمہ کا افتتاح کرنے جا رہے تھے۔ آدیواسی کارکنان کو کیواڈیا، راج پیپلا اور ڈیڈی پاڈا تعلقہ میں گرفتار کیا گیا ہے، سردار پٹیل کے مجسمہ کا نام ‘اسٹیچو آف یونیٹی ‘ یعنی مجسمہ اتحاد رکھا گیا ہے۔ اسٹیچو آف یونیٹی کو بنانے میں 3 ہزار کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں ، اس کی بلندی 182 میٹر ہے جو کہ دنیا کے تمام مجسموں میں سب سے زیادہ ہے۔ اسٹیچو آف یونیٹی کو بنانے میں بظاہر تو 3 ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن یہ عوام کے لئے اس سے کہیں زیادہ مہنگا پڑا ہے۔ اسٹیچو آف یونیٹی کو سردار سروور ڈیم کی 3 کلومیٹر اراضی پر تعمیر کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تقریباً 35000 خاندان متاثر ہوئے ہیں اور تاحال باز آبادکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔بہر کیف ہندوستانی عوام ایندھن کی قیمتیوں میں کمی،ملک میں امن،رام راج کے نام پر اقلیتوں کا ہجومی قتل،آئینی اداروں سے بدعنوانی کو دورکرنے اور اس طرح کے دیگر بنیادی مسائل کے حل ہونے کی امید کررہے تھے تو انہیں مودی نے اپنے 56 انچ کا سینہ پھولاتے ہوئے ایک مجسمہ دکھایا ہے۔